موت کی آغوش میں سلگتی ذندگی

پناہ کے متلاشی کروڑوں مہاجرین دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی نام نہاد جنگ نے دنیا بھر کے انفراسٹر کچر کو تباہ کرکے ان ممالک کو خانہ جنگی کی سی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔

جمعہ 15 جنوری 2016

Maut Ki Aaghosh Main Sulagti Zindagi
محبوب احمد:
دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی نام نہاد جنگ نے دنیا بھر کے انفراسٹر کچر کو تباہ کرکے ان ممالک کو خانہ جنگی کی سی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔عراق، شام، افغانستان اور دیگر ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ جہاں امریکی کارروائیوں سے سب کچھ تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ دنیا بھر میں غربت، بھوک اور بے سروسامانی کے شکار دربدر کی ٹھوکریں کھانیوالے مہاجرین کی محرومی حددرجہ بڑھ رہی ہے کیونکہ نقل مکانی کرنے والے افراد کے حقوق کا کوئی بھی ضامن نہیں اور دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بہت سی حکومتیں امیگریشن کنٹرول کے نام پر انسانی حقوق کا استحصال کر رہی ہیں، مختلف ممالک میں خانہ جنگی ،پرتشدد تنازعات اور بدامنی کی وجہ سے دنیا بھر میں لاکھوں نئے پناہ گزین سامنے آئے ہیں جبکہ لاکھوں افراد اپنے ہی ممالک میں مہاجرت پر مجبور ہیں۔

(جاری ہے)

شورش زدہ علاقوں میں تومہاجرین کو انتہائی مشکل حالات سے دو چار ہونا پڑرہا ہے بلکہ انہیں جبری مشقت اور جنسی استحصال جیسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عالمی افق پر اقتدار کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک نے عراق اور افغانستان پر چڑھ دوڑنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی لیکن جب مسئلہ مہاجرین کو دوبارہ بسانے کا پیش آیا تو ان ممالک کی طرف سے کوئی خاطر خواہ مدد نہیں کی گی۔

جب کبھی بھی عالمی مستقبل، حکمت عملیوں اور مفادات کی بات کی جاتی ہے تو یہ موضوعات اس گفتگو سے خارج ہوتے ہیں۔ لڑائی کے خاتمے میں ناکامی سے دنیا میں مجبور مہاجرین کی تعدادمیں دن بدن اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ لوگوں کے بے گھر ہونے کی وجوہات مختلف ہیں جہاں کوچھ لوگ خانہ جنگی، کچھ قحط سالی اور کچھ موسم کی سختیوں کی وجہ سے اپنے ممالک کو چھوڑنے پر مجبورہیں تو وہیں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اپنے ہی ملک میں بے گھر ہے ،ایک ایسے ملک میں جہاں ایک مسئلے کے بعد دوسرا مسئلہ آئے دن کھڑا ہوتارہتا ہے نتیجے میں مہاجرین کی تعداد بڑھتی ہی رہتی ہے ۔

امداد فراہم کرنے کا کام اور ان بے گھر لوگوں کو بسانے کے لیے وسائل کی فراہمی ایک بھاری بھرکم فریضہ ہوتا ہے۔گزشتہ تین دہائیوں میں عراق اور افغانستان کی جنگوں کے بعد ایران اور پاکستان نے دنیا بھر میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد کو اپنے ممالک میں پناہ دی ۔دنیا بھر میں پرتشدد تنازعات کے باعث جبراََ نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 6 کروڑ تک پہنچ گئی ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے اور مہاجرین کی تعداد میں یہ اضافہ امدادی اداروں کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔

عراق، شام ، وسطی افریقہ اور جنوبی سوڈان میں جاری لڑائی کے باعث اس تعدادمیں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔دنیا میں انسانی آبادی کے ایک قابل ذکر حصہ کے پاس اپنا گھر نہیں اور یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ کینیا کا تیسرا بڑا شہرا صل میں ایک ریفیوجی کیمپ ہے اور اس میں لاکھوں پناہ گزین قیام پذیر ہیں۔ مہاجرین کی زیادہ تر تعداد ترقی پذیر ممالک میں پہنچ کر خود کو اقوام متحدہ کے ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ کروا رہی ہے اور ان ممالک میں بعض انتہائی غریب ملک بھی ہیں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مہاجرین کو پناہ دینے والے ممالک کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے خاطر خواہ امداد بھی فراہم نہیں کی جاتی۔

