پانامہ پیپرز سے پیراڈائز لیکس․․․․․․․․مقاصد کیا ہیں

دنیا بھر کی پیپر کرنسی کی جگہ الیکٹرانک کرنسی رائج کرنے کا منصوبہ

ہفتہ 11 نومبر 2017

Panama Pepers sy Paradise Leaks Maqasid kya
محمد انیس الرحمن:
اس وقت دنیا میں منی لانڈرنگ اور مالیاتی کرپشن کو سب سے بڑا جرم قرار دیا جارہا ہے ، مغرب اور مشرق کے بہت سے تجزیہ کار اسے عسکری دہشت گردی سے بھی بڑا جرم قرار دے رہے ہیں۔ پانامہ لیکس میں دُنیا بھر کی بڑی بڑی سیاسی اور عسکری شخصیات اور ان کی لوٹی ہوئی دولت سے قائم شدہ غیر قانونی آف شور کمپنیوں کے نام فاش کردیئے تھے۔

ان میں پاکستان کے شریف خاندان کے علاوہ تین چار سو نام اور بھی شامل تھے یہی وجہ ہے کہ شریف خاندان تو اس وقت قدرت کی پکڑ میں آتا دکھائی دیتا ہے ۔ ان تمام معاملات میں ایک پہلو اس لئے اچھا کہیں گے کہ اس قسم کے انکشافات سے اپنے اپنے ملکوں کے بڑے ٹیکس چور اور لٹیرے سیاسی مافیا بے نقاب ہورہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسا اب ہی کیوں ہورہا ہے؟ اب پانامہ لیکس کے بعد پیراڈائز لیکس بھی جاری ہوچکی ہیں جس میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا نام بھی شامل ہے جس کا مطلب یہ کہ یہاں جو بھی حکمرانی کے لئے آتا ہے وہ ملک کو لوٹتا ہے ۔

(جاری ہے)

خلیجی ممالک کے حکمرانوں کے ناموں کے ساتھ ساتھ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے علاوہ امریکی صدر ٹرمپ کے چودہ سے زائد قریبی ساتھیوں کے ناموں کا بھی انکشاف ہوا ہے ۔ شریف خاندان کے حوالے سے قطری خط سے موسوم سابق قطری وزیراعظم حماد بن جاسم کا بھی نام سامنے آچکا ہے۔ امریکہ اور مغرب میں تو منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کا کام نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے جاری ہے وہاں اس سے پہلے کبھی ایسے ”انکشافات“ سامنے نہیں آئے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب سرد جنگ کا زمانہ آیااور اس سرد جنگ کے دوران کہیں کوئی محاذ گرم ہوا تو دنیا بھر کے خوبصورت مقامات میں جائیدادوں کی قیمت بڑھا جاتا کرتی تھی کیونکہ ان جنگوں میں ملوث ہونے والے مغربی ملکوں کے جرنیلوں خاص کر امریکی کانگریس ارکان، سینیٹر ز اور جرنیلوں کے فرنٹ مین دنیا بھر میں قیمتی جائیدادیں تلاش کرنے نکل کھڑے ہوتے ۔

۔۔۔ یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے پھیلا ہوا ہے اس کی تازہ مثال افغانستان کی جنگ ہے جو امریکہ کی قیادت میں سودیت یونین کے خلاف لڑی گئی تو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز کی زیر نگرانی پہلے سے موجود بینکوں کے علاوہ چنداور بینک بھی تشکیل دیئے گئے جن کے ذریعے دنیا بھر سے دولت اس جنگ کی خاطر جمع کی جاتی اور انہی بینکوں کے ذریعے اس دولت کی ٹرانزکشن ہوا کرتی تھی۔

جو ممالک اس جنگ میں براہ راست ملوث رہے ان کے فوجی اور سیاسی حکام اپنے اپنے ملکوں کے امیر ترین افراد میں شمار ہونے لگے، اس کام کے لئے بڑا سرمایہ منشیات سے بھی حاصل کیا گیا لیکن کبھی کسی میڈیا پر اس قسم کی خبریں افشا نہیں ہونے دی گئیں کیونکہ میڈیا کے مالکان بھی یہی افراد ہوا کرتے تھے یا ان کے مالکان پر سیاسی اورعسکری شخصیات کا دباؤ ہوتا تھا لیکن اب ایسا کیا ہو گیا کہ یہ انکشافات اچانک ہورہے ہیں۔

۔۔ کیوں ؟ اس کیوں کو سمجھنے کے لئے ضرور ی ہے کہ آپ انٹر نیشنل مانیٹری سسٹم یا دجالی صہیونی مالیاتی نظام کو سمجھیں ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں مانیٹری سسٹم تبدیل کیا جارہاہے ۔ ایک وقت تھا ، جب دنیا بھر میں لین دین سونے اور چاندی کے ذریعے ہوتا تھا سوبرس پہلے تک اس عالمی تجارت میں سود کا استعمال ممنوعہ تھا پھر ایسا ہوا کہ عالمی صہیونی مانیٹری نظام قائم کیا گیا جس کے ذریعے تمام دنیا کو پابند کیا گیا کہ سونے چاندی کو بطور کرنسی استعمال کرنا جرم ہوگا اس کی جگہ کاغذ کی بوگس کرنسی کو رائج کروا کرسونے چاندی پر صہیونی ساہوکار بینکروں نے اپنا قبضہ جما لیا اور پھر اس نظام کو ستر برس تک استعمال کرکے پوری دنیا کی معیشت اپنے ہاتھوں میں لے لی۔

