پاکستان میں ”استحکام“ کے معاملات امریکی قیادت طے کرے گی؟

امریکی پالیسی ”چھری اور گاجر “ کا پیمانہ لبریز! امریکی پالیسی ناکام بنانے سے پاکستانیوں کو روکنے کا آخری موقع تباہ کن قانون سازی اور ایکشن پر مبنی خفیہ پالیسیاں تیار کی جارہی ہیں

ہفتہ 21 اکتوبر 2017

pakistan me Istehkaam  k Muamllat Americi Qyadat
امتیاز الحق:
پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کے دورہ امریکہ کے دوران کے ہم منصب امریکی سیکرٹری خارجہ ریکس ٹیلرسن نے پاکستان کے بارے میں کہا کہ امریکہ پاکستان کے حکومتی معاملات میں استحکام کا خواہاں ہے ۔ اسی دوران امریکہ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے اجلاس میں امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ نے سینٹ کی مذکورہ کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ آئی ایس آئی کے دہشت گردی سے رابطے ہیں (اس بارے میں آئی ایس پی آر کا موقف ہے کہ دنیا کے تمام انٹیلی جنس ادارے رابطے رکھتے ہیں رابطے ہونا ایک بات ہے مدد کرنا دوسری بات ہے) امریکی سیکرٹری دفاع جیمس میٹس نے کہا کہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کیساتھ کام کرنے کی کوشش کریں گے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ نے امریکی کو بتایاکہ امریکی پالیسی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی جانب سے سرانجام دیئے گئے اقدامات کو مناسب طور پر تسلیم نہیں کیاگیا۔

(جاری ہے)

پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے دیگر ملکوں کے مقابلے میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں خاصی کمی آئی ہے۔ اور اس کا معیشت اور کاروباری سرگرمیوں پر خوش آئند اثر پڑا ہے کیونکہ پاکستان نے تمام دہشت گرد اور شدت پسند گروہوں کے خلاف عدم برداشت اور بلا امتیاز کاروائی جاری رکھنی ہوتی ہے۔

جانی اور مالی طور پر بھاری قیمت ادا کرنے کے علاوہ ایک مدت سے افغانستان میں جاری عدم استحکام کے نتیجہ میں بحیثیت اعتدال پسند ملک پاکستان کی ثقافتی اقدار کو نقصان پہنچا ہے۔پاکستان کو ان بھی تشویش ہے کہ افغانستان کے اندر بغیر حاکمیت والے علاقوں کے بارے میں پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی اور کاروائیاں جاری ہیں۔ پاک امریکہ اعلیٰ سطح پر واشنگٹن میں ملاقات پر سیکرٹری خارجہ نے پاکستان کے حکومتی معاملات میں استحکام کا لفظ استعمال کرکے پاکستان کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی جس کا مطلب یہ ہے کہ اب پاکستان کے استحکام کی بات امریکہ کرے گا اور وہ فیصلہ کرے گا کہ پاکستان میں عدم استحکام کو کس طرح ختم کرنا ہے، لیکن عین اسی وقت سیکرٹری دفاع نے قدرے سخت الفاظ میں واضح کرنے کی کوشش کی بلکہ یہ پیغام دیا ہے کہ ”صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی دہشت گردوں کے لیے مبینہ حمایت کے خلاف کسی بھی آپریشن کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے قبل واشنگٹن ”ایک مرتبہ پھر“ اسلام آباد کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کرے گا۔

اس ”ایک مرتبہ پھر “ کا مطلب واضح ہے کہ امریکہ ہاؤس آف آرمڈسروسز کمیٹی کے اجلاس کے دوران سیکرٹری دفاع جیمس میٹس کا کہنا تھا کہ ”ہمیں ایک مرتبہ پھر نئی حکمت عملی پر پاکستانیوں کے ساتھ ان کے ذریعے اور ان کی مدد سے کام کرنے کی کوششیں کرنی ہوں گی۔ اگر ہماری تمام کوششیں بے سود ہوگئیں تو امریکی صدر جو ضروری سمجھیں کہ اس حوالے سے قدم اٹھا سکتے ہیں ۔

پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ میں یہ اہم موقع اور وقت ہے کہ جب امریکی اعلیٰ سول و ملٹری قیادت یک زبان ‘ ہم خیال اور ایک پیج پر دکھائی دی ہے۔ قبل ازیں سفارتی وسیاسی زبان استعمال کی جاتی تھی لیکن سخت اقدامات قدرے خفیہ یا پس پردہ رکھے جاتے تھے۔ ”چھڑی اور گاجر“ کی پالیسی اختیار کی جاتی تھی ۔ تاہم حکمران ری پبلکن پارٹی اور امریکی طاقتور، دولتمند اشرافیہ،وار انڈسٹریل کمپلیکس اب جلدی میں ہیں کہ خطے میں پاکستان کے علاوہ روس، چین، وسط ایشیائی ریاستیں اور ایران بھی ایک پیج پر آگئے ہیں، اس سے قبل کہ وہ امریکی مذکورہ طاقتوں کو نقصان پہنچائیں وقت آگیا ہے کہ اب تباہ کن قانون سازی، اقدامات آپریشن کے ذریعے اپنی عالمی حکمرانی کو مستحکم رکھا جائے ۔

