پاک چین اتحاد کیخلاف بھارت اسرائیل کا گٹھ جوڑ!

عالمی طاقتوں کی خطے میں گریٹ گیم․․․․

بدھ 19 جولائی 2017

Pak Cheen Itihad K Khilaf Bharat Israel Ka Gath Jor
محبوب احمد:
اسرائیل کے ساتھ بھارت کے تعلقات اچنبھے کی بات نہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ تعلقات مودی کے پیشرووزراہٴ اعظم عوام کی نظروں کے سامنے لائے بغیر پروان چڑھاتے رہے۔دونوں ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں کے دورے نہ ہونے کے باوجود دو طرفہ تجارتی ،سفارتی،اور سکیورٹی تعلقات فروغ پاتے رہے۔اسرائیل بھارت تعلقات میں مضبوطی کے لئے پس پردہ ہونے والے کام میں پہلی بار تیزی بی جے پی کی حکومت ہی لائی تھی اور یہ 1998ء سے 2004ء تک کا دور تھا۔

مودی حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو اس کا دعویٰ تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود فلسطینی ریاست کی حمایت رکھیں گے لیکن ان کے اس دعوے کی قلعی وزیراعظم مودی کے حالیہ دورہٴ اسرائیل کے دوران فلسطین کو یکسر نظر انداز کرنے کھل کر سامنے آگئی ہے۔

(جاری ہے)

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا تاریخی دورہٴ اسرائیل کے خطے میں کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن جس انداز میں اسرائیل وزیراعظم نیتن یا ہونے پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی کا انتہائی پرتپاک استقبال کیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اپنے خاص اہداف کے حصول کے لئے پہلے سے زیادہ سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں ،یہاں یہ بات قابل غور ے کہ جس طریقے سے نریندر مودی کا استقبال کیا گیا ہے بالعموم اس قسم کا انداز اسرائیل میں صرف امریکی صدر کے لئے محفوظ و مخصوص ہے۔

لہذاآنے والے دنوں میں اسرائیلی وزیراعظم کے دورہٴ نئی دہلی سے یہ دوستی مزید پروان چڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔دونوں ممالک کے حکام ا مید لگائے ہوئے ہیں کہ اس دورے کے بعد دو طرفہ تعلقات کا نیا باب شروع ہوگا،یہ امیدیں کس حد تک پوری ہوتی ہیں اس کا انحصار دونوں ممالک کی خواہشات کے بجائے مفادات اور عالمی سیاست میں روز بروز ہونے والی تبدیلیوں پر ہے۔

مبصرین کے نزدیک نئی دہلی بیشتر تاریخی حقائق اور حالات کو نظر انداز کر چکا ہے ،بھارتی وزیراعظم کا یہودی ریاست کا اولین دورہ 25 سال میں بیشتر اوقات بند دروازوں کے پیچھے استوار ہونے والے ایک رشتے کا عوامی سطح پر ایک اعتراف ہی نہیں ہے بلکہ یہ مشرق وسطیٰ کے اندر اسرائیل کے تعلقات معمول پر آنے کا عکاس بھی ہے۔بھارت اور اسرائیل رواں برس اپنے سفارتی تعلقات کے قیام ک کی 25ویں سالگرہ منارہے ہیں۔

اور اس موقع پر دونوں ممالک تعلقات کو مختلف شعبوں میں مزید مستحکم بنانا چاہتے ہیں۔یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اسرائیل کو ہمیشہ سے ہی اقوام متحدہ میں اپنے حق میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے اتحادیوں کی تلا ش رہتی ہے اور وہ ایسے ممالک کے ساتھ کاروباری روابط بھی استوار کرنے کی خواہش رکھتا ہے ایسے حالات میں کیا اسرائیل اور بھارت کے درمیان تعلقات مستحکم ہورہے ہیں؟کیا تقریباََ 80لاکھ آبادی والے اسرائیل کے لئے مفادات پر مبنی نریندر مودی کا یہ دورہ ایک سفارتی جیت ہے؟ایک ارب سے زائد آبادی والا ملک بھارت دنیا میں ہتھیاروں کی درآمد کے حوالے سے سب سے بڑا ملک ہے جبکہ اسرائیل بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے اہم ملک ہے اور اب ایک اندازے کے مطابق دونوں ممالک 1 ارب ڈالر تک کے سالانہ دفاعی معاہدوں پر غور کررہے ہیں۔

