معذوروں کا کوٹہ ہوا میں اُڑا دیا

تعلیمی اداروں میں سرکار ناکام ہو گئی ؟ ہماری سرکارظاہر تویہی کرتی ہے کہ وہ معذوروں کو معاشرے کا اہم جزبنانے میں خاصی متحرک ہے۔ اس سلسلے میں خاصی طور پر معذور طلباء کی حوصلہ افزائی کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

منگل 19 جنوری 2016

Mazooron Ka Kota Hawa Main Ura Dia
ہماری سرکارظاہر تویہی کرتی ہے کہ وہ معذوروں کو معاشرے کا اہم جزبنانے میں خاصی متحرک ہے۔ اس سلسلے میں خاصی طور پر معذور طلباء کی حوصلہ افزائی کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے معذور طلبا کے لیے کوٹہ رکھا جاتا ہے ۔ اسی طرح سرکاری ملازمتوں میں بھی معذوروں کے لیے کوٹہ مخصوص ہے۔گزشتہ برس معذور اور خصوصاََ نابینا افراد پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاج بھی کرتے رہے۔

ان پر پولیس کے برترین تشدد کی فوٹیج بھی پاکستان بھی میں دکھ کے ساتھ دیکھی گئی۔ ان سب کا ایک ہی مطالبہ تھا۔ وہ چاہتے تھے انہیں بھکاری بننے سے بچایا جائے اور سرکاری ملازمت فراہم کی جائے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ معذوروں کا تعلیم اور ملازمت دونوں حوالوں سے کوٹہ موجود ہے۔

(جاری ہے)

ایک رپورٹ کے مطابق معذوروں کے لیے مخصوص کوٹہ محض خانہ پری تک محدود نظر آتا ہے۔

سرکاری یونیورسٹیز کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کے خصوصی احکامات کے باوجود معذور طلباء سے بھاری فیس وصول کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یاد رہے کہ محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب کی جانب سے تمام شعبہ جات میں معذور طلباء کے داخلے کا 2 فیصد کوٹہ مخص ہے۔ دوسری جانب تعلیمی ادارے اس پر عملدرآمد ہی نہیں کرتے۔ رپورٹ کے مطابق ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ایک ایک سیٹ پر بھی معذور افراد کو داخل نہیں کیا جا رہا۔

صورتحال یہ ہے کہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے 2500 داخلوں میں صرف 2 معذور طلباء کو داخلہ دیا جاتا ہے جبکہ 2 فیصد کوٹہ کے لحاظ سے 42 سیٹیں ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح پنجاب کے سرکاری میڈیکل کالجز میں 3195 سیٹوں پر معذور افراد کے 2 فیصد کوٹہ کے لحاظ سے 42 سیٹیں ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح پنجاب کے سرکاری میڈیکل کالجز میں 3195 سیٹوں پر معذور افراد کے 2فیصد کوٹہ کے تحت 53 سیٹیں بنتی ہیں لیکن پنجاب کے میڈیکل کالجز میں معذوروں کے کوٹہ پر صرف 20 معذور طلبا کو داخلہ دیا جاتا ہے۔

اسی طرح یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب اسے ایک نوٹیفکیشن 1.82/2012 No.SD. (A11) جاری کیا گیا تھا۔ اس نوٹیفکیشن کے ذریعے تمام تعلیمی اداروں کو ہدایت دی گی تھیں کہ وہ معذور طلباء سے ہاسٹل، یوٹیلٹی بل اور ٹیوشن فیس وصول نہ کریں۔ سرکاری احکامات کے تحت معذور طلباء کو اس قدر سہولیات حاصل ہیں کہ ان کے لیے الیکٹرک وہیل چیئر تک کی دستیابی یونیورسٹی کی ذمہ داری ہے۔

دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے معذور طلباء کے مطابق ان سے مکمل فیس وصول کی گئی۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی انتظامیہ یہ کہہ کر جان چھڑالیتی ہے کہ ان کی اکیڈمک کونسل فیصلہ کرتی ہے کہ ہر سال کتنے معذور افراد کو داخلہ دینا ہے۔ سوال یہ کہ اگر یونیورسٹیز کی اکیڈمک کونسل نے ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے ہر سال کتنے معذور افراد کو داخلہ دینا ہے تو پھر حکومت پنجاب کے احکامات کی کیا وقعت رہ جاتی ہے۔

اسی طرح سوال یہ ہے کیا سرکار کے احکامات محض ریکارڈ اور فائلوں میں ” سب اچھا“ ظاہر کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ معذور طلباء ہمیں اپنا حق مانگتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب تعلیم کے بعد ملازمت کا حصول بھی ان کے لیے ناممکن بنادیا جاتا ہے ۔ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ سرکار کی رٹ بے اثرہو چکی ہے اور احکامات کے بعد ان کو یقینی بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی ۔

سوال یہ ہے کہ کیا حکومت معذور افراد کوبے یارومددگار چھوڑ چکی ہے؟ اسی طرح یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر کیوں ادارے اب حکومتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کرتے؟ کیا یہاں جنگل کا قانون نافذ ہو چکا ہے یا پھر خود چوروں کے ساتھ مل چکی ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ سرکاری قوانین اور احکامات کو یقینی بنایا جائے۔ اگر حکومت وقت اپنے ہی احکامات پر عمل درآمد میں ناکام ہو چکی ہے تو پھر ایسے احکامات جاری ہی نہ کرے جو بعد میں جگ ہنسائی کا باعث بنیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mazooron Ka Kota Hawa Main Ura Dia is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 January 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.