پاکستان کے عسکری تعاون میں امریکہ کو پیغام!

مغوی جوڑے کو رہائی دلانے پر امریکی صدر بھی پاکستان کے شکر گزار طالبان غیر ملکی افواج کے انخلاء تک افغان حکومت سے بات کرنے کو تیارنہیں

پیر 23 اکتوبر 2017

Pakistan K Askri Tawun me America ko Paighamm
محمد رضوان خان:
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ذہن میں بھارت نے یہ بات بٹھا دی ہے کہ افغانستان جو بھی بگاڑ پیدا ہورہا ہے اس کے پیچھے پاکستان ہے اپنے اس دعوے کو سچ ثابت کرنے کیلئے ہندوستان بہت سے استدلال پیش کرتا ہے۔ بھارت کے یہ دلائل کس قدر سچے ہیں اس بحث سے قطع نظر ان کو تقویت دینے کیلئے پاکستان میں بھی ہر مکتب فکر کے اندر اچھی خاصی کھیپ تیار ہوچکی ہے جن میں تازہ ترین فرمودات وزیر خارجہ خواجہ آصف کے تھے جس میں گھر کی صفائی کا ذکرمکرر مکرر کر کے بھارت موقف کو تقویت پہنچائی، اس قسم کی ”گواہیاں“ بھارت اپنے دعووں کو قوی ترکرنے کیلئے پیش کرتا اور اسی بنیاد پر وہ افغانستان کے اند ر اپنی موجودگی کا جواز ایک ایسے ملک طور پر کرتا ہے جس کے پیٹ میں افغانوں کی محبت کے سارے مروڑ اٹھتے ہیں لیکن اپنے ہمسایوں کے ساتھ اس کی رواداری کا یہ عالم ہے کہ وہ ان دنوں نیپال جیسے چھوٹے سے ہمسایہ ملک کے ساتھ سینگ ہوئے بیٹھا ہے۔

(جاری ہے)

بھارت کی بات اس تمیہد کو بیان کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ایک تو اس کی افغان پرستی پاکستان دشمنی کی مرہون منت ہے تو دوسری طرف وہ یہ پراپیگنڈہ بھی کررہا ہے کہ پاکستان جن حلقوں کی پشے پناہی کررہا ہے وہ افغانستان میں امن قائم نہیں ہونے دیتے، اس پراپیگنڈے میں حقانی نیٹ ورک کا نام بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر امریکہ نے افغانستان کے بار میں جو پالیسی بنائی اس میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے الٹا اس کے بارے میں زہر آلود پراپیگنڈہ کیا گیا۔

امریکہ نے بھی اس زہر افشانی کے بعد اپنی اوقات دکھا دی لیکن پاکستان نے عملی طور پر دنیا پر یہ واضح کردیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر ہیں، یہ عملی قدم پاکستان نے اس وقت اٹھا جب 5 برس قبل افغانستان میں اغواء ہونے والے مغوی جوڑے کو دہشت گردوں سے بازیاب کرالیا ، یہ مغوی جوڑا 2012ء میں افغانستان میں اغوا ہوا تھا جس میں شوہر کا تعلق کینیڈا جبکہ بیوی کا تعلق امریکہ سے ہے۔

پاکستان کے اس اقدام پر دنیا بھر میں واہ واہ ہوئی اور اس کے قصدے پڑھے گئے خود امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کا ملک پاکستان اور اس کے راہنماؤں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے جارہا ہے۔ پاکستانی تعریف کے اس شور شرابے میں نئی دہلی میں سوگ طاری رہا ۔ پاکستان نے صرف اس جوڑے کو بازیاب کرانے میں ہی تعاون نہیں کیا بلکہ دنیا کو یہ بھی باور کرادیا کہ افغان طالبان جو افغانستان کے 40 فیصد رقبے کے آج بھی حاکم ہیں کو ختم کرنے کے خواب دیکھنے کے بجائے ان سے مذاکرات کرکے قیام امن کی کوشش کی جائے جس کیلئے مسقط میں بیٹھک بھی تجویز ہوئی، یہ ساری کوشش پاکستان کی وجہ سے ممکن ہوئی، تاہم دوسری طرف افغانستان کے شمالی صوبے سرپل کے علاقے مرزا اولنگ پر ایک بار پھر انہوں نے قبضہ کرکے دکھایا کہ وہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ افغانستان کی ایک ایسی جیتی جاگتی قوت ہیں جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

مرزا اولنگ پر طالبان کے قبضے نے سب سے زیادہ نقصان بھارت کے بنائے ہوئے پراپیگنڈے کے محل کو پہنچایا کیونکہ پاکستان نے تو عملی تعاون کیا اور جوں ہی معلومات کا تبادلہ کیا گیا تو اس نے تعاون کیا دوسری طرف پاکستان سے غیر متصل علاقے پر طالبان کی یلغار اور مرزاولنگ کی ایک گولی چلے بغیر فتح نے ان کی دھاک کر پھر سنددے دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان کے دستوں نے مرزا اولنگ پر یلغار کی تو اس وقت تو مقامی پولیس سمیت کسی نے بھی ایکشن نہیں لیا لیکن بعد ازاں جب پوچھا گیا تو سرپل پولیس کے سربراہ جنرل خلیلی دست یار نے موقف اپنایا کہ انہوں نے جان بوجھ کر مزاحمت نہیں کی تاکہ طالبان دستے شہر کے اندر داخل ہوجائیں ۔

