میرے ملک کے غریبوں کا خیال رکھنا

ایدھی صاحب کے آخری الفاظ کی لاج کون رکھے گا؟

ہفتہ 30 جولائی 2016

Mere Mulk K Gharibon Ka Khayal Rakhna
راحیلہ مغل :
خدا کی ذات بڑی بے نیاز ہے اس نے جب اپنی مخلوق کابھلا کرنا ہوتا ہے تو کسی نہ کسی واقعہ کو بنیاد بناکر کسی نہ کسی کے دل میں مخلوق کی محبت کا بیج ڈال دیتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا ہے اور سایہ دار تناوردرخت بن جاتا ہے۔ عبدالستار ایدھی بھی ایسے ہی ایک چھتنا ردرخت کانام تھا۔ عبدالستارایدھی کی والدہ کو کینسر کا مرض لاحق ہوگیاتو انہیں چھوٹی سی عمر میں اپنی والدہ کی تیماداری کرنا پڑی۔

انہیں کندھوں پر اٹھا کر شفاخانے لے جانا پڑااور پھرا نکی رحلت کے بعد والدہ کی جدائی کا غم برداشت کرنا پڑا اور یوں یوں جس طرح سونا آگ میں تپ کرکندن بن جاتا ہے اسی طرح عبدالستار ایدھی کو ذاتی غم کی آگ نے کندن بنادیا۔ 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد عبدالستار ایدھی اپنے خاندان کے ہمراہ بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اور کراچی میں آباد ہوگئے ۔

(جاری ہے)

1951ء میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خرید کر ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری قائم کی۔ رات کے وقت وہ ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سولیاکرتے تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر ضرورت مندوں کی مدد کی جاسکے۔ مخیر حضرات نے ان کاموں کو دیکھتے ہوئے ان کا ساتھ دیناشروع کیااور انہوں نے وہ پوری عمارت خریدلی جہاں ڈسپنسری بنائی گئی تھی اور وہاں ایک زچگی کیلئے سنٹر اور نرسوں کی تربیت کیلئے اسکول کھول لیا۔

یہ ایدھی فاؤنڈیشن کا باقاعدہ آغاز تھا۔ کراچی میں 1957ء میں ہانگ کانگ فلونامی جان لیوا وباپھیل گئی۔ اس وبا کی وجہ سے ہزاروں جانیں چلی گئیں۔ عبدالستار ایدھی کمر بستہ ہوئے اور مریضوں کو ٹھیلوں پر ڈال کر شفاخانوں کا رخ کرنے لگے اور وہاں بھی مریض کے ساتھ اس وقت تک رہتے جب تک وہ شدید بیماری کی حالت سے نکل نہ آتا۔ عبدالستار ایدھی کے اس بے لوث خدمت کے جذبے کو دیکھتے ہوئے ایک کاروباری شخص کے دل میں ان کی مدد کرنے کاجذبہ پیداہوا اور اس نے 20ہزار روپے کی رقم انہیں بطور عطیہ پیش کر دی۔

عبدالستار ایدھی نے اس رقم سے ایک سکینڈ ہینڈ گاڑی خریدی اور اس میں مریضوں اور میتوں کو لانے لیجانے کا کام شروع کردیا۔ وہ دن اور آج کا دن ایدھی فاؤنڈیشن نے لاکھوں مریضوں کو ہسپتال پہنچایا اورانگنت لاوارث لاشوں کے کفن دفن کا انتظام کیا۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت 1500 سے زائد ایمبولینسز کام کررہی ہیں اور ایدھی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاح ایمبولینس سروس بن چکی ہے۔

ایدھی فاؤنڈیشن میں اس وقت 20ہزار نومولود بچے پروان چڑھ رہے ہیں اور 50ہزار یتیم بچوں کی پرورش کی جارہی ہے۔ ہسپتال اور یمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینک، زچگی سنٹر، ذہنی وجسمانی معذوروں کی بحالی کے مراکز، بلڈبنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اوراسکول بھی کھول رکھے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ فاؤنڈیشن نرسنگ اور گھرداری کے کورس بھی کرواتی ہے۔

ہر ایدھی مرکز کے باہر ایک جھولا رکھا گیا ہے تاکہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہیں کرسکتی اپنے بچے کو یہاں چھوڑ کرجاسکے۔ اس بچے کو ایدھی فاؤنڈیشن اپنے یتیم خانہ میں پناہ دیتی ہے اور اس کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ عبدالستار ایدھی نے نہ صرف اہل وطن کی خدمت کی بلکہ انسانیت کو اپنا مذہب قرار دیتے ہوئے افریقہ مشرق وسطیٰ ‘ قفقاز‘ مشرق یورپ اور امریکہ میں بھی مشکلات میں گھرے لوگوں کی مددکو پہنچے۔

ان کی بے مثال خدمات انسان دوستی کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں نشان امتیاز اور پاک فوج کی جانب سے شیلڈ آف آنرعطا کی گئی۔ انہیں 1980 ء میں لینن پیس پرائز اور 1986ء میں عوامی خدمات کے شعبہ میں رامون ماگسیسے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ایدھی صاحب پاکستان کے ہر 500 کلومیٹر پر ہسپتال تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ اپنے کام کے ساتھ ان کی لگن کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایدھی صاحب بذات خود بغیر چھٹی کیے طویل ترین عرصہ تک کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں اور ریکارڈ بننے کے بعد بھی انہوں نے کبھی چھٹی نہیں کی۔

ہمارے حکمران آج تک یہ ہی نہیں سمجھ سکے کہ ریاست دراصل بنیادی انسانی ضروریات کی باوقار انداز میں تکمیل کیلئے ہی تشکیل دی جاتی ہے۔ ریاست دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا نہیں بلکہ ایک ہاتھ سے دینے اور دوسرے سے لینے کانام ہے اور ایدھی صاحب اپنے قول وعمل سے سب کو یہی باور کروانے کی کوشش کیاکرتے تھے۔ عبدالستار ایدھی کادامن نیکیوں سے بھرا ہوا ہے۔

یقینا جب دربار خداوندی سے انہیں جنت میں لے جانے کا حکم صادرہوا ہوگا تو جنت کو دیکھ کر عبدالستار ایدھی نے سوچا ہوگاکہ یہاں بھی اللہ کی لاچار مخلوق کوبسا دیں اور خودباب جنت کی دہلیز پر بیٹھ کر انہیں خوش ہوتے دیکھتے رہیں شاید اسی لئے انہوں نے دم آخریں کہا تھا، میرے ملک کے غریبوں کا خیال رکھنا۔ سب چاہتے کہ ایدھی صاحب کو ان کی دفات کے بعد نوبل پرائز دیاجائے۔

آج سب کی خواہش ہے کہ کوئی عبادت سڑک، یادگاری یاتمغہ ہی ان کے نام سے معنون کردیاجائے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ انسانی دکھوں کی اس ریلے ریس میں تنہا دوڑنے والے ایدھی کے ہاتھوں سے خدمت خلق کی مشعل لے کر آگے بڑھنا ان کے نام پر سڑکوں کے نام رکھنے سے زیادہ ضروری ہے۔ اگرہم واقعی ایدھی صاحب کے فلسفے اور کام کوخراج تحسین پیش کرناچاہتے ہیں توہمیں ہرصورت اس شمع کوروشن رکھنا ہوگا جو ایدھی صاحب بطور امانت پاکستانی قوم کے سپردکرگئے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mere Mulk K Gharibon Ka Khayal Rakhna is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 July 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.