پاکستان میں توانائی کے وسائل اور مسائل

بجلی بحران 2018ء سے پہلے ختم کرنے کا دعویٰ دریاؤں پرڈیم بنا کر اُن پر ہائیڈروپاور بجلی گھر تعمیر کئے جاسکتے ہیں

بدھ 24 اگست 2016

Pakistan Main Tawanai K Wasail Aur Masail
لیفٹیننٹ کرنل (ر) عبدالرزاق بگٹی :
پاکستان میں توانائی کے وسائل بے حساب ہیں۔ دریا اور اُن کے معاون دریاؤں پر ڈیم تعمیر کرکے ان میں ہائیڈروپاور بجلی گھر تعمیر کرکے ایک لاکھ میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ، یوں ملکی توانائی کی ضروریات کسی حدتک سستی ترین بجلی سے پوری کی جاسکتی ہیں۔ اگر ایک ہی دریا اور اس کے معاون دریاؤں پرہائیڈروپاور اور کثیرالمقاصدڈیم بنا کران پر ہائیڈروپاور بجلی گھر تعمیر کئے جائیں تو سال بھر اس سے پن بجلی گھر تعمیر کئے جائیں تو سال بھر ان سے پن بجلی کی پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔

مثال کے طور پر دریائے سندھ کے کے معاون ، پشوک دریار پر مجوزہ ڈیم تعمیر کیا جائے تو اس میں مجموعی 10.7 میگا واٹ پانی کا ذخیرہ اور قابل استعمال 5.4 میگاواٹ پانی کا ذخیرہ ہوگا جو زراعت کے لئے میدانی علاقہ جات میں دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

علاوہ ازیں اُس کے ہائیڈروپاور سے 960 میگاواٹ بجلی کی پیداوار ہوگی دریائے سندھ پر بونجنی ہائیڈروپاور بنایا جائے تو 7100 میگاواٹ بجلی کی پیداوار ہوگی۔

بھاشاڈیم بننے کی صورت میں 6.1میگاواٹ پانی کے فعال ذخیرہ کے ساتھ 4500 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ اس کے نیچے بہاؤ پر داسو ہائیڈروپاور دومرحلوں میں 4310میگاواٹ ، تھاکوٹ ہائیڈرو پاور سے 2800 میگاواٹ تربیلاڈیم ہائیڈرو پاور تو سیع نمبر چار اور پانچ کی تکمیل کے بعد تقریباََ 550 میگا واٹ، غازی بروتھا ہائیڈروپاور 1450 میگاواٹ اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بعد اس کی ہائیڈروپاور سے 3600 میگاواٹ بجلی کی پیداوار ہوسکتی ہے۔

ہمارے دریاؤں میں سال کے 365دن پانی کی روانی میں فراوانی نہیں ہے، لہٰذا بجلی کی پیداوار مئی تا اکتوبر پوری استطاعت کے ساتھ ہوتی ہے مگر نومبر تااپریل پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈیموں سے پانی کااخراج زراعت کے لئے محکمہ آبپاشی کی طلب پر ہوتی ہے۔ ڈیمز میں سے پانی خارج کیا جائے گا تو بجلی کی پیداوار بھی ہوگی۔

اوپر بہاؤ پر ڈیمز میں سے پانی خارج ہوگا تو یہ پانی نیچے بہاؤ پر بنے ہوئے ہائیڈرو پاور کو چلاتے ہوئے مزید نیچے رواں ہوگا۔ یوں ایک دریاکی روانی پر بہت سارے ڈیم اور ہائیڈروپاور تعمیر کرنے کی صورت میں دریا کاپانی ایک نظم کے تحت رواں رکھنا ممکن ہوگا، اضافی پانی ڈیم اور ہائیڈروپاور کی جھیلوں میں روکا جاسکے جو پانی کے کم بہاؤ کے موسم میں زراعت کے لئے مہیا کیاجائے گا۔

اس طرح سیلابوں سے بچاجاسکتا ہے۔ دریاؤں پر ڈیمز اور ہائیڈروپاور نہ ہونے کی وجہ سے بارانی موسم میں تباہ گن سیلاب آتے ہیں اور گندم کی فصل کے موسم میں پانی کی کمی کاسامنا کرنا پڑتا ہے اور موجودہ ڈیم کی ہائیڈروپاور سے بھی بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کی عالمی پانی کی ترقیاتی رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2012 تک سیلابوں میں پاکستان میں 3072 انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور 16ارب Billion 16.0 Dollar کا معاشی نقصان ہوا۔