ان کا موقف تھا کہ مقامی پولیس نے پسپائی اختیار نہیں کی بلکہ باقاعدہ جنگی حکمت عملی تحت پسپائی اختیار کی ۔ جنرل خلیلی اس مئوقف کاآگے چل کر کس طرح دفاع کریں گے یہ تو ابھی نہیں بتایا جاسکتا ، لیکن ایک ایسے وقت میں جب 16اکتوبر کو مسقط میں پاکستان، افغانستان، چین امریکہ کی افغان امن کے بارے میں اہم نشست ہونے جارہی تھی اس سے محض دوروز قبل طالبان کی اس یلگار نے واضح پیغام دے دیا کہ افغانستان کے امن کے بارے میں وہ جس مئوقف پر کھڑے تھے وہ ابھی تک وہیں پر ہیں۔

افغان طالبان نے یہ حملہ 12 اور 13 اکتوبر کی درمیانی شب کو کیا تھا انہوں نے اس حملے کے بعد وادی مرزا اولنگ کا کنٹرول سنبھال لیا اور جس وقت تک یہ سطور لکھی جارہی ہیں اس وقت تک طالبان کا اس وادی پر قبضہ بدستور برقرار ہے اور جنرل خلیلی کا کہنا ہے کہ جلد ہی وہ یہ قبضہ واگز ارکر ا لیں گے۔ جنرل خلیلی یہ قبضہ کب تک واگزار کراتے ہیں اس بارے میں تو ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ قرائن بتاتے ہیں کہ یہ قبضہ زیادہ عرصہ ماضی قریب میں برقرا ر نہیں رہا تھا اور اب بھی جس وقت افغان قانون نافذ کرنے والے ادارے اوران کے غیر ملکی ساتھیوں کو جب اپنی ساکھ کی بحالی یاد آئے گی تو وہ مرزا اولنگ پر ہلہ بول دیں گے۔

یاد رہے کہ افغان طالبان اس وادی کو سال رواں میں اگست کے مہینے میں بھی فتح کرچکے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے افغانستان میں اس وقت ظہور پذیر ہونے والے واقعات خاصے دلچسپ ہیں۔ ان میں ایک بارپھر پاکستان سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ طالبان کو افغان حکومت کے روبرو بٹھا دے ، اس کے جواب میں پاکستان نے بھی اپنے سے کوشش کی کہ دونوں کو بٹھانے کا اہتمام کی جائے لیکن طالبان اب بھی اپنے اس مئوقف پر قائم ہیں کہ جب تک غیر ملکی افواج افغانستان سے چلی نہیں جاتیں اس وقت تک وہ افغان حکومت سے بات نہیں کریں گے۔

افغان طالبان کے اس مئوقف کی وجہ سے بات چیت کے ابتدائی راؤنڈ سے زیادہ اُمیدیں وابستہ کرنا کوئی دانشمندی نہیں، البتہ خوش آئند بات یہ کہ وہ عمل جو 4 ملکی بات چیت میں شروع ہوا تھا وہ بحال ہوگیا ہے۔ یاد رہے کہ اس چار ملکی کمیٹی میں بھارت شامل نہ تھا جس کا اسے بڑا قلق تھا اور اس نے اپنی اس بے دخلی پر بڑا واویلا بھی کیا لیکن اس دفعہ ایسا دکھائی دے رہا ہے ۔

افغان امن کیلئے دیگر فورم بھی متحرک ہیں جن میں شنگھائی تنظیم جیسے فورم بھی شامل ہیں ان فورمز میں ہندوستان کو بھی نما ئندگی حاصل ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت کو اب اس حددرجہ کی محرومی افغان امور کے حوالے سے نہیں ہوگی جس کا اسے پہلے سامنا تھا، بعض حلقوں کی رائے یہ ہے کہ افغانستان کے امن کے معاملے میں اب کسی ایک مذاکراتی ترکیب تک محدود رہنے کے بجائے دیگر فورمز بھی برقرار رہیں گے تاہم سب سے اہم اور فیصلہ کن حیثیت چار ملکی کمیٹی کو ہی حاصل ہوگی اس طرح یہ تاثر بھی ملے گا کہ ہر سطح پر افغانستان کے امن کی بحالی کا کام ہور ہا ہے اور ہر ایک خود کو اس عمل میں سانجھے دار بھی جانے گا۔