ترقی یافتہ ممالک چاہے ان میں وہ جو براہ راست ان ممالک کے اندر ہنگاموں اور افراتفری کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں انہی ممالک کو سیاسی ہنگاموں اور ختم نہ ہونے والے حکومتی مسائل کے لیے مطعون کرتے ہیں اور کوئی بھی یہ نہیں سوچتاہے کہ یہ عدم استحکام لوگوں کے مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی وجہ سے ہے۔ایک ایسے ملک میں جس میں متواقع ویسے ہی محدود ہیں۔

دنیا بھر میں ہزاروں مہاجرین اپنی زندگی کے بہترین اوقات خیمہ بستیوں میں گزارتے ہوئے اپنے بے گھر ہونے کے باعث پیش آنے والے بحرانوں کو تقریباََ بھلا چکے ہیں۔مہاجرین کی دیکھ بھال کا زیادہ تر بوجھ ان ممالک پر ہے جو خود کسمپر سی کی حالت سے دوچار ہیں۔ تقرقی پذیر ممالک دنیا بھر کے مہاجرین کی 86 فیصد تعداد کے میزبان ہیں جبکہ دولت مند ممالک محض 14 فیصد تعداد کا خیال رکھ رہے ہیں۔

10برس قبل دولت مند ممالک 30 فیصد اور ترقی پذیر ممالک 70 فیصد مہاجرین کے میزبان تھے، اس وقت لاکھوں مہاجرین غربت میں رہنے پر مجبور ہیں جبکہ بعض حکومتیں مہاجرین کے حقوق کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنے سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانے میں مصروف ہیں۔ یورپی یونین کی سرحد کو محفوظ بنانے کے اقدامات سے مہاجروں اور سیاسی پناہ لینے والوں کے لیے بھی خطرہ بڑھ گیا ہے۔

دنیا بھر میں مہاجرین اور سیاسی پناہ گزینوں کو جیل میں بندر کھا جاتا ہے اور بعض اوقات تو انہیں جہازوں میں تنگ جگہ پر محصور کر دیا جاتا ہے ۔ شام میں 2014 کے وسط تک تقریباََ ایک کروڑ افراد کو ملک کے اندر نقل مکانی کرنا پڑی ، ان کی تعداد میں اب بھی اضافہ ہو رہا ہے اور پہلی بار شامی مہاجرین کی آبادی افغان مہاجرین سے زیادہ دکھائی دے رہی ہے ۔

شام اور افغانستان کے علاوہ دوسرے نمایاں ممالک جن میں صومالیہ، جنوبی سوڈان ، عوامی جمہوریہ کا نگو، برما اور عراق شامل ہیں کے مہاجرین آج کسمپر سی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، اردن اور لبنان جن کی اپنی آبادی بہت تھوڑی ہے وہ مجموعی طور پر 18 لاکھ پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہے ہیں جبکہ سب سے زیادہ اقتصادی بوجھ ایتھوپیا اور پاکستان کو برداشت کرنا پڑرہا ہے جو اپنی معیشت کے حجم کی نسبت زیادہ مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں ،دوسری طرف جمہوریہ وسطی افریقہ اور جنوبی سوڈان میں بڑے تنازعات کے سبب کثیر تعداد میں لوگ بے گھر ہو رہے ہیں ، اگرچہ ممالک بہت کم اس بات کے اہل ہیں کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی میزبانی کری سکیں اور اکثر اوقات امداد دینے والے امیر ممالک کی طرس سے مناسب امدا بھی نہیں ملتی۔

میانمار کے ساتھ ملحق تھائی لینڈ کی سرحد میانمار کے کیرن اقلیت کے ایک لاکھ 20 ہزار افراد 20 برس سے زائد عرصہ سے مہاجر بستیوں میں مقیم ہیں ان کے لیے خوراک ،پانی ، قیام اور طبی سہولیت تک رسائی محدود ہے ۔لبنان میں اس وقت 10لاکھ سے زائد مہاجرین آباد ہیں یعنی اس کی مجموعی آبادی کا ایک چوتھائی شامی باشندے جن کے لیے رہائشگاہوں، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Maut Ki Aaghosh Main Sulagti Zindagi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 January 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.