آپریشن ’ضربِ عضب‘ کا منطقی انجام ضروری ہے

پاکستانی معاشرہ مختلف نظریات میں تقسیم نظر آتا ہے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہے فرق صرف یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ بے عملی، جہالت اور عدم برداشت کا شکار بنا دیا گیا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے

جمعہ 8 اپریل 2016

Operation Zarb e Azb
آغا امیر حسین:
پاکستانی معاشرہ مختلف نظریات میں تقسیم نظر آتا ہے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہے فرق صرف یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ بے عملی، جہالت اور عدم برداشت کا شکار بنا دیا گیا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو اقتدار اور وسائل پر قابض ہے اور صرف اپنے طبقہ کے بارے میں سوچتا اور پالیسیاں بناتا ہے اس کی تعداد پانچ فی صد بھی نہیں ہے۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جس نے پاکستان کو ذہنی طور پرقبول ہی نہیں کیا یہ وہ لوگ ہیں جو آزادی کی تحریک میں قائداعظم کے مخالف تھے ان سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں جو لوگ شامل ہیں۔ وہ کل بھی دشمن کے غلام تھے اور آج بھی اسکے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انکی عوام میں پذیرائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس کا ثبوت ”الیکشن“ کا ریکارڈ ہے ۔

(جاری ہے)

کسی دور میں بھی کوئی قابل ذکر کامیابی یہ حاصل نہیں کرسکے۔

البتہ سازشوں کے ذریعہ انہوں نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ مذہبی منافرت پھیلانے، کالا باغ اور دوسرے قومی مسائل کو حل کرنے کے پروگراموں میں رکاوٹ ڈالنے کے علاوہ ان کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے ہر دور حکومت میں یہ اقتدار میں نظر آتے ہیں ان کی تعداد بہت ہی مختصر ہے لیکن نالائق اور خود غرض حکمرانوں کی وجہ سے پاکستان میں یہ اپنا مضبوط نیٹ ورک بنا چکے ہیں۔

دشمن کے ایجنٹ بن کر انہوں نے پاکستان کو دولخت کروایا اور ہزاروں پاکستانیوں کا قتل کروایا، یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ڈھاکہ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے برملا یہ کہہ دیا کہ ہم نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کیسے بنایا۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جسے بیوروکریسی یا نوکر شاہی کہتے ہیں۔ یہ ریاست کے ملازم ہوتے ہیں ان کا کام طے شدہ اصولوں یعنی رولز اینڈ ریگولیشن پر کاربند رہتے ہوئے سیاست دانوں اور ریاست میں کام کرنیوالے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کو انکے دائرے میں رکھنا ہوتا ہے۔

انہوں نے اپنا فرض ادا کرنے کی بجائے وہ سب کچھ کیا اور کرنے دیا جس سے ریاست کو نقصان پہنچے آج ریاست جس صورتحال سے دو چار ہے عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں، مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، نفسانفسی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ ریاست فقیر، مقروض اور بے بس نظر آتی ہے لٹیرے اربوں کھربوں کے مالک امیر ترین بنے پھرتے ہیں یہ بھی سب کچھ ”نوکر شاہی“ کی نالائقی اور بے ایمانی کا شاخسانہ ہے۔

ریاست کا ایک بہت ہی اہم اور ان سب معاملات کو کنٹرول کرنے کا ذمہ دار ادارہ ”عدلیہ“ ہے۔ اس نے نظریہ ضرورت سے لے کر شہید بھٹو کی پھانسی تک صرف اور صرف ظلم کیا ہے، انصاف نہیں۔ عدل کا حصول غریب، عام پاکستانی کیلئے ناممکن بنا دیا گیا ہے، طاقتوروں اور امیروں کی آئینی لڑائیاں لڑنے کے علاوہ انہیں کوئی کام نہیں ہے۔ایک اور ادارہ افواج پاکستان ہے جس کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھے اس کے ذمہ داروں نے جب جب کوشش کی وہ آپریشن کلین اپ کرنے کی بجائے اْس گند کا حصہ بن گئے جسے صاف کرنے آئے تھے اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ (اگر یہی صورتحال رہی تو) جب ریاست کے پاس اپنے اداروں کو تنخواہیں دینے کے پیسے بھی نہیں ہونگے اور ریاست ”ساہو کاروں“ کا قرض اور سود واپس کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے گی یعنی خدانخواستہ دیوالیہ ٹھہرے گی تب ایک بھیانک صورت حال سے ملک دو چار ہو جائیگا۔

غالباً دشمن طاقتوں نے بہت سوچ سمجھ کر ہمارے یہاں گورباچوف پیدا کئے ہیں یہ حکمران جانے انجانے دشمنوں کے آلہ کار بن کر ریاست کیلئے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ افواج پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو ان ایجنٹوں، لٹیروں سے بچائے، اسے نہ چاہتے ہوئے بھی اس بار کارروائی رسمی نہیں حتمی کرنا پڑیگی کہ اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حیرت اس بات پر نہیں ہے کہ مارچ 2016ء میں را (RAW) کا ایک بڑا کارندا کل بھوشن یادیو پکڑا گیا اور را کا نیٹ ورک سامنے آیا۔

حیرت تو اس بات پر ہے کہ ہمارے جن اداروں کی یہ ذمہ داری تھی کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے اسباب پر غور کرتے اور دشمن پر نظر رکھتے جبکہ دشمن برملا اپنے آئندہ عزائم کا اظہار کرتا چلا آ رہا ہے۔ بھارت میں اندراگاندھی، راہول گاندھی
، نریندر مودی اور دوسرے انتہا پسند گروپوں کے علاوہ موجودہ بھارت کے قومی سلامتی کے وزیر اجیت دوول پاکستان کو مزید نقصان پہچانے کی منصوبہ بندی کرنے کا ذکر کانفرنسوں میں کرتا چلا آ رہا ہے۔

اس وقت را کا جو نیٹ ورک پاکستان میں کام کر رہا ہے۔ اس میں بہت سے مجیب الرحمن اور حسینہ واجد شامل ہیں۔ میمو گیٹ، اینٹ سے اینٹ بجانے والوں، تقسیم ہند کے نتیجے میں بننے والی سرحد کو مصنوعی لکیر کہنے اور را کے بڑے کارندے کی گرفتاری پر خاموش رہنے۔ مہاجرین کے قتل عام کا واسطہ دے کر بھارت کو حملہ کرنے کی دعوت دینے والوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔

یہ معاشی دہشت گرد ہی نہیں آستینوں کے سانپ بھی ہیں۔ جس نیٹ ورک کا ذکر ہو رہا ہے اسکے تانے بانے ان ہی لوگوں کے اردگرد گھومتے ہیں۔ پاکستان مفاد پرست، نالائق اور سیاسی، اقتصادی، اخلاقی تباہی کے ذمہ دار طبقات جو محدود تعداد میں ہیں۔ ملک کی خاموش اکثریت دعا گو ہے کہ ان ظالموں ، وطن دشمنوں، لیٹروں اور منافقوں سے جتنی جلدی نجات مل جائے۔ بہتر ہوگا!

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Operation Zarb e Azb is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 April 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.