پاناما سکینڈل سے کرپٹ چہرے بے نقاب ہوگئے

اقتدار کی ہوس میں نظریاتی سرحدوں سے کھلواڑ!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جدوجہد آزادی کی تاریخ کو مسخ کرنا شہداء تحریک کے خون سے غداری ہے

بدھ 20 دسمبر 2017

Panama Scandel Sy Crupt Chahry Be Niqab
امیر محمد خان:
اس بات سے قطع نظر کہ میاں نواز شریف پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات کہاں تک ٹھیک ہیں یا غلط، انہیں نااہل قرار دیا جانا بقول میاں نواز شریف کسی سازش کا نتیجہ ہے، یا عدالتوں کے فیصلے صحیح ہیں، اس بات سے قطعہ نظر کہ میاں نواز شریف نے عوامی حمایت سے 3 مرتبہ مسند اقتدار سنبھالا یا ان کے سیاسی حریف آصف علی زرداری کے بقول انہیں اقتدار دیاگیا، اس بات سے قطع نظر کہ ”سی پیک“ پی پی حکومت نے شروع کیا یا ن لیگ نے اسے پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے محنت کی، اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر ایٹمی دھماکے کے ہونے تک آنے والی حکومتیں افواج پاکستان کی مددسے تمام شامل رہیں، ان کارناموں پر دونوں جانب کی سوچ رکھنے والے کتابیں تحریر کرسکتے ہیں جس میں میاں نواز شریف کی تینوں حکومتوں پر الزامات بھی لگا سکتے ہیں اور ان کارناموں پر تعریفوں کے پل باندھے جا سکتے ہیں مگر پاکستان سے محبت کرنے والوں کو صرف اقتدار کی خاطر ایسے لوگوں سے اتحاد جو پاکستان کی اساس کے خلاف ہی رہے اس کی ایک تاریخ ہے اس تاریخ کو پس پشت ڈالتے ہوئے انہیں (خدانخواستہ)بانی پاکستان ، حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی پالیسیوں اور جدوجہد سے مماثلت قرار دینا دراصل ایک بڑا جرم ہے جو کسی بدعنوانی ، کسی پاناما ، اقامہ کے معاملات سے کہیں سنگین ہے ۔

(جاری ہے)

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ایک طرف خان عبدالغفار ، دوسری طرف خان عبدالصمد خان اچکزئی کی کیا پالیسی تھی، دونوں نے اپنے آپ کو ”سرحدی گاندھی“ اور ”بلوچی گاندھی“ کہلانا پسند کیا تاکہ قائد اعظم کے مقابلے پر گاندھی کی منفی مہم ، جو یقینا قیام پاکستان کے خلاف تھی کم از کم گاندھی کا نام ہی اپنے ساتھ لگ جائے، ہمارے سیاست دان اور سیاسی جماعتیں اقتدار کی خواہش اور نشے میں اتنے مدہوش ہوچکے ہیں کہ کسی سے بھی اتحاد کرتے وقت اس کا ماضی نہیں دیکھتے، اگر غور سے دیکھا جائے تو اور ہمارے ادارے صرف مالی کرپشن کو روکنے کیلئے روزانہ مقدمے بازی پر بیانات دے سکتے ہیں تو سرحدوں اور پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے والوں کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے قاصر ہے، وجہ اس کی یہ نظر آتی ہے کہ ”حمام تو ایک ہی ہے“ شاباش ہے الیکشن کمیشن کو جو تاریخ کو جانتے ہوئے بھی ایسی سیاسی جماعتوں کا انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے، نیز شاباش ہے تمام سیاسی جماعتوں کو جو کسی ایسی جماعت کی رجسٹریشن پر اعتراض نہیں کرتے جو پاکستان کے وجود کے ہی خلاف ہو، جو کام میاں نواز شریف اقتدار سے علیحدگی کے بعد کررہے ہیں اپنے بیانات کے ذریعے وہ ان ”سرحدی گاندھیوں“ سے تعلق رکھنے والی جماعتیں پہلے سے ہی کررہی ہیں، ان میں سے ایک رہنما نے تو پاکستان میں دفنائے جانا بھی پسند نہیں کیا اور اپنی تدفین پڑوسی ملک کی ، میراخیال تھا کہ میاں نواز شریف کے حالیہ بیان جس میں انہوں نے خان عبدالصمد کی سوچ کو قائداعظم کی سوچ کا ہم آہنگ قرار دیا تو محب وطن لوگ ، خاص طورپر محترم مجید نظامی کے لگائے گئے پودے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی جانب سے پرزور آواز آئے گی، مگر وہ شاید پہلے ہی مصیبت میں پھنسے میاں نواز شریف کو مزید مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتے جبکہ تاریخ کو مسخ کرنا مرحوم مجید نظامی کے پیروکار ہونے کے ناطے سے میرے نزدیک ایک سنگین ترین جرم ہے چونکہ ہم اپنی نسل کو ایک غلط تاریخ بتارہے ہیں صرف قومی اسمبلی کی تین نشتوں کی حمایت حاصل کرنے اور بلوچستان اسمبلی کی 10 نشتوں کی خاطر،پاکستان کی تاریخ اور قائداعظم کے افکار کے دفاع میں تو تمام اسمبلی بھی قربان ہوجائے توکم ہے چونکہ یہ لوگ پاکستان کے عوام کے ٹیکسوں کی کمائی کو ہی لوٹ رہے ہیں اور بغیر کسی قانون سازی کے کروڑوں اڑا رہے ہیں، قانون سازی بھی ایسی جس پر پوری قوم ایک سراپا سوال بن جائے اور کسی بھی قانون کو منظور ہونے کے بعد متنازع ہونا بھی ضروری ہے، متنازع قوانین بنانا ہی ”جمہوریت“ یہ بھی پہلی مرتبہ سنا ہے، بہر حال میاں نواز شریف جیسے شخص سے خان عبدالصمد خان اچکزئی کی سوچ اور مسلم لیگ کی یعنی قائد اعظم کی سوچ میں ہم آہنگی قرار دینا تمام محب وطن افراد کیلئے ایک دکھ کی بات ہے، اس پر صبح شام قانون اور پاکستان کی تاریخ کا درس دینے والے کی خاموشی مزید تکلیف کا باعث ہے ، ہم پہلے ہی اندرونی طور پر تباہ ہوچلے ہیں ، اب اپنی تاریخ مسخ کرکے جدوجہد آزادی کے شہداء کی روح کو تکلیف دے رہے ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Panama Scandel Sy Crupt Chahry Be Niqab is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.