قومی ترانہ

1948ء میں حکومت پاکستان نے سیکرٹری اطلاعات شیخ محمد اکرم کی سربراہی میں نیشنل انیتھم کمیٹی (NAC) قائم کی۔ اس کمیٹی میں سردار عبدالرب نشتر، احمد غلام علی چھاگلہ اور حفیظ جالندھری سمیت کئی سیاستدان ، شعراء اور موسیقار شامل تھے۔

منگل 9 اگست 2016

Qoumi Tarana
زبیر اعجاز تارڑ :
1948ء میں حکومت پاکستان نے سیکرٹری اطلاعات شیخ محمد اکرم کی سربراہی میں نیشنل انیتھم کمیٹی (NAC) قائم کی۔ اس کمیٹی میں سردار عبدالرب نشتر، احمد غلام علی چھاگلہ اور حفیظ جالندھری سمیت کئی سیاستدان ، شعراء اور موسیقار شامل تھے۔ 1948ء میں ٹرانسوال ساؤتھ افریقہ میں مقیم اے آر غنی نے پاکستان کے قومی ترانے کی دھن بنانے والے موسیقار اور قومی ترانہ لکھنے والے شاعر کے لئے 5000/-روپے کے انعام کا اعلان کیا۔

اخبارات میں بذریعہ اشتہار انعام کا اعلان کیا گیا۔ شروع میں یہ کام التوا کاشکار رہالیکن 1950ء میں جب شاہ ایران پاکستان کے دورے پر آنے والے تھے تو حکومت پاکستان نے مذکورہ کمیٹی سے درخواست کی کہ وہ بہتر طور پر بغیر کسی تاخیر کے شاہ ایران کی آمد سے قبل قومی ترانے کی تیاری کاکام پایہ تکمیل تک پہنچائے۔

(جاری ہے)

اس وقت کے وفاقی وزیر تعلیم فضل الرحمان نے کئی شعراء اور موسیقاروں سے کہا کہ وہ جلدازجلد ترانہ اور دھن بنانے کاکام پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔

نیشنل انیتھم کمیٹی (NAC) نے تمام مشہور اور معروف موسیقاروں اور شعراء سے قومی ترانے کی دھن بنانے اور ترانہ لکھنے کی فرمائش کی چنانچہ بہت سی دھنیں تیار کی گئیں اور کئی سوترانے لکھے گئے لیکن احمد علی چھاگلہ کی تیار کردہ دھن اور ابولاثر حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا ترانہ منتخب ہوا۔ احمد جی چھاگلہ نے ایک ساتھی موسیقار اور پاکستانی نیوی بینڈ کے اشتراک سے 1950ء میں قومی ترانہ کی دھن تیار کی۔

اس دھن کے بنانے میں 21 آلات موسیقی اور 38 مختلف دھنیں استعمال ہوئیں۔ گوکہ احمد جی چھاگلہ کی تیار کردہ دھن کو مختلف مواقع پر استعمال کیاگیا لیکن باقاعدہ سرکاری طور پر 1954 میں اسے منظور کیاگیا۔ پہلی مرتبہ وزیراعظم لیاقت علی خان کے اعزاز میں قومی ترانے کی دھن بجائی گئی۔ نیشنل انیتھم کمیٹی (NAC) نے سینکڑوں شعراء کو احمد جی چھاگلہ کی تیار کردہ دھن کے ریکارڈ مہیا کرکے ان سے قومی ترانے لکھنے کی فرمائش کی۔

بالآخر حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا ترانہ منتخب ہوا۔ پہلی مرتبہ 13 اگست 1954 ء کو قومی ترانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور 16اگست 1954ء کو وزیراطلاعات ونشریات نے سرکاری طور پر قومی ترانہ کی منظوری دی۔ احمد جی چھاگلہ 1953ء میں اس دنیا فانی سے کوچ کرچکے تھے لیکن ان کی تخلیق کردہ دھن نے انہیں حیات دوام بخش دی۔ 1955ء میں احمد رشدی سمیت گیارہ نامور گلوکاروں نے قومی ترانہ اپنی خوبصورت آوازوں میں ریکارڈ کروایا۔

ایک سرکاری ضابطے کے مطابق جب قومی ترانہ پڑھا جارہا ہوں یا اس کی دھن بجائی جارہی ہو تو تمام لوگوں کے لئے احترام میں کھڑا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح جب قومی پرچم لہرایا جارہا ہوتو اس پر نظریں جما کر کھڑا ہونا چاہئے۔ قومی ترانے میں اُردو کا صرف ایک لفظ (کا) کااستعمال ہے جبکہ باقی تمام الفاظ فارسی کے ہیں جو اردو زبان میں استعمال ہوتے ہیں۔ قومی ترانہ اپنی معنویت اور جاذبیت کے حوالے سے ایک مثال مانا جاتا ہے۔ ہر مصرعے میں مفہوم کی ایک پوری دنیا آباد ہے۔ یہ دعائیہ الفاظ کی ڈوری سے باہم جڑا ہوا ہے۔ حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا ترانہ شاعری میں کمال پختگی اور قومی وقار، احساسات، آرزوؤں اور تمناؤں کی خوبصورتی لئے ہوئے پوری قوم کے دل کی آواز بنا ہوا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Qoumi Tarana is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 August 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.