اب اس نظام کو بھی نئے تقاضوں کے تحت بدلنا مقصود ہے تاکہ دنیا بھر کہ ہر انسان پر اس کے مقامی بینک کے ذریعے نظر رکھی جاسکے کہ وہ اپنا مال کہاں خرچ کررہا ہے۔ اس سلسلے میں پیپر کرنسی کو متروک قرار دیا جائے گا اسی لئے منی لانڈرنگ کے اسکینڈل اب طشت ازبام کئے جارہے ہیں تاکہ عوام کے اندر اس کے خلاف نفرت پیدا کی جائے کہ اس طرح کی کرنسی توغیر محفوظ ہے اور طاقتور سیاسی اور عسکری لوگ اسے لوٹ کر دنیا میں کہیں بھی آف شور کمپنی بناکر چھپاسکتے ہیں۔

۔۔ اور اس وجہ سے بڑے بڑے ملک اور قومیں معاشی طور پر دیوالیہ ہوسکتی ہے۔ پاکستان جیسے غریب ملکوں میں سیاسی حکمرانوں کو جان جوجھ کر مالیاتی کرپشن کی کھلی چھٹی دی جاتی ہے، ان کی لوٹی ہوئی قومی دولت کو مغرب میں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے لیکن خود امریکہ اور برطانیہ کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ تاریخ کے دورے سے لیکر اب تک اس شعبے میں کیا گل کھلاتی رہی ہے اس حوالے سے ساٹھ کی دہائی سے لیکر اب تک کئی تحقیقی اور ناقابل انکار حقائق پر مبنی کتابیں شائع ہوتی رہی ہیں۔

اس سلسلے میں مثال کے طور پربرطانوی مصنف نیکولس گلبی کی کتاب پیش کی جاسکتی ہے جس میں ساٹھ کی دہائی سے لیکر موجودہ زمانے تک برطانیہ کی اسلحے کی تجارت میں جو دولت غیر قانونی طورپر کمائی گئی اورپھر اسے دنیا کے مختلف حصوں میں ٹھکانے لگایا گیا اس کی تفصیلات درج ہیں۔ برطانیہ میں ہی شائع ہونے والی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح برطانوی ہند میں تعیناتی کے لئے سول اور عسکری بیوروکریسی کے افراد برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کو رشوتیں دیا کرتے تھے۔

اس کے بعد ہندوستان میں تعیناتی کے دوران جو دولت لوٹ مار کے ذریعے حاصل کی جاتی تھی اسے کس طرح برطانیہ اور اس کی دیگر کالونیوں میں جائدادیں خریدنے لئے استعمال کیا جاتا تھا اور بعد میں یہ برطانوی لٹیرے ”لارڈز “ بن جایا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں بے شمار کتابیں امریکہ اور لاطینی امریکہ کے ملکوں میں بھی لکھی گئی ہیں۔ ماضی میں چونکہ میڈیا اس قدر طاقتور اور موثر نہیں ہوتا تھا اور میڈیا کا زیادہ تر حصہ اخبارات پر مشتمل ہوتا تھا جس تک ایک خاص پڑھے لکھے طبقے کی ہی رسائی ممکن تھی اس لئے بڑے معاشی معاملات کبھی دنیا کے سامنے نہیں لائے جاتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ جس وقت انٹر نیشنل مانیٹری سسٹم کے ذریعے سونے اور چاندی کو لین دین کے لئے ممنوعہ قرار دیا گیا اس وقت عام انسان نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی ہوگی۔ لیکن اب چونکہ میڈیاخاص طور پر الیکٹرانک میڈیا عام ہے اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ نے تمام دنیا کو دجالی خواہشات کے تحت ایک دوسرے سے جوڑدیا ہے اس لئے اب بڑی مالیاتی تبدیلی کا تقاضا ہے کہ پانامہ اور پیراڈائز لیکس جیسے سکینڈلز کو سامنے لاکر دنیا بھر میں تشویش پیدا کی جائے چاہے امریکہ سے لیکر جاپان تک حکومتوں اور سیاسی لیڈروں کا بیڑا غرق ہی کیوں نہ ہوجائے کیونکہ دنیا کا موجود صہیونی مالیاتی نظان ان صہیونی افراد کے ہاتھو ں میں ہے جو ” بڑے مقاصد “ کے لئے امریکہ جیسے ملک کو بھی بکرا بنا سکتے ہیں۔

