قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ کیوں؟

سندھ اسمبلی کی مخالفت میں قرار داد منظور․․․․․․․․․․ عمران خان اور پی ٹی آئی پر اراکین اسمبلی کی سخت تنقید

منگل 21 نومبر 2017

Qbal Az Waqt Intkhabat Ka Mutalba Q
سالک مجید:
سندھ اسمبلی نے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف ایک قرار داد منظور کرلی جس میں پی ٹی آئی کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کو مسترد کردیا گیا اور اس مطالبے کو عوامی مینڈیٹ کی توہین قرارد یا گیا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے یہ مطالبہ پورے سسٹم کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

مذکورہ قرار داد وزیر پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو کی جانب سے پیش کی گئی جس پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی جانب سے اسمبلیاں توڑ کر قبل از وقت انتخابات کرانے کے مطالبے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے سسٹم کے خلاف سازش قرار دیا۔ اراکین اسمبلی نے موقف اختیار کیاکہ یہ سوچ اور رویہ غیر جمہوری اور عوام کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرنے کے مترادف ہے کیونکہ عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے 5 سال کے لئے اسمبلی ارکین کو چنا ہے اور اسمبلی کو اپنی مقررہ مدت مکمل کرنی چاہیے۔

(جاری ہے)

پاکستان کا آئین بھی یہ کہتا ہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں۔ پیپلز پارٹی کے وزراء اور ارکین اسمبلی کا موقف ہے کہ سندھ میں منتخب عوامی جمہوری حکومت صوبے اور عوام کی بہتری اور ترقی کے لئے بھرپور اقدامات کررہی ہے اور ہر علاقے میں ترقیاتی کام جاری ہیں صوبے بھر میں امن وامان کی صورت حال بھی تسلی بخش ہے اور سی پیک جیسے منصوبوں پر بھی غیر ملکی سرمایہ کاری ہورہی ہے صوبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے تو کیا وجہ ہے کہ یہاں اسمبلی توڑی جائے اور قبل از وقت الیکشن کرائے جائیں ۔

اس کا کوئی آئین، قانونی ، سیاسی اور اخلاقی جواز موجود نہیں ہے۔ نثار کھوڑو نے تو یہاں تک کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے یہ کہنا کہ اسمبلیاں تحلیل کرکے قبل ازوقت الیکشن کرائے جائیں دراصل عوامی اظہار رائے پر ایک کھلا حملہ ہے عوام نے اپنے نمائندوں کو 5 سال کے لئے چناہے اسمبلی کو ہر صورت میں اپنی مقررہ مدت پوری کرنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کو اپنی سوچ تبدیل کرنی چاہیے۔

اس ملک میں آمروں نے طویل عرصہ حکمرانی کی اور بڑی جدوجہد کے بعد جمہوریت بحال ہوئی اور سیاسی حکومتیں اپنا کام کررہی ہیں۔ اسمبلیاں مدت پوری کررہی ہیں ا س جمہوری عمل کو مستحکم اور مضبوط کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے عمران خان کو لیڈر کہلانے پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے ایک لیڈر کیسے عوام کی توہین کرسکتا ہے ۔

عوام نے 5 سال کے لئے اسمبلیاں منتخب کی ہیں اس اسمبلیوں کو مدت پوری کرنی چاہیے آج پھر قبل از وقت الیکشن کی باتیں کی جاری ہیں اور کچھ لوگ ٹیکنوکریٹ حکومت کی باتیں کررہے ہیں ان لوگوں کو یاد کرانا چاہیے کہ آئین میں اب ان دونوں باتوں کی گنجائش نہیں ہے وقت اور حالات بدل چکے ہیں اب آرٹیکل58 (2)بی آئین کا حصہ نہیں رہی۔ ان لوگوں کا چاہیے کہ پہلے آئین پڑھ لیں ۔

سندھ کے وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ نے بھی پیپلز پارٹی کا موقف بھر پور طریقے سے پیش کیااور پی ٹی آئی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دراصل پی ٹی آئی بیک ڈور سے اقتدار میں آنے کے لئے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی بات کررہی ہے اور اس کی نظریں امپائر کی انگلی کے اشارے پر لگی رہتی ہیں۔ سندھ پر حکومت کرنے کا ان کا خواب کبھی پور ا نہیں ہوگا۔ کیونکہ سندھ کے عوام ان کو اچھی طرح پہنچانتے ہیں۔

