NICLسکینڈل

اربوں کی اراضٰ مہنگی اور خلاف ضابطہ خریدی گئی

منگل 8 مارچ 2016

NICL Scandal
ہمارے ہاں سرکاری سطح پرکرپشن کے کئی انداز رائج ہیں۔ اب محض رشوت لینے دینے تک بات محدود نہیں رہی۔بااثر افراد کرپٹ لوگوں کو آگے کرکے ان کے دو نمبردھندوں میں ” بزنس پارٹنر“ بن جاتے ہیں۔ اسی طرح مختلف سودوں میں حاصل ہونے والی آمدنی میں بھی طے شدہ ” کمیشن“ ہوتا ہے۔ عام طور پر گھپلا بھی ایسا ہوتا ہے جو جلد پکڑ میں نے آسکے اور سرکاری فائلوں کا پیٹ ” سب اچھا“ لکھ کربھرا جاسکے۔

حال ہی میں ایک ایسی بڑی کرپشن سامنے آئی ہے جس میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہوئی۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے مطابق نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ نے اربوں روپے کی اراضی خلاف ضابطہ اور مہنگے داموں خریدی ہے۔آڈٹ حکام کے مطابق نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ (این سی آئل) نے لاہور میں ایک ارب 6کروڑ 53لاکھ کی اراضی خریدی۔

(جاری ہے)

اس کے لئے کنٹریکٹ کی درخواست دینے والی تین کمپنیوں میں سے کسی کمپنی کو منتخب کرنے کی بجائے ایک ایسی کمپنی سے اراضی کی خریداری کا کنٹریکٹ کرلیا جس نے بولی میں حصہ ہی نہیں لیا تھا۔

اس بارے میں وزارت تجارت کے حکام نے بتایا کہ اس معاملہ میں اعلیٰ افسران ملوث تھے اس لئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے انکوائری کی۔اس کے بعد 16میں سے 8لوگ برطرف کردیئے گئے۔ حکام کے مطابق دس افراد ملوث نہیں تھے اور انہیں وارننگ جاری کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں اب نیب کودوماہ میں انکوائری مکمل کرکے رپورٹ دینے کا کہا گیا ہے۔ اسی طرح جنید انور نے سوال اٹھایا کہ این آئی سی ایل کا چیئرمین ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کا نادہندہ ہے۔

انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ ان کی تقرری ضابطہ کے مطابق نہیں ہوئی لیکن بیورو کریسی کی جانب سے ان الزامات یا سوالات کی تردید کردی گئی۔یہاں سوال یہ ہے کہ اگر بااثر افراد کوکسی قسم کی درخواست اور بولی میں شریک ہوئے بناکنٹریکٹ مل جاتا ہے تو پھر اشتہارات اور بولی کی کیا ضرورت ہے؟ آخر دیگر افراد کا وقت اور قوم کا پیسہ کیوں ان کاموں میں ضائع کیا جاتا ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ ٹینڈرزکھولتے وقت من پسند افراد کو ہی نوازا جاتا ہے لیکن ریکارڈ میں وہی صورتحال بیان ہوتی ہے جو کاغذات کی صورت فائل میں موجود ہو۔ اس سلسلے میں ایسی کرپشن کاریکارڈ مکمل طور پر درست معلوم ہوتا ہے۔ بولی کے لئے اشتہارات تاریخ اور دیگر کاغذاتفائل میں لگادیئے جاتے ہیں لیکن کام وہی ہوتا ہے جو پہلے سے طے شدہ ہو۔ یہ طریقہ بھی نیا ہرگز نہیں ہے۔

اسی طرح من پسند سفارشی یاکاروباری پاٹنرز سے سستی زمین مہنگے داموں خرید کراسے فائدہ پہنچایا جاتا ہے ۔ البتہ اگر زمین فروخت کرنی ہوتو یہ مزید سستے داموں ” اپنے بندوں“ کو فروخت کردی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سرکار کرپشن پر گرفت کیوں نہیں کرتی؟ اہم عہدوں پر فائزاعلیٰ عہدے داروں کی تنخواہ اور رہن سہن میں موازنہ کیوں نہیں ہوتا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ سرکار ایسے بڑے گھپلوں کوروکنے میں ناکام رہی ہے یاپھر اسے جان بوجھ کر روکا نہیں جاتا؟ کرپشن سامنے آنے پر چھوٹی مچھلیوں کو تو پہلے بھی سزا مل جاتی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ آخر بڑے مگرمچھوں کو کب کیفر کردار تک پہنچایا جائیگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

NICL Scandal is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 March 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.