پاک بھارت کشیدگی

امریکہ کا کچھ ہونے کا انتظار نہ کرنے کا فیصلہ۔۔۔ ایک طرف بڑی عالمی قوتیں بڑی منڈیوں اور معاشی مفادات کی بدولت بھارتی زلف کی اسیر ہیں تو دوسری طرف بھارتی زیر قبضہ کشمیر میں جاری بھارتی قابض فوج کے مظالم نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا رکھی ہے

جمعہ 14 اپریل 2017

Pak Baharat Kasheedgi
ایک طرف بڑی عالمی قوتیں بڑی منڈیوں اور معاشی مفادات کی بدولت بھارتی زلف کی اسیر ہیں تو دوسری طرف بھارتی زیر قبضہ کشمیر میں جاری بھارتی قابض فوج کے مظالم نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا رکھی ہے۔ اور ڈھٹائی پر مبنی بھارتی کشمیر پالیسی اور اس کی وجہ سے بھارت کی پاکستان کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی نے امریکہ جیسی قوت کو بھی پریشان کردیا ہے جو گزشتہ 15 برسوں سے جنوبی ایشیاء اور مشرق بعید سے وابستہ اپنے مفادات اور چین کے خلاف اپنے منصوبوں میں بھارتی افادیت کی بدولت بھارت میں اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے ہر طرح کے ظلم پر اپنے کان اور آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے علاوہ بھارت کے طول و عرض میں مسلمانوں کو درپیش صورتحال تو رہی ایک طرف امریکہ و برطانیہ نے وہاں آئے روز چرچ جلائے جانے والے واقعات چرچ میں رہائش پذیر پادریوں کے قتل اور راہباوٴں کی عصمت دری جیسے گھناوٴنے واقعات پر کبھی لب کشائی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

(جاری ہے)

لیکن اب اچانک اقوام متحدہ میں تعینات امریکی سفیر نکی ہیلی نے 5 ا پریل کو اقوام متحدہ کے جاری ایک اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاک بھارت کشیدگی پر امریکی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وہاں موجود عالمی میڈیا سے تعلق رکھنے والے تمام صحافیوں کو حیرت میں ڈال دیا۔

نکی ہیلی کا یہ کہنا کہ ”امریکہ دونوں ملکوں کے درمیان کچھ ہو جانے کا انتظار نہیں کرے گا“ اپنے اندر بہت معنی رکھتا ہے ۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ دونوں ملکوں کے درمیان ایسی کسی جنگ جس میں ایٹمی اسلحہ استعمال ہو اور خطے میں امریکہ کے سارے مفادات پاک بھارت جنگ کی وجہ سے لگنے والی آگ میں بھسم ہو جائیں امریکہ کچھ ہونے کا انتظار کرنے کی بجائے کشیدگی کے خاتمہ کیلئے سنجیدگی سے سوچ رہا ہے۔

ویسے تو ماضی میں تمام امریکی صدور منتخب ہونے کے بعد جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اپنے پا لیسی بیانات میں پاکستان اور بھارت کو کشیدگی میں خاتمہ اور کشمیر پر مذاکرات پر زور دیتے رہے ہیں۔ اور جب کبھی بھارت کسی مشکل سے دوچار نظر آتا ہے تو اسے آسانی فراہم کرنے کیلئے پاکستان کو کشمیر کے تنازع کے حل میں مدد فراہم کرنے کا لولی پاپ بھی دیا جاتا رہا ہے ۔

جس کی بڑی مثال کارگل کی جنگ سے بھارتی گردن چھڑوانے کیلئے بل کلنٹن کی یقین دہانیاں وقت گزرنے کے بعد پاکستان کیلئے سیراب ثابت ہوئیں۔ اسی طرح سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے بھی حلف اٹھانے کے بعد پاک بھارت کشیدگی میں خاتمہ کیلئے کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا جو افغانستان میں امریکی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اور اب بھی پاکستان نے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ امن کا خواہاں ہے اور تمام تنازعات کا حل بات چیت کے ذریعے چاہتا ہے ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھارت بھی اس کیلئے تیار ہے؟تو بھارت نے اس کا جواب یکسر انکار کی صورت میں دے دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے بھارت کا دہشت گردی سے پاک ماحول والا موٴقف تبدیل نہیں ہوا۔ دوسرے لفظوں میں بھارت یہ کہنا چاہتا ہے کہ بھارت جہاں گزشتہ ایک دہائی میں دہشت گردی کے 5 واقعات ہوئے جن میں 27 جولائی 2015ء کو گورداس پور کے تھانہ دینا نگر پر ہونے والا حملہ جس میں سارا دن پنجاب پولیس اور دہشت گردوں کے درمیان مقابلہ جاری رہا۔