سندھ میں پیپلز پارٹی صوبے کی ترقی اور عوام کی بھلائی کے لئے کام کرتی ہے اس لئے عوام بار بار پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لاتے ہیں پی ٹی آئی والوں کو سندھ پر اقتدار کے خواب دیکھنے کی بجائے کے پی کے میں گڈ گورنس پر توجہ دینی چاہیے۔ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہارالحسن نے بھی کھل کر اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کی حمایت کی اور کہا کہ ایم کیو ایم جمہوری عمل کوجاری رکھنے کی حامی ہے اور اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔

اگر جمہوری نظام کا احترام نہیں کیا جائے گا تو پھر ملک میں آمریت کا راستہ کھلے گا۔ پی ٹی آئی کے رکن خورشید زمان نے قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے عوام کو ان حکمرانوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ ا جا سکتا جو پہلے ہی لوٹ کا بازار گرم کرچکے ہیں عوام کے ٹیکسوں کے پیسے کو لوٹ کر بادشاہت قائم کی گئی ہے کیا یہ جمہوریت کے خلا ف نہیں ہے نہ ہی اس کی بساط لپیٹنا چاہتی ہے لیکن پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ کرپشن کرکے آزاد گھومنے پھرنے والے کو سسٹم میں جو چھوٹ ملی ہوئی ہے اسے ختم کیا جائے تاکہ وہ پکڑا جائے ، ادھر پاکستان پیپلز پارٹی کو اعلیٰ قیادت سے ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی کی الگ الگ ملاقاتوں میں تیزی آگئی ہے سابق صدر آصف علی زرداری سے سلمان مجاہد بلوچ اور خوش بخت شجاعت کی ملاقاتوں کے بعد یہ اطلاعات گردش کررہی ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت سے ناراض 7 اراکان قومی اسمبلی آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے پی پی قیادت سے رابطے مین ہیں اور بات چیت چل رہی ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس حوالے سے ڈاکٹر عاصم اہم کردار ادا رکررہے ہیں۔

ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی سے رابطوں اور بات چیت کا ٹاسک زرداری کی جانب سے ڈاکٹر عاصم کو سونپا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عاصم پر 468 ارب روپے کی کرپشن کے نیب کیسز کے ساتھ ساتھ یہ الزامات بھی ہیں کہ ان کے ہسپتال ضیاء الدین ہسپتال میں ایم کیو ایم اور گینگ وار کے دہشت گردی میں ملوث افراد کا علاج کیا جاتا رہا ہے۔ ماضی میں ڈاکٹر عاصم کے الطاف حسین سمیت ایم کیو ایم کے اہم رہنماؤں سے رابطے تھے اور آصف علی زرداری اس حوالے سے ڈاکٹر عاصم کو ٹاسک سونپتے رہے ہیں ۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک طرف سابق وزیر اعظم نواز شریف پر سخت تنقید کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور ان کے ایجنڈے کو ”غیر ملکی ایجنڈا“ قرار دے کر کسی صورت ان کی حمایت نہ کرنے کی پالیسی وضع کرلی ہے جس کی تشریح اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ بھی مختلف اوقات میں کرتے رہتے ہیں جبکہ ساتھ ہی ساتھ آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کے ناراض اراکین سمیت دیگر جماعتوں سے اہم سیاستدانوں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرانے کی حکمت عملی بھی وضع کررکھی ہے اور اس پر تیزی سے کام جاری ہے۔

وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے آصف علی زرداری کے اپنے ایجنڈے کو نامعلوم اور خفیہ قرار دے دیا ہے اور یہ بھی کہہ دیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کوبھی آصف زرداری سے ملاقات کاکوئی شوق نہیں حالانکہ خواجہ سعد رفیق خود کہہ چکے ہیں کہ جوشخص ملاقات اور بات نہ کرنے کا کہے وہ سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن سیاستدان نہیں ہوسکتا۔ خواجہ آصف تو خود اعتراف کرچکے ہیں کے انہوں نے آصف زرداری سے ملاقات کی کوششیں کیں پانچ سات فون اور پیغام چھوڑے ۔

آصف زرداری تو رابطوں والے آدمی ہیں مگر اب انہوں نے ملاقات نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس پر وہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ ان کو خوش رکھے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ ایک طرف پیپلز پارٹی نے سندھ اسمبلی میں قرار داد منظور کرکے قبل از وقت الیکشن کرانے کی مخالفت کردی ہے لیکن دوسری طرف نئی حلقہ بندیوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرکے الیکشن کو اپنے مقررہ وقت پر منعقد کرنے کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں ہونے والے مذاکرات میں شیخ رشید احمد ناراض ہو کرچلے گئے اور الیکشن کمشن نے بھی اپنی مجبوریاں بیان کردی ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کا اگلے سال بروقت انعقاد بھی اب سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Qbal Az Waqt Intkhabat Ka Mutalba Q is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.