افغانستان میں بحالی امن کی ان کوششوں اور اس سے قبل کینیڈا اور امریکی جوڑے کو اگر رہائی ملی ہے تو اس کا تمام کریڈٹ پاکستانی فوج کو جاتا ہے جس نے امریکی انٹیلی جنس کی معلومات پر ایکشن کیااور اس جوڑے کی بازیابی ممکن ہوئی۔ بازیاب کرائے گئے افراد میں ایک کینڈین شہری، اس کی امریکی بیوی اور تین بچے شامل ہیں ، ان افراد کو 2012ء میں مسلح افراد نے افغانستان میں اغوا کیا گیا تھا اور انہیں اس عرصے کے دوران وہیں رکھا گیاتھا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی خفیہ اداروں نے پاکستانی انٹیلی جنس حکام کو آگاہ کیا تھاکہ ان افراد کو قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے راستے افغانستان سے پاکستان منتقل کیا جارہا ہے جس پر پاکستانی فوج نے کاروائی کرکے ان کو بازیاب کرالیا۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کی کامیابی سے بروقت انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔

5 سال تک طالبان کے قبضے میں رہنے والے مغوی اپنے وطن واپس لوٹ چکے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مغوی جوڑے کے ساتھ جو تین بچے موجود تھے وہ تینوں طالبان کی قید کے دوران ہی پیدا ہوئے، اس مغوی خاندان کی بازیابی پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف پاکستان کا شکریہ ادا کیا بلکہ وہ مستقبل کے تعلقات کو بھی بہتر کرنے کے خواہاں ہیں ۔ صدر ٹرمپ کا کہناتھا کہ وہ کئی ایک محاذوں پر پاکستان کے تعاون کے ممنون ہیں۔

ٹرمپ جن کو مودی اینڈ کمپنی نے بہت ورغلا نے کی کوشش کی ان کے منہ سے اس قسم کی باتوں کو بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین بہت اہم قراردے رہے ہیں وہ ان حالات کو نئے دور کی ابتداء گردان رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اس جوڑے کی کامیاب بازیابی سے یہ واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستانی فوج اور سول انتظامیہ کا یہ مئوقف درست ہے کہ پاکستانی فوج اور سول انتظامیہ کا یہ مئوقف درست ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ ہونا چاہیے جس سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔

پاکستانی فوج نے اس بازیابی کے ذریعے امریکہ کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ اگر ان کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا جائے گا تو اس صورت میں پاکستان بھی آگے کاروائی کرے گا لیکن اگر امریکہ کا یہ خیال ہے کہ وہ پاکستان کے اند ر کاروائی کرتو یہ امریکہ کی خام خیالی ہے۔ یادرہے کہ امریکہ نے دھمکی دی تھی کہ وہ پاکستان میں بھی کاروائی کرے گا اگر اسے دہشت گردوں کی اطلاع ملے گی پاکستان نے امریکہ پر واضح کردیا ہے کہ اسے یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ پاکستانی سرزمین پر کاروائی صرف پاکستان فورسز ہی کریں گی۔

پاکستان کی طرف سے امریکہ کو ہر سطح پر اپنی حدود کی پاسداری کا پیغام تو دے دیا گیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان آنے سے قبل بعض اعتماد سازی کے اقدام کا مطالبہ کیا تھا جس کیلئے کوششیں جاری ہیں اس ضمن میں امریکہ کا اعتماد کسی حدتک بھال ہوا ہے لیکن بھی اس کی پختگی بھی درکار ہے ۔ پاکستان نے جس طرح مغوی جوڑے کو بازیاب کرایا ہے اسے دیکھتے ہوئے کم از کم ڈونلڈٹرمپ کو اب قدر آئی کہ پاکستان ہی درحقیقت افغان مسئلے کا حل ہے لیکن یہ بیل اسی وقت منڈھے چڑھے گی جب ڈونلڈ ٹرمپ کو جنوبی ایشیاء کے باقی امور سمجھ آئیں گے۔

ماہرین کے مطابق بظاہر یہ مرحلہ بہت مشکل سے لئے ہے کہ امریکہ میں اس وقت افغان پالیسی سازی سے متعلق کے تمام امور ان لوگوں کو تفویض کئے گئے ہیں جو افغانستان سے شکست کا منہ دیکھ کر گئے ہیں، ان سب میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ان سب کا خیال ہے کہ افغانستان میں امریکی فتح کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ پاکستان ہے اس سوچ کی وجہ سے افغانستان سے پچھلے 10 برس میں واپس جانے والے ہر امریکی کی نظر میں قصوروار پاکستان ہے۔

امریکی صدر کو اب اپنے تجربے کی روشنی میں یہ مئوقف بدلنا پڑے گا تب جا کر بات آگے بڑھے گی لیکن ساتھ ہی امریکہ اور افغانستان دونوں کو بھارت کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے اس لئے کہ اب امریکہ کے اندر بھی یہ بات سمجھی جارہی ہے کہ افغانستان میں بھارت کے بڑھتے نفوذ کو بھی کم کرنا ہو گا تب جا کر مثبت پیش رفت کا سلسلہ آگے بڑھے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan K Askri Tawun me America ko Paighamm is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.