مشترکہ مفادات کو نسل اور کالاباغ ڈیم

کالا باغ ڈیم ایک اہم مسئلہ ہے ۔ آبی ذخائر ہماری معیشت کیلئے ناگزیر اہمیت کے حامل ہیں۔ مگر افسوس کہ اقتصادی مسئلہ کو سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے اور اب تو بد قسمتی سے اسے مضحکہ خیز شک دے دی گئی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کالا باغ ڈیم کے حوالے سے اپنے ایک فیصلے میں رائے دے چکی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل آئینی ادارہ ہے۔

منگل 30 اگست 2016

Mushtarka Mufadat Council
ماریہ نعیم:
کالا باغ ڈیم ایک اہم مسئلہ ہے ۔ آبی ذخائر ہماری معیشت کیلئے ناگزیر اہمیت کے حامل ہیں۔ مگر افسوس کہ اقتصادی مسئلہ کو سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے اور اب تو بد قسمتی سے اسے مضحکہ خیز شک دے دی گئی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کالا باغ ڈیم کے حوالے سے اپنے ایک فیصلے میں رائے دے چکی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل آئینی ادارہ ہے۔ جو دستور کی دفعہ 154 کے تحت کام کرتا ہے ۔

مشترکہ مفادات کونسل کی طرف سے 1991ء اور 1998ء میں کالا باغ ڈیم کی سفارشات مرتب کی گئی تھیں اس لیے اس کے فیصلوں پر عملدرآمد ضروری ہے۔اس مقدمے کی سماعت کے دوران مشترکہ مفادات کونسل کی سینئر جوائنٹ سیکرٹری نے عدالت میں پیش ہو کر کونسل کے متعلقہ فیصلے پڑھ کے سنائے جن کے مطابق کونسل نے فیصلہ کیا تھا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے س مطالعہ جاتی ٹیکنکل رپورٹ مرتب کی جائے گی اور کالا باغ ڈیم کے معاون منصوبے بھی تیارکئے جائیں گے۔

(جاری ہے)

کیونکہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر عمل درآمد حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے کونسل کے فیصلوں کی بنیادپر عدالت عالیہ لاہور نے وفاق کو کالا باغ ڈیم قائم کرنے کا حکم دیا تھا۔ لاہور کی عدالت میں اس کونسل کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے درخواست فیروز شاہ گیلانی اور جو ڈیشل ایکٹیوازم پینل کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔ مشترکہ مفادات کونسل نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے ضمن میں تجاویز پر جب فیصلہ کیا تھا اس وقت وزارت عظمی کے عہدے پر نواز شریف فائز تھے ۔

کالا باغ ڈیم کا مسئلہ تکنیکی بھی ہے اقتصادی اور سیاسی بھی کیونکہ ملک میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بارے میں اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ اس لیے یہ معاملہ عملی طور پر معطل ہو چکا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن جو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بارے میں پر جوش رہی ہے اب وہ بھی اس پر اصرار نہیں کرتی۔ اگرچہ مشترکہ مفادات کونسل میں جس دور میں فیصلہ ہوا تھا اس وقت ملک میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی لیکن اب اس ملک گیر مقبول جماعت کا بھی موقف ہے کہ اس کے لیے پانچوں صوبوں میں اتفاق رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔


اس مسئلہ کا تعلق ایک طرف توانائی کے بحران سے ہے تو دوسری طرف پانی کی تقسیم وآبپاشی سے بھی ہے۔بعض تکنیکی ماہرین کالا باغ سے ممکنہ نقصانات سے انکار کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے ماہرین موجود ہیں جو کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر اعتراضات بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کالا باغ ڈیم پر اتفاق نہیں ہو سکا۔پاکستان میں اب نہ ایسی شخصیات ہیں نہ ادارے اور سیاسی جماعتیں جو اس قومی مسائل پر رہنمائی کر سکیں اور اتفاق رائے پیدا کر سکیں جس کی وجہ سے انتشار پیدا ہو رہا ہے۔

فریقین اپنے اپنے حق میں دلائل دہے رہے ہیں مشترکہ مفادات کونسل کے 1991اور 1998 کے فیصلے کے باوجود اتفاق رائے کے بغیر حکومتیں بالآخر اس منصوبے سے دست بردار ہو گئی ہیں ۔ کالا باغ ڈیم کے مسئلہ دونوں سے ہے۔ اس لیے اس موضوع پر فیصلہ کرنے کے لیے غور وفکر کی ضرورت ہے توانائی کے ذرائع میں سب سے سستا ترین ذریعہ ہے اس لیے کالا باغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے قوم توانائی کے سستے ذرائع سے محروم ہے۔

ڈیزل اور فرنس آئل سے حاصل ہونے والی توانائی مہنگی پڑتی ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں توانائی کا بحران شدید ہو گیا ہے چنانچہ اس مسئلہ سے جو حقیقت واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں سیاسی اور انتظامی قیادت جس میں تمام ادارے شامل ہیں قوم کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے میں اب تک ناکام ہی رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Mushtarka Mufadat Council is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 August 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.