12 گھنٹے تک جاری رہنے کے بعد جب مقابلہ ختم ہوا اور حملہ آور مارے گئے تو مقابلہ کرنے والے 3 ہزار بھارتی پولیس والوں کو معلوم ہوا کہ دہشت گردوں کی کل تعداد 3 تھی۔ جنوری 2016ء میں معروف بھارتی جنگی ہوائی اڈے پٹھانکوٹ پر دہشت گردی کی دوسری بڑی کارروائی تھی جسے بھارتیوں نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ جبکہ بھارت کے اپنے تحقیقاتی اعلیٰ پولیس آفیسر ڈی جی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی شرد کمار نے2 جون 2016ء کو سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کر لیا کہ حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے۔

علاوہ ازیں پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات کرنے والے ایس پی تندیل احمد کو ڈاکووٴں نے 4اپریل کی شب اس وقت قتل کر دیا جب وہ اپنے ایک عزیز کی شادی میں شرکت کے بعد واپس گھر لوٹ رہے تھے اور دوران ڈکیتی انہوں نے سوائے اس ”لیپ ٹاپ“ کے جس میں پٹھانکوٹ حملے سے متعلق تمام تحقیقات موجود تھیں ڈاکووٴں نے اور کچھ بھی نہیں لوٹا۔ تیسری دہشت گردی کی کارروائی 18 ستمبر 2016ء کو مقبوضہ کشمیر میں اڑی کے مقام پر بھارتی بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر دہشت گردوں کے حملے کی شکل میں سامنے آئی جسے بھارت نے خوب اچھالا اور اس کا بدلہ لینے کے لئے سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ بھی رچایا جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں 2003 ء سے جاری دہشت گردی کے ہزاروں واقعات میں اب تک 60 ہزار سے کہیں زیادہ پاکستانی اپنی جان گنوا چکے ہیں جس میں سول افراد کے علاوہ پاک فوج کے 6174 افسر وجوان بھی شہادت پانے والوں میں شامل ہیں۔

دہشت گردی کی کارروائیوں پر مبنی تفصیل میں جائیں تو یقین نہیں آتا کہ پاکستان نے یہ تمام کٹھن سفر طے کیا ہے۔ پھر بھی بھارت پاکستان کو دہشت گردی کے فروغ کا طعنہ دے تو پھر بھارت ہی کو بتانا ہو گا پاکستان کے طول و عرض میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی کی پشت پر کون ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کا مشیر برائے سلامتی اجیت کمار دودل جب خود تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے طالبان بھارت کا اثاثہ ہیں۔

ساتھ ہی دھمکی دیتا ہے کہ اب اگر بھارت میں ممبئی جیسی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوا تو بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں رہے گا۔ بھارتی وزیراعظم بھرے جلسوں میں جب پاکستان کو توڑنے ، بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی دھمکی دیتا ہے تو اس کا مطلب کیا ہے یہی نا کہ بھارت نے 1971 ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی طرز پر موجودہ پاکستان کی سلامتی پر وار کی نہ صرف منصوبہ بندی کر رکھی ہے بلکہ اس کی سازشیں عروج پر ہیں۔

لیکن بھارت کو یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان بھارت کی طرف سے کسی بھی ممکنہ جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ بھارت نے پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ مسلط کر کے دیکھ لیا کہ اس قدر جانی نقصان کے باوجود پاکستانیوں کے حوصلے چٹان کی طرح مستحکم اور ہمالیہ کی طرح بلند ہیں۔ پاکستان کی طرف سے دہشت گردوں کو دی جانے والی شکست ہی ہے جس نے امریکہ کو جنوبی ایشیا کی صورتحال کی طرف متوجہ کیا ہے کیونکہ واضح نظر آرہا ہے کہ بھارت اس محاذ پر شکست کے بعد پاکستان کے خلاف کوئی نیا محاذ کھولے گا جو خطے میں ایٹمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اور یہی امریکہ کی پریشانی کا اصل سبب ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pak Baharat Kasheedgi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 April 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.