پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے خلاف امریکہ اور بھارت کی ہرزہ سرائی!

پاکستان کی سلامتی کے خلاف غیر ملکی سازشیں․․․․․․․ غیر قانونی آمدورفت روکنے کے اقدامات ملک دشمن عناصر کو کھٹکنے لگے

بدھ 22 نومبر 2017

Pak Afghan Sarhad Pr Barrr Lgany k Khilaaf America or Bharat ki har Za Sarai
رحمت خان وردگ:
یہ ایک بڑی پیشرفت ہے اس پیشرفت پر پاکستان میں خاموشی ہے لیکن افغانستان میں شور اٹھ رہا ہے جب امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اسلام آباد میں پاکستان کی سیاسی وفوجی قیادت پر یہ زور دے رہے تھے کہ افغانستان میں بدامنی پھلانے والوں کے پاکستان میں ٹھکانے ختم کئے جائیں تو افغانستان کی پارلیمنٹ میں یہ شور مچایا جارہا تھا کہ پاک افغان بارڈر پر باڑکیوں لگائی جا رہی ہے ؟افغان پارلیمنٹ کے رکن شیر محمد نے الزام لگایا کہ افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ ایک خفیہ سمجھوتہ کرلیا ہے۔

ڈیورنڈ لائن پر باڑلگائی جارہی ہے اور صدر اشرف غنی خاموش ہیں۔ رحمت اللہ اچکزئی، محمد عالم اور فضل ہادی مسلم یار نے بھی جنوبی ہلمند سے تعلق رکھنے والے شیر محمد کی حمایت کی ، یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف افغانستان کی اشرافیہ پاکستان پر الزام لگاتی ہے کہ ان کے ملک میں بدامنی پاکستان سے کرائی جاتی ہے اور جب پاکستان اس الزام کا مداوا کرنے کیلئے بارڈر کو محفوظ بنا کر غیر قانونی آمدورفت کو روکنے کی کوشش کرتا ہے تو شور مچایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

1947ء کے بعد سے پاکستان ڈیورنڈ لائن کو ایک باقاعدہ بارڈر بنانا چاہتا ہے لیکن کوئی افغان حکومت راضی نہیں ہوتی ۔ 1976 ء میں سردار داؤ اور ذوالفقار علی بھٹو ڈیورنڈ لائن کو مستقل بارڈر بنانے پر راضی ہوگئے تھے۔ سردار داؤد نے پاکستان میں نیپ کے گرفتار رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کی اور بدلے میں ڈیورنڈ لائن کو مستقل بارڈر تسلیم کرنے پرآمادگی ظاہر کی تھی لیکن اس وقت جنرل ضیاء الحق نے کچھ تحفظات ظاہر کئے تھے، بہرحال قیام پاکستان کے 70 برس کے بعد اڑھائی ہزار کلومیٹر پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام تیزی سے جاری ہے۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے پاکستان آنے سے پہلے کراچی میں ایک اہم واقعہ ہوا۔ کراچی میں افغان طالبان کے کچھ اہم رہنماؤں کو اکٹھا کیا گیا اور بتایا گیا کہ انہیں پاکستان کے راستے سے افغانستان میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس ملاقات میں اہتمام جن پاکستانی علماء کے ذریعے ہو انہوں نے افغان طالبان کو یہ بھی بتایا کہ آپ کا ایران کے ساتھ خفیہ تعاون کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن پوری دنیا پاکستان پر الزامات لگاتی ہے۔

