پاک افغان سرحد پر حالات کشیدہ

بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، آپریشن ردالفساد کے تحت خودکش جیکٹس،راکٹ بموں اور مارٹر گولوں کی کھیپ برآمد

بدھ 24 مئی 2017

Pak Afghan Border Par Halaat Kasheeda
عدنان جی:
بلوچستان کی دونوں سرحدوں پر کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے پاک افغان باڈر پر چمن کا سرحدی علاقہ عتاب میں ہے کہ یہاں کے دو گاؤں لقمان اور جہانگیر میں مردم شماری کے عمل میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے عملے کی حفاظت پر مامور اہلکاروں پر فائر کھول دیا جس کہ نتیجہ میں دو پاکستانی شہری شہید،6 بچوں اور 13 خواتین سمیت 42 افراد زخمی ہو گئے۔


پاکستان کی جانب سے جوابی کاروائی میں 50 سے زائد افغان فوجی ہلاک 100 سے زائد زخمی4سے 5 چیک پوسٹیں تباہ ہو گئیں۔پاکستان نے افغان حکومت کو اس بارے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔5مئی 2016ء کے اس واقعہ کے بعد پاک افغان 2430 کلومیٹر لمبا باڈر بند کردیا گیا۔دونوں ملکوں کے سکیورٹی فورسز کی جانب سے سیز فائر کی کیفیت ہے۔امیگریشن سسٹم بھی مکمل طور پر معطل رہا۔

(جاری ہے)

نیٹوسپلائی،پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور دیگر تجارتی سامان سے لدے ٹرک سینکڑوں کی تعداد میں کھڑے ہیں۔چمن شہر میں اشیاء خوردونوش کی قلت ہے۔آئی جی ایف سی نے چمن میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو مالی امداد کے چیک بھی دئیے تاہم سرحدی دیہاتوں سے لوگوں کی نقل مکانی جاری ہے۔
دراصل چمن کے دو سرحدی گاؤں کلی لقمان اور کلی جہانگیر پاکستان اور افغانستان منقسم ہیں۔

ان کا ایک حصہ افغانستان اور ایک حصہ پاکستان میں ہے۔پاکستان نے باضابطہ طور پر افغانستان کو مردم شماری کی اطلاع دیدی تھی اور افغانستان نے 5 مئی کی صبح اس گاؤں کے گھروں پر قبضہ کر لیا اور اب اس کا دعویٰ ہے کہ یہ علاقہ ہمارا ہے۔بلوچستان میں گاؤں کو کلی کہتے ہیں۔اب جبکہ پاک افغان سرحد پر حالات کشیدہ ہو چکے ہیں اور افغان حکومت کا موقف ہے کہ یہ دونوں گاؤں افغانستان کا حصہ ہیں جس پر بلوچستان کے کئی سیاسی رہنماؤں نے یہ بیان دیا ہے کہ اگر یہ گاؤں بلوچستان کا حصہ ہیں تو خوراک پانی،بجلی اور دیگر سہولیات پاکستان سے کیوں دی جارہی ہیں اس میں تمام طبقہ فکر اس امر پر متفق ہیں کہ روسی حملے کہ بعد 50 لاکھ افغانوں کو پناہ دینے والا پاکستان آج افغانوں کیلئے کیوں تلخ گوشہ یا دشمن بن گیا ہے۔

تو اس کا جواب افغانستان میں موجود بھارتی ہیں جنہوں نے 15 سال سے افغانستان کو یہ سبق از بر کروا دیا ہے کہ افغانستان کی ہر مشکل کا ذمہ دار پاکستان ہے۔وہاں موجود بھارتی کمپنیاں سرمایہ کاری اور مختلف این جی اوز افغانوں کو پاکستان دشمنی کا سبق دینے میں مسلسل مصروف ہیں اور اب حالیہ کشیدگی کا ذمہ دار بھی بھارت ہے۔مگر اس کے اثرات پاکستان بالخصوص بلوچستان پر پڑ رہے ہیں۔