بھارت خطے میں اپنے روایتی حریفوں پاکستان اور چین سے لڑائی کے لئے سودیت دور کے ہتھیاروں کر مزید بہتر بنانے کے لئے سینکڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے جبکہ اس عمل کو پورا کرنے کے لئے بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی)کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لے کر آب تک بھارت عالمی طاقتوں کے ساتھ کئی بڑے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔اسرائیلی سرکاری کمپنی اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز (آئی اے آئی)نے بھی رواں برس ،اس امرکا دعویٰ کیا تھا کہ بھارت کمپنی کہ بھارت کمپنی سے 2 ارب ڈالرز کی جنگی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی خریدے گا،یہ کمپنی کا اب تک کا سب سے بڑا دفاعی معاہدہ ہے جس کے مطابق کمپنی بھارت کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کا دفاعی نظام،لانچرز اور مواصلات کی ٹیکنالوجی فراہم کرے گی،اس کے علاوہ اسرائیلی کمپنی نے بھارتی نیوی کے ساتھ میزائل ڈیفنس سسٹم فراہم کرنے کے لئے 63 کروڑ ڈالر کے معاہدے کا بھی اعلان کیاتھا۔

بھارتی وزیراعظم کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بہتری کو فلسطین کے خلاف جارحیت سے باز آنے کی شرط سے مشروط کرنا تو دور کی بات فلسطین کا مختصر ترین دورہ کرکے فلسطینوں کے ساتھ زبانی ہمدردی کا اظہاربھی ممکن نہیں ہوسکا ،یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھارتی وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہٴ کیا ،لیکن اس دورے کے دوران فلسطینی قیادت سے ملنے سے احتراز کیا ہے۔

یاد رہے کہ اب تک کی روایت یہی رہی ہے کہ جس بھی بھارتی لیڈر نے اسرائیل کا دورہٴ کیا اس نے فلسطینی قیادت سے ملاقات کرکے عالمی برادری کو یہ پیغام ضروردیا کہ دفاعی اور تکنیکی ضرورتوں کے پیش نظر بھارت اسرائیل سے تعلقات تو رکھنا چاہتا ہے مگر وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فلسطین اور فلسطین کے عوام کے ساتھ بھی کھڑا ہے لیکن دورہٴ اسرائیل میں فلسطین کو بالکل نظر انداز کرنے کے مودی کے اس فیصلے سے فلسطینی انتظامیہ اور وہاں کے عوام اس امتیازی سلوک پر سخت نالاں ہیں۔

ہندوستان نے 1950 میں اسرائیل کو تسلیم کیا تاہم دونوں ملکوں کے تعلقات کی ابتدائی نوعیت بہت مختلف تھی،ہندوستان نے پچھلی صدی میں اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ تعلقات میں توازن کی ظاہری کوشش کی،ہندوستان کی اس پالیسی کو عرب نواز پالیسی بھی کہا جاتا رہا۔ عرب نواز پالیسی دکھاوے کی تھی ،جس کا ثبوت 1962 میں چین اور 1965 میں پاکستان کے ساتھ جنگ میں ہندوستان کو ملنے والی اسرائیلی امداد بھی ہے۔

دونوں جنگوں میں اسرائیل مدد کے باوجود ہندوستانی حکومتوں نے بظاہر اسرائیل مخالف رویہ برقرار رکھا کیونکہ 1966 کے انتخابات کے بعد اند ر گاندھی کی حکومت بنی جو چھوٹی جماعتوں بالخصوص کمیونسٹ گروپوں کی مرہون منت تھی۔یہ چھوٹے گروپ اور کمیونسٹ جماعتیں اسرائیل کی مخالف تھیں۔اسی وجہ سے ہندوستان اور اسرائیل کے تعقات میں 1970 میں بگاڑ آیا۔