اس لئے چاہت کتنے ہی امریکی اور نیٹو کے فوجی افغانستان میں مر جائیں جب تک عالمی صہیونی بینکر بہیں چاہیں گے اس وقت تک امریکی انتظامیہ فوجوں کی واپسی کے اعلان کی جرات نہیں کرسکتی۔ جہاں تک کرنسی کے نظام کی تبدیلی کا تعلق ہے اب اس سلسلے میں دنیا بھر میں اس قسم کی بحثیں چھیڑی جائیں گی کہ آیا کہ ایسی کرنسی جو افراد اور اداروں کے ہاتھ سے گزر کر کام کرتی ہو اور جس کے ذریعے منی لانڈرنگ اور عالمی دہشت گردی کے لئے فنڈنگ کا احتمال بھی ہو وہ ٹھیک رہے گی یا اس کی جگہ الیکٹرانک منی کے نام پر کاغذ کا بجائے پلاسٹک کارڈ کی شکل میں کرنسی رائج کی جائے جس میں زر کے اخراج صرف بینک کو حاصل ہوگا۔

یعنی آپ کی سالانہ یا ماہانہ آمدنی کے مساوی ایک پلاسٹک کارڈ جاری کیا جائے گا جس کی شکل این ٹی ایم کارڈ کی سی ہوگی۔ آپ جس دکان پر کھڑے ہوکر سودا خریدیں گے مشین کے ذریعے اس رقم کی کٹوتی خود بخود متعلقہ بینک کے ذریعے ہوجائے گی اور مشینی رسید کی ایک کاپی بینک میں صارف کے کھاتے کے طور پر کمپیوٹر ریکارڈ کے طور پر درج ہو جائے گی یعنی اگر گروسری میں آپ جس برانڈ کی چیز استعمال کریں گے اس کا بھی ریکارڈ بینک میں موجود ہوگا۔

یہ سسٹم دنیا بھر میں رائج کرنے کے ”یروشلم“ میں ایک ”مرکزی بینک“ تشکیل دیا جائے گا جسکی تیاری بہت پہلے شروع ہوچکی تھی یعنی اسرائیل کی دجالی عالمی سیادت کے اخراجات ، زیر استعمال اشیاء کی نوعیت سے انسانوں کے رجحان کا اندازہ لگا سکے گا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح دنیا بھر کے ملکوں میں رائج انسانی شناخت کا ڈیٹا کمپوٹروں سے ہیک ہو کر ” کہیں اور “ پہنچ چکا ہے اس طرح الیکٹرانک کرنسی اور اس کے استعمال کا ڈیٹا مرکزی بینک میں منتقل ہوگا اور دنیا پہلے سے زیادہ سخت ”غلامی “ کے نظام میں جکڑی جائے گی۔

دوسری جانب سعودی عرب میں اہم واقعات نے جنم لیا ہے کہ وہاں اہم عہدوں پر فائز گیارہ سے زیادہ شہزادوں کو ہٹا کر انہیں کرپشن کے الزام میں ان کے گھروں میں قید کردیا گیا جبکہ چالیس سے زیادہ سابقہ وزراء بھی اور بہت سی بڑی کاروباریی شخصیات کو بھی ان الزامات کا سامنا ہے اس میں اہم ترین کاروائی سعودی نیشنل گارد کے سربراہ اور سابق شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے صاحبزادے متعب بن عبداللہ اورامیر طلال بن عبدالعزیز کے بیٹے امیر ولید بن طلال کی نظر بندی ہے۔

سعودی نیشنل گارڈ کو سعودی عرب کی تلوار کہا جاتا ہے جبکہ امیر ولید بن طلال کا شمار دنیا بھر میں امیر ترین سرمایہ کاروں میں ہوتا ہے ان کے امریکی صدرٹرمپ سے بھی قریبی تعلقات ہیں۔یوں قومیت اور مسلک کی بنیاد پر مسلمانوں کو بڑی جنگ میں دھکیلنے کا منصوبہ آخری مراحل میں ہے۔ ہم بہت پہلے بھی اس بات کاذکر کرچکے ہیں کہ تمام مشرق وسطیٰ میں جنگ کے شعلے بلند ہیں لیکن اسرائیل اس آگ کے لبنان پہنچنے کا انتظار کرے گا، اس کے بعد عرب ملک ہوں یا ایران دونوں ہی اسرائیل کے برابر ہیں۔

اس سلسلے میں پاکستان کے ذمہ داراداروں کو پیرادائز پیپر کی افشا ٹائمنگ ذہن میں رکھنا ہوگی۔ اس بات کو بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ جس وقت وکی لیکس کا ہنگامہ ہوا تھا تو وکی لیکس جاری کرنے والوں نے امریکہ کو بھی نہیں بخشا تھا لیکن اسرائیل یا امریکہ اور یورپ میں موجود کسی بڑی یہودی ادارے یا شخصیت کا نام افشانہ کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے بعد پانامہ لیکس میں بھی کسی اسرائیلی یا مغربی صہیونی کا نام نہیں آیا اور اب اسی طرح پیراڈئز پیپر میں بھی اس قسم کی کوئی بات نہیں ہے ، کیا یہ سب کچھ ”اتفاقی” ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Panama Pepers sy Paradise Leaks Maqasid kya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.