دوسری جانب بلوچستان سے ملحقہ سرحد ایران ہے جس کے ایرانی فوج کے سربراہ نے دھمکی دی ہے کہ پاکستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کاروائی کر سکتے ہیں پاکستان اپنی سرزمین سے دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ختم کرے،حملے جاری رہے تو ایران انہیں نشانہ بنا سکتا ہے۔اس سے پہلے بھی ایرانی عہدیدار پاکستان آئے اور بعض اطلاعات کے مطابق ایک توانہوں نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو تک رسائی مانگی تھی جس پر یقینا انہیں صاف جواب مل گیا جس پر انہوں نے کہا کہ”جیش العدل“نام کے ایک دہشتگرد گروپ نے 26 اپریل کو بلوچستان سے ملحقہ ایرانی علاقے سیستھان میں پاکستانی سرحد کے قریب10 سرحدی گارڈز کو قتل کر دیا اور یہ بلوچستان میں پناہ گاہ بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور یہاں سے ایران کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

جس پر مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا معلومات دیں تو کاروائی کرینگے۔سرحدی مسائل کے حل کیلئے ہاٹ لائن بحال کردی گئی۔
حالات ابھی تک معمول پر نہیں آسکے کہ سی پیک کے بعد بھارت نے افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران میں بھی سرمایہ کاری زیادہ کردی اور گوادر اور چاہ بہار کے مواز نے کا چکر چلا رہا ہے اور کلبھوشن کے تمام نیٹ ورک بلوچستان میں دہشت گردی کے چاہ بہار میں ہوتی رہی۔

اب بھارت ایران کو پاکستان کیخلاف کلبھوشن کا داغ مٹانے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔بھارت نے دراصل بلوچستان کو دونوں سرحدوں پر گھیر لیا ہے۔اس کے دہشتگرد بلوچستان میں اپنا کام کر رہے ہیں۔اور حکومت پاکستان اپنے مسائل میں اتنی الجھی ہوئی ہے کہ وہ بلوچستان کے خلاف بھارت کے تنگ ہوتے گھیرے کو محسوس نہیں کر رہے۔پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ نہ ہونے سے یہ حالات اس حد تک جا پہنچے ہیں جس کا ذمہ دار کون ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔

بعض حلقے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بھارت ایسے محاذ اس وقت کھولتا ہے جب حکمران جماعت پر ذرا سابھی برا وقت آئے تاکہ فوج کو دباؤ میں لایا جاسکے اور بقول ایک سیاسی مبصر کے بھارت ایک بڑے حملے کی تیاری کر رہا ہے مگر اس سے پہلے وہ پاک فوج کو مختلف محاذوں پر مصروف کر کے تھکانا چاہتا ہے اور پھر موقع سے فائدہ اٹھا کر پاک سرزمین پر حملے کرنا چاہتا ہے۔

بلوچستان کی کالعدم تنظیموں کو بھارت اور افغانستان سے جو اسلحہ دیا جاتا ہے اس کی ایک کھیپ فرنٹیرکور نے چاغی کے سرحدی علاقے برامچہ سے برآمد کی ہے۔
آپریشن ردالفساد کے تحت خودکش جیکٹس،راکٹ،دستی بموں،مارٹرگولوں کی بھاری کھیپ برآمد ہوئی ہے ۔ڈیرہ بگٹی میں کاروائی کے دوران 2 فراری کیمپوں کو تباہ کرکے 72 مارٹرگولے اور دھماکہ خیز مواد برآمد کیا ہے۔

یہ رپورٹس روز آتی ہیں اور یہ بس اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے اور اس کی سرحد پر مسلمان ہمسائے بھارت کی شہ پر ہمارے خیر خواہ نہیں رہے۔کسی بھی وقت کلبھوشن کے بقایاجات کارندے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔وزیراعلیٰ زہری آج بھی پرعزم ہیں کہ پہلے دہشتگرد حاوی تھے اب ہم ان پر حاوی ہیں۔حالات پہلے سے بہتر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pak Afghan Border Par Halaat Kasheeda is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 May 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.