1974 میں جب عرب لیگ نے فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کو فلسطینوں کی واحد قانونی نمائندہ قراردیا تو ہندوستان نے اس کی حمایت کی اور پی ایل او کو نئی دہلی میں اپنا دفتر قائم کرنے کی اجازت دی۔یہی دفتر1980 میں سفارت خانہ قرار پایا۔ہندوستان اسرائیل دفاعی تعاون 1960 کی دہائی میں ہونے والی جنگوں تک محدود نہیں رہا بلکہ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پابندیاں عائد ہوئیں تب بھی اسرائیل ہندوستان کو دفاعی سامان مہیا کرتا رہا۔

کارگل جنگ میں بھی اسرائیل نے پاک فوج کی پوزیشنز کی سیٹلائیٹ تصاویر ہندوستان کو مہیا کیں،گزشتہ سال ہندوستان نے اسرائیل سے ایسے حساس رڈار حاصل کیے جو گھنے جنگل میں بھی انسانوں اور گاڑیوں کی نقل وحرکت کا پتہ چلا سکتے ہیں،یہ راڈار لائن آف کنٹرول پر نصب کیے گئے اس کے علاوہ ہندوستان اسرائیل سے میزائل دفائی نظام،اواکس طیارے خرید چکا ہے دونون ملکوں نے کئی مشترکہ دفاعی منصوبے شروع کر رکھے ہیں اور ہندوستانی میزائل پروگرام میں اسرائیل کی ایرواسپیس انڈسٹریز تعاون کر رہی ہے 1962 میں وزیراعظم نرسمہا راؤ کے دور میں ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات اس قدر گہرے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا سالانہ حجم پچھلے پانچ سال سے چار ارب ساٹھ کروڑڈالر ہے2007 سے دونوں ملک آزاد رتجارتی معاہدے پر مذاکرات کر رہے ہیں اور اسرائیلی وزیر تجارت نے 2013میں کہاتھا کہ اگر معاہدہ طے پا گیا تو دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارتی حجم دس ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔

معاہدہ طے نہ پانے کی وجہ ہندوستان کے تحفظات ہیں کہ اس سے مقامی صنعت متاثر ہوگی۔تجارت سے ہٹ کر دونوں ملکوں کے تعلقات بنیادی طور پر دفاعی شعبے میں ہیں،سودیت یونین ٹوٹنے کے بعد ہندوستان نے محسوس کیا کہ اس کے پاس موجود روسی اسلحہ اب جدید جنگی تقاضوں کے مطابق نہیں،دوسری طرف اسرائیل کی دفاعی صنعت بھی جدید لڑاکا طیاروں،ٹینکوں،اور بحری جہازوں کی تیاری میں قدم بڑھا رہی تھی۔

یہی موقعہ تھا جب دونوں ملکوں نے پس پردہ وسیع فوجی تعاون کو فروغ دیا۔ مودی کے دورہ اسرائیل کو بہت زیادہ اہمیت کیوں دی جا رہی ہے؟اس کو جواب خطے میں ہونے والی نئی صف بندی میں پوشیدہ ہے۔ہندوستان ،جس کا طویل عرصے تک روسی ہتھیاروں کے حوالے سے جنوبی ایشیاء میں اجارہ تھا وہ اسے ختم ہوتا نظر آرہا ہے،کیونکہ روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں گرم جوشی آ رہی ہے۔

اور پاکستان روس دفاعی تعاون کا آغاز بھی کرچکے ہیں۔ ہندوستانی فوج جس کا بڑا انحصار روسی ساختہ اسلحہ پر تھا،پاک روس دفاعی تعاون سے پریشان ہوچکی ہے۔ہندوستان کے لیے ہتھیاروں کی بڑی مارکیٹ امریکا ہوسکتی ہے لیکن پاکستان بھی امریکی اسلحے کا خریدار ہے،نئی دہلی نے اس صورت حال میں تل ابیب کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pak Cheen Itihad K Khilaf Bharat Israel Ka Gath Jor is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.