دنیا کہتی ہے کہ افغان طالبان کو کوئٹہ شوریٰ افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ حالانکہ آپ کی اصل شوریٰ تو ہلمند ہوئی ہے ، جسے افغان ایران بارڈر کی طرف سے امداد مل رہی ہے۔ پاکستان میں موجود افغان طالبان رہنماؤں سے کہا گیا کہ وہ یہاں سے اپنے خاندانوں کو لے جائیں یا قانون کے مطابق مہاجرین بن کر پر امن زندگی گزاریں ، ہوسکتا ہے کہ آپ کو میری باتوں پر یقین نہ آئے لیکن پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت نے باہمی مشورے سے کچھ اہم فیصلے کئے ہیں جن پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے، اس نئی حکمت عملی کا اصل مقصد مغربی سرحد کو محفوظ بنانا اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے کیونکہ پاکستان کی سرزمین سے کسی دوسرے ملک میں مداخلت کرنے والے دراصل دوسرے ممالک کو پاکستان میں مداخلت کا جواز مہیا کرتے ہیں، آپ کو سمجھ آگئی ہوگی کہ ریکس ٹلرسن اسلام آباد آئے تو پاکستان کی سیاسی وفوجی قیادت نے یک زبان ہوکر ان سے بات کیوں کی۔

ایک طرف پاکستان کی سلامتی کے خلاف غیر ملکی سازشیں بڑھ رہی ہیں دوسری طرف پاکستان میں سیاسی بے یقینی اور انتشار ختم ہونے میں نہیں آرہا ۔ پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتوں کو ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کے خلاف شور مچانے پر اکسایا جارہا ہے، اس مرتبہ رقم ڈالرز میں نہیں پاؤنڈ میں آئی ہے جس کے ثبوت موجود ہیں۔ پاکستان کے خلاف اندر اور باہر سے اتنی زیادہ سازشیں ہو رہی ہیں لیکن میڈیا پر سیاسی بیان بازیوں کے سوا کچھ نظر نہیںآ تا،ایک افغان سفارتکار نے پوچھا کہ آپ لوگ بھارت کو پاکستان کیلئے اتنا بڑا خطرہ کیوں سمجھتے ہیں یہ سوال سن کر میں نے اسے بتایا کہ 1947ء میں جس قبائلی لشکر نے مظفر آباد کو آزاد کرایا تھا اسے جہاد کیلئے ملاشور بازار کا بل سے حکم جاری کیا تھا لہٰذا بھارتی حکومت نے بھی افغانستان کے راستے سے پاکستان میں مداخلت کے منصوبے بنانے شروع کردیئے۔

پاکستانی فوج کے ایک افسر میجر جنرل اکبر خان قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کے بہت قریب تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میری آخری منزل میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان کا سیکرٹری دفاع سکندر مرزا پاکستان سے زیادہ انگریز سرکار کا وفادار تھا۔ سکندر مرزا نے میجر جنرل اکبر خان کو کراچی سے کوئٹہ ٹرانسفر کردیا تاکہ ان کا قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ سے رابطہ نہ رہے۔

میجر جنرل اکبر خان لکھتے ہیں کہ 1948ء میں قندھار کا گورنر پاکستان کی سرحد کی قریب ایک لشکر تیار کررہا تھا اور اس لشکر کی تیاری میں ایک انگریز آئی سی ایس افسر اس کی معاونت کر رہا تھا جسے بھارت سے بھیجا گیا تھا، ایک انگریز بریگیڈیئر اس لشکر کیلئے منصوبہ بندی کررہا تھا یہ دونوں انگریز افسر تقسیم ہند سے قبل بلوچستان میں تعینات رہے تھے ، یہی وہ زمانہ تھا جب قلات کے شہزادہ عبدالکریم نے پاکستان کے خلاف بغاوت کردی اور افغانستان روپوش ہوگئے۔

میجر جنرل اکبر خان لکھتے ہیں کہ افغانستان کے راستے سے پاکستان میں گڑبڑ کا منصوبہ ناکام بنانے کیلئے بلوچستان کے جن عمائدین نے میری مدد کی ان میں نواب محمد اکبر خان بھی شامل تھے۔ پاکستان کی عمر 70 برس سے زیادہ ہوچکی ہے۔ یہ 70 برس سازشوں کا مقابلہ کرنے میں گزر گئے، کچھ سازشیں اپنوں نے کیں کچھ غیر نے کیں لیکن پاکستان آگے بڑھتا جارہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pak Afghan Sarhad Pr Barrr Lgany k Khilaaf America or Bharat ki har Za Sarai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.