ڈیم اور ہائیڈروپاور قلیل عرصہ میں مکمل نہیں ہوتے یہ ایسے منصوبے ہیں جن پر سالہا سال مسلسل کام جاری رکھنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں ملک کی اس طرح کے ترقیاتی منصوبے تیار کرنا اور اس پر عملی جامہ پہنانے کے لئے منصوبہ بندی کمیشن اور وزارت ہوا کرتی ہے۔ پاکستان میں بھی منصوبہ بندی کمیشن اور وزارت منصوبہ بندی ہے۔ 1947 کے بعد پاکستان میں رواں دریاؤں میں سے کچھ دریاؤں اور انہار کی ہٹ ریگولیٹرانڈیا میں آگئے تو ایک بحران سا پیدا ہوا۔

منصوبہ بندی کے تحت لنک کینال کے منصوبے بنائے گئے اور دریاؤں کو آپس میں جوڑدیا گیا۔ یہ عمل 1947 سے 1970 تک جاری رہ کر مکمل ہوا۔ ایسی ہی منصوبہ بندی کے تحت منگا ڈیم تعمیر ہو کر 1967 میں مکمل ہوا۔ تربیلاڈیم تعمیر ہوکر 1976 میں مکمل ہوا۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے تمام بنیادی کام مکمل اوررقم مہیاکرنے کے لئے عالمی بنک سے رجوع کیاجاچکا تھا۔

اس کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1975 میں IAE Aسے اجازت نامہ حاصل کیا اور کینڈا کی حکومت کے ساتھ 24 نیوکلیئر پاور پلانٹ کی خریداری کا سودا کیا، ان کو چلانے کے لئے مقامی طور پر ایندھن تیار کرنے کے لئے ری پراسیسنگ پلانٹ اور ہیوی واٹر پلانٹ کی خریداری کا سودا حکومت فرانس کے ساتھ کر لیا تھا۔ یہ 24 ایٹمی پاور پلانٹ مرحلہ وار 200 تک تعمیر ہو کر مکمل ہونے تھے یوں ہائیڈروپاور اور ایٹمی بجلی گھروں سے پیدا کردہ بجلی انتہائی سستی اور قابل یقین تھا۔

یہ تمام منصوبے وقت مکمل ہوتے تو ملک میں بجلی کا بحران کبھی بھی نہ ہوتا اور سیلاب کی تباہیوں سے مکمل تحفظ ملتا اور لاکھوں ایکڑبنجر زمین زیر کاشت لائی جاتی اور گندم کی فصل کے لئے پانی کی قلت نہ ہوتی۔ ایٹمی بجلی گھروں اور اُن کے معاون کارخانوں کے سودے قائم تھے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے پیش رفت جاری تھی کہ پانچ جولائی 1977 کوجنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کردی۔

بعد میں جنرل ضیا الحق نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو لٹکائے رکھا اور ایٹمی بجلی گھروں اور ان کے معاون کارخانوں کا سودا ختم کر دیا۔ 1988 میں جنرل ضیاالحق کے انتقال کے بعد جمہوری حکومتیں آئیں تو انہوں نے منصوبہ بندی کے محکمہ اور وزارت کو غیر فعال رکھااور جزوقتی اور کاسمیٹک ترقیاتی منصوبہ جات پرکام کرتے رہے ۔ 1988 سے 1999 تک عمومی طور پر ملک میں انارکی کادور رہا، البتہ ایٹمی قوت اور میزائل کی پیداوار میں پیش رفت جاری رہی۔

پڑوسی ملک انڈیا نے منصوبہ بندی کمیشن کو فعال رکھا ۔ انڈیا کی منصوبہ بندی کمیشن نے کھوسلہ کمیٹی مقرر کی، کھوسلہ کمیٹی نے کرشنادریاپر نندی کونڈا کے مقام پر ڈیم کی تعمیر کی سفارش کی تو دسمبر 1952 میں منصوبہ بندی کمیشن نے اسے منظور کرلیا۔ دسمبر 1955 میں وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرونے ڈیم کا سنگ بنیادرکھااور کہا کہ ڈیم اور ہائیڈرو پاور اُن کے دھرم کے ” جدید مندر“ ہیں جو پوجا کے قابل ہیں کیونکہ ان کی بدولت ملک میں سبز انقلاب برپا ہوتا ہے۔