اس عمل میں اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ خطے کہ لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو نقصان ہوگا دنیا کے 160 ممالک میں1800 سے زائد ملٹری بیس امریکی مجتمع فوجی بالادستی کا اظہار اور مذکورہ طاقتو گروہ خود کو انسانوں کا حکمران سمجھتا ہے۔ دنیا میں حکومتوں کے تختے التانا ریاستوں کو دباؤ میں رکھنا اور جنگی کلچر کے ذریعے اپنے منافع اور وجود کو برقرار رکھنے کیلئے زیادہ سے زیادہ ملکوں میں جنگوں کو پھیلانا اپنی زندگی اور زندہ رہنے کیلئے ہتھیاروں کی تیاری اور انکی فروخت ، لامتناہی جنگوں کے ذریعے موت کا کھیل کھیل کر قتل کرانا امریکی طاقتور اشرافیہ کی ظالمانہ پالیسی کا حصہ ہے۔

2016ء کے امریکی سرکاری اعدادوشمار کے مطابق افغانستان کے جنگی ڈرامہ میں2386 امریکی فوجی ہلاک 20 ہزار زخمی اور 173 سویلین کنٹریکٹرز ہلاک ہوئے۔ ناٹو کے ہلاک شدہ فوجیوں کی تعداد دسیوں ہزار میں بتائی گئی ہے۔وار پروجیکٹ براؤن یونیورسٹی واسٹن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق2014ء میں ایک لاکھ 49 ہزار پاکستان اور افغانستان میں ہلاک ہوئے۔ پاکستان میں 21500 سویلین اور 26270 افغانستان میں مارے گئے۔

انسانوں ملکوں کی معیشت، بدتر ہوتی زندگی جنگی کاروائیوں اور بربادی کو چھپانے کیلئے امریکی فوجی ، انٹیلی جنس ادارے بشمول نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے ایک لاکھ 800 فلموں، ٹی وی ریالٹی شوز کے ذریعے امریکہ اور دنیا بھر کے دیگر عوام کے ذہنوں میں جنگوں، ہتھیاروں صحافیوں کے ذریعے محاذ جنگ کی خبروں، رپورٹوں اور سنسنی خیز واقعات پر مبنی معلومات اور اطلاعات دیکر جنگی جنون پیدا کیا گیا اور عالمی سطح پر ایسی پیدا کردہ جنگوں کے خلاف عوام میں نفرت کی بجائے وفاداری دکھائی گئی۔

امریکی فوج کے پروموشنل اشتہارات کے ذریعے پینٹا گون ،سی آئی اے اپنے کھیل کو آگے بڑھاتے رہے اور یہ کھیل اب سپورٹس کے تماشوں کے دوران آرمی کی تعریف وتوضیح ، ویڈیو گیمز، کھلونے ، تفریح کے طور پر بندوقوں اور جنگ کے استعمال کو ذہنوں میں داخل کرکے فوجی ہتھیاروں میں توسیع اور فروخت کیلئے ریاستوں، ملکوں، عوام کو تیار کیا کہ وہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے ہتھیار خریدیں۔

اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے معاملات کو خفیہ رکھا جاتا ہے ، وہ بند کمروں میں طے کئے اور عوام سے خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ عوام کے علم میں کچھ ہیں لایا جاتا لیکن پاکستان اور خطے کے ممالک بارے میں مذکورہ امریکی قیادت نے اپنی پالیسیاں واضح کردی ہیں اور اب انہیں چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ بقول امریکی دانشور ، محقق نوم چومسکی کہ امریکہ عالمی تنہائی کاشکار ہوچکا ہے کیونکہ دنیا اسکی پالیسیوں سے پہنچنے والے نقصان کا احساس کررہی ہے۔

امریکہ کو ماحول اور تباہی پھیلانے والی ریاست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔ انسانوں کی حالت بہتر بنانے کی تحقیقی رقم اور بجٹ کو کم کردیا گیا ہے۔ تباہ کن پالیسیوں کے پیچھے دولتمند اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے اور دنیا بھر کے انسانوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے ” انسانوں کا حکمران “ بننے کی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں۔ مارچ 2017ء میں ایٹمی سائنسدان کے بلیٹن میں شائع ہونے والی ایک ہم تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام سے امریکی بیلسٹک میزائل کی صلاحیت میں تین گناہ اضافہ ہوا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

pakistan me Istehkaam k Muamllat Americi Qyadat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.