نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی

مسلمانوں کے خلاف مظالم پر چپ کیوں؟ میانمار کے مظلوم روہنگیا اذیت ناک کیمپوں میں زندگی گزرانے پر مجبور ہیں۔ ملک میں نئی جمہوریت بھی ان کے زخموں کا مدادا کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔

بدھ 27 جنوری 2016

Nobel Inam Yafta Ong San Suchi
Nicholas Kristof :
میانمار کے مظلوم روہنگیا اذیت ناک کیمپوں میں زندگی گزرانے پر مجبور ہیں۔ ملک میں نئی جمہوریت بھی ان کے زخموں کا مدادا کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی میانمار کے پارلیمانی انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کر چکی ہیں۔ دنیا کی نگاہیں ان پر مرکوز ہیں کہ21 ویں صدی میں میانمار کی مقبول رہنما آنگ سان سوچی ان کیمپوں کے باسیوں سے کیا سلوک روارکھتی ہیں۔

برما کی رہنما آنگ سان سوچی ایک جینوئن رہنما سمجھی جاتی ہیں جنہوں نے اپنے ملک کے لیے جمہوریت کی بحالی میں اہم کردار دار کیا۔ ان کی جماعت نے نومبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کی۔ آنگ سوچی کو بدترین لسانی حالات وارثت میں ملے ہیں۔

(جاری ہے)

مسلم اقلیت روہنگیا کا معاملہ ہنوز ان کے لیے کڑا امتحان ہے۔ حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ایک ملین سے زائد روہنگیا کو بدترین تشدد کا نشانہ بناکر ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی ایک خفیہ رپورٹ میں ان کرائم کو انٹرنیشنل قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔آنگ سان سوچی میانمار کے اس اذیت ناک کیمپوں کے روہنگیا مسلمانوں کے معاملے سے نمٹنے کی مصنوبہ بندی کررہی ہیں۔ سیاستدان کی حیثیت سے وہ روہنگیا کمیونٹی کو دبا کر رکھنا چاہتی ہیں کیونکہ وہ بدھا ووٹرز میں بہت زیادہ مقبول ہیں او ر وہ انہیں ناراض نہیں کرنا چاہیتیں۔

ایک او نوبل انعام یافتہ صدر اوباما کا بھی میانمار میں زبردست اثرورسوخ ہے انہوں نے بھی روہنگیا کے معاملے میں زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ دو مرتبہ میانمار کا دورہ کر چکے ہیں۔ اوباما اور ہیلری کلنٹن کا میانمار میں جمہوریت کی بحالی ایک نمایاں کامیابی ہے مگریہ 67 بدترین حالات کے شکار اذیت ناک کیمپوں کی محنت کو ضائع کر رہے ہیں جہاں روہنگیا مسلمان بڑ تعداد میں کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

بدترین حالات میں زندگی گزرانے والے روہنگیا مسلمانوں کو ان کیمپوں میں نہ تو ادویات میسر ہیں او ر نہ ہی طبی سہولیات میسر ہیں۔انہیں بدترین حالات میں 14 سالہ محمد کریم انتقال کر گیا۔ روہنگیا کو اپنے ہی ملک میں آزادانہ نقل وحمل کا حق حاصل نہیں ہے۔ میانمار حکومت نے انہیں اپنے ہی ملک میں پچھلے کئی سالوں سے شہریت کا حق چھین رکھا ہے۔ محمد کریم کشتی کے ذریعے میانمار سے ہجرت کرنا چاہتا تھا ۔

انسانی سمگلنگ کرنیوالے کو ادائیگی کر کے اس نے ملائیشیا جانیوالی کشتی میں پناہ حاصل بھی کر لی تھی مگر کریم ایڑی کی ہڈی میں زخم کی وجہ سے مفلوج ہو گیا۔وہ بظاہر ٹیٹنس میں مبتلا ہوا تھا۔ اذیت ناکہ کیمپ میں وہ ویکسین حاصل نہیں کر سکا۔ اس کی ماں نے بیٹے کے لیے کیمپ چھوڑ کر ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے خصوصی اجازت نامہ حاصل کیا لیکن تب بہت دیر ہو چکی تھی۔

اس کی جھونپڑی سے 100فٹ کے فاصلے پر ایک اور فیملی کو ماتم کا سامنا کرنا پڑا ، بیلدار بیگم ایک 20 سالہ خاتون کو ہیپاٹائٹس اسے تشخیص ہوا ۔ اسے بھی مطلوبہ ادویات نہ مل سکیں اور بالا خروہ موت کے منہ میں چلی گئی اور دو سالہ بیٹا ہیرول پسماندہ میں چھوڑا۔ اگر وہ روہنگیا نہ ہوتی تو اسے بآسانی بچایا جا سکتا تھا۔ اب اس کا بیٹا 28 ماہ کا ہو چکا ہے مگر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے چارٹ کے تحت اس کا وزن تھرڈ پر سنٹیج سے بھی کم ہے۔

کیمپ میں رہنے والے چند فیملی کی آمدنی اکاوٴنٹ ستاوی سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بنک میں موجود ہیں لیکن وہ 2012 سے لاک ہو چکے ہیں انہیں اپنے ہی اکاوٴنٹس تک رسائی حاصل نہیں ہے ۔اقوام متحدہ کی میانمار میں کار کردگی زیادہ اچھی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی دستاویز میں اس حوالے سے خبردار بھی کیا گیا ہے۔ سٹاف ممبران کے ایک دوسرے سے جھگڑوں نے اقوام متحدہ کے حوالے سے انسانیت کے خلاف کرائمز پر پیچیدہ سوالات اٹھا دیئے ہیں۔

انسانی حقوق واچ اور فورٹی فائی رائٹس روہنگیا کے خلاف مظالم کو منظر عام پر لائے ہیں ۔ایک بڑے جزیرے پر راقم کو ایک کشتی کے ذریعے جانا پڑا۔ امدادی گروپس کو روہنگیا کیمپس تک رسائی نہیں دی جاتی۔ 21ویں صدی میں رونگیا کا معاملہ انسانی حقوق کا نظر انداز معاملہ بن چکا ہے۔ میا نمار حکومت نہ صرف انہیں انفرادی سطح پر دبا رہی ہے بلکہ انہیں میانمار سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔

میانمار حکام کا دعویٰ ہے کہ روہنگیا میانمار میں غیر قانونی بنگلہ دیشی ہیں۔ نومبر میں حکومت نے پانچ ایسے افراد کو گرفتار کیا جو 2016 کا کیلنڈر پرنٹ کر رہے تھے جس پر روہنگیا کو ایک لسانی گروپ دکھایا گیا۔نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی روہنگیا کا لفظ استعمال کرنے میں سخت اختیاط برت رہی ہیں۔ میانمار میں اقوام متحدہ کی ایمبیسی اپنے آفیشنل بیانات میں اس الفاظ سے لاتعلقی اختیار کئے ہوئے ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Nobel Inam Yafta Ong San Suchi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 January 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.