روزانہ 50,000 سے 70,000 راج مزدور ڈیم کی تعمیر پر کام کرتے رہے اور 1972 میں ڈیم پر CrUST GATES نصب ہونے سے ڈیم مکمل ہوا سولہ برسوں میں مکمل ہونے والے اس ڈیم کی تعمیر کی نگرانی کرنے والے انجینئرز کی گراں قدر خدمات کا یادگار بنانے کے لئے ان دونوں انجینئروں کے مجسمے ڈیم پر نصب کئے گئے۔ انڈیا میں تقریباََ سات بڑے دریا (بشمول پاکستان سے سندھ طاس معاہدہ کے تحت حاصل کئے گئے، دریائے راوی، بیاس اور ستلج ) ہیں جب کہ کئی چھوٹے دریاندی نالے ہیں اُن پر 4300 چھوٹے ، بڑے اور درمیانے سائز کے ڈیم اور پن بجلی کی پیداوار کے لئے ہائیڈرو پاور تعمیر کئے جاچکے ہیں۔

پاکستان میں بجلی کی پیداوار کی صورت حال درج ذیل ہے۔ واپڈا ہائیڈرو پاور کی موجودہ کل پیداوار 6902 میگاواٹ اور جاری منصوبوں سے 2018 تک پیداوار 2724 میگاواٹ شامل کرکے 2018 میں ہائیڈروپاور 9626 میگا واٹ ہوسکتا ہے۔ جنریشن کمپنیاں (بجزڈیزل اور فرنس آئل پر چلنے والے بجلی گھر 2549میگا واٹ 4503 میگاواٹ۔ یادرہے کہ حکومت کے مالیہ احکامات کے بدولت ڈیزل فرنس آئل پر چلنے والے بجلی گھر ممنوع قرار دئیے گئے ہیں۔

نیوکلیئرپاور موجودہ 650 میگاواٹ 2018 تک متوقع تکمیل 680 میگاواٹ کل نیوکلیائی بجلی گھر 1330 میگاواٹ ۔ IPPPS (بجزڈیزل فرنس آئل پرچلنے والے غیر فعال 2549 میگاواٹ ) گیس پر منتقل کردہ بجلی گھر 3784 میگاواٹ ۔ کوئلہ پر چلنے والے گھر بجلی (زیر تعمیر ) متوقع تکمیل 2018 تک 6830 میگاواٹ ۔ حکومت پنجاب کی گیس سے چلنے والی (زیر تعمیر بجلی گھر متوقع تکمیل 2018 تک 1320 میگا واٹ اور سولر پاور پلانٹ 1100 میگاواٹ (زیرتعمیر ) ۔

ہوا کی قوت سے چلنے والے ونڈ پاور موجود 250 میگاواٹ اور 2018 تک مکمل ہونے والے 1280 میگاواٹ کل استعداد 1530 میگاواٹ ۔ ماہرین کے مطابق ہائیڈروپاور بجلی گھروں کی پیداوار 100فیصد ہوتی ہے، گیس سے چلنے والے بجلی گھر کی پیداوار 55فیصد ہوتی ہے۔ کوئلہ سے چلنے والی الٹراسپر کرٹیکل کول پلانٹ کی پیداوار کل استطاعت کا 38 فیصد ہوتا ہے جب کہ سولر پاور پلانٹ کی پیداوار کل صلاحیت کا 18 فیصد ہوتا ہے۔

IAEA کے احکامات کے مطابق نیوکلیائی بجلی گھر لازمی مینٹیئس وغیرہ کے لئے سال کے 365 دنوں میں سے 139 دن لازمی شٹ ڈاؤن (بند) رکھتا پڑتا ہے یوں ایٹمی پاور پلانٹ کی پیداوار صلاحیت بھی 60فیصد ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ملک میں توانائی کی صورتحال تشویشناک ہے اور 2018 میں جب سے CPEC کے لئے بھی اضافی توانائی درکاری ہوگی تو 2018میں رسد میں تو اضافہ نظرآتا ہے مگر یقینی طورپر طلب میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہونا ممکن ہے۔ لہٰذا 2018 میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ نظر نہیں آتا۔ حالیہ دنوں وزیراعظم نے دعوی کیا ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ 2018 میں ممکن ہوسکے گا مگر شواہد سے یہ ناممکن سی بات ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan Main Tawanai K Wasail Aur Masail is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 August 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.