کوئٹہ میں پانی کا بحران

ٹوٹی سڑکیں ، کچرے کے ڈھیر۔۔۔ 2025 ء تک شہر میں پانی کا ایک قطرہ بھی ہوگا

جمعہ 4 اگست 2017

Quetta Main Pani Ka Bohran
عدن جی:
سیکرٹری تعلیم عبداللہ جان گھر واپس آگئے۔ 15 مارچ کو انہیں اغوا کیا گیا تھا اور پھر نہ جانے اغواکاروں نے انہیں کس جگہ رکھا بعض اطلاعات کے مطابق تو لواحقین سے تاوان کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ چاغی کے علاقے میں جہاں انہیں چھوڑا گیا وہاں سے وہ اپنے گھر پہنچے ان کے گھر والوں نے تاوان کے حوالے سے یہی کہا کہ کوئی تاوان ادا نہیں کیا گیا سو سے زائد دن کی قید میں ان پر کیا بیتی اور کیا مسائل تھے کہ یہ نوبت آئی ابھی یہ سب کہنا اور پوچھنا قبل از وقت ہے مگر ایک سماجی پہلو ضرور سامنے آتا ہے کہ بلوچستان کی روایات میں یہ عنصر ہرگز نہ تھا کہ پہلے ایک دور میں اغوا کاروں کے نزدیک ڈاکٹروں کا اغوا اہم رہا کہ ٹارگٹ کلنگ کی بجائے پیسوں کے حصول کے لئے ڈاکٹروں کو تاوان کے لئے اغوا کیا جائے اس میں بعض اوقات تاوان اداکرنے کے باوجود مغوی کو ہلاک کردیئے جانے کے واقعات پیش آئے اور یہ تاثر عام ہے کہ بلوچستان میں رفتہ رفتہ پرائیوٹ کلینک اور پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھرمار ہوگئی جوزیادہ تر مہنگے ترین علاج کرتے تھے۔

(جاری ہے)

کیونکہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں نے کام کرنا بند کردیا تھا۔ ڈاکٹروں کو تو عرصہ تک اغوا کئے رکھا غیر ملکی خواتین اور حضرات کا اغوا کا بھی سلسلہ چلا بھی دو ماہ پہلے چینی جوڑے کو اغوا کیا گیا جن کے لئے مستونگ میں آپریشن بھی ہوا اور پہاڑوں کی سرنگوں میں اسلحہ بھی ملا اور دہشت گرد بھی مگر چینی جوڑے کے حوالے سے یہ ویڈیو ملی کہ انہیں ہلاک کردیا گیا ہے۔


یہ سارے واقعات ایک طرف تو صوبے کی بدامنی کے دعوؤں پر بدنما داغ ہیں دوسرے بلوچستان میں وطن دشمنوں کے عزائم کو بھی ظاہر کرتے ہیں مگر تعلیم اور صحت کے مسیحاؤں کے اغوا میں بعض من پسند نتائج حاصل کرنے والوں کے مکروہ چہرے بھی شامل ہیں۔
ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ اندرون بلوچستان 70 فیصد سکول بندہیں۔ یہاں کام کرنیوالے وہ مقامی بلوچ تنخواہ کے حقدار ہیں۔


ان استادوں میں خواتین بھی شامل ہیں جو دو چار ہزار میں میٹرک لڑکی کو اپنی جگہ رکھ کر خودلاہور،اسلام آباد میں ہیں مگریہاں سے گریڈ 17 کی تنخواہ وصول کررہی ہیں لہذا اس معاملے میں ذرا سی پوچھ گچھ ہو تو سیکرٹری ایجوکیشن کے اغوا کی نوبت آجاتی ہے۔ وزیراعلیٰ عبداللہ جان کی واپسی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ملزموں کی سرکوبی کی نوید سنائی ہے۔

کوئٹہ جسے ماضی میں ”لٹل لندن“ کہتے تھے اور اس کی صفائی اور خوبصورتی مشہور تھی کہ ہرروز دھلی سڑکوں کے دونوں طرف چلغوزوں اور پھلوں کے درخت اور آبادی صرف پانچ ہزار تھی۔
سابق وزیر اعلیٰ مالک بلوچ نے 35 کروڑ روپے دیئے تھے تاہم اب جدید مشینری 45 کروڑ کی خریدی جارہی ہے آئندہ چار ماہ تک کوئٹہ میٹروپولیٹن کو مزید مشینری کے لئے رقم مل جائے گی جبکہ میئر کوئٹہ کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس صرف 580 خاکروب ہیں جبکہ ہمیں کوئٹہ شہر کی صفائی کے لئے 3500 خاکروبوں کی ضرورت ہے کیونکہ 25 سے 30 لاکھ کے اس شہر میں روزانہ بارہ سوٹن کچرہ پیدا ہوتا ہے ہمارے پاس صرف300 ٹن کچرہ اٹھانے کی استطاعت ہے جس پر وزیراعلیٰ زہری کی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔


کوئٹہ کے ابلتے ہوئے سیوریج کے ناکام ہونے پر بعض حلقے سابق چیف سیکرٹری کے رشتہ دار کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں جس نے اربوں کی کرپشن کی مگر تو بلوچستان کی تمام پسماندگی کی ذمہ داری کرپشن ہے کہ یہاں کسی کی کوئی پکڑ نہیں، مشتاق رئیسانی کی طرح سب چھوٹ جاتے ہیں۔ یہ ختم ہوگی تو ترقی ہوگی۔
کروڑوں روپے کے فنڈز بھی خرد برد ہورہے ہیں جیسا کہ کوئٹہ میں اس وقت پینے کے پانی کا شدید بحران ہے مگر سابق صدر پرویز مشرف نے کوئٹہ میں پینے کے پانی کا سسٹم بہتر کرنے کے لئے جو 8 ارب روپے دیئے تھے وہ صرف چند ہزار کے پانی کے پائپ بچھانے کے بعد غائب ہوگئے ۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2025ء میں کوئٹہ میں ایک قطرہ پانی نہیں ہوگا۔ کوئٹہ ویران ہوجائے گا مگرہماری حکومتیں صرف اپنے اقتدار کی جنگ لڑ رہی ہیں آج یہ پانچ ہزار کی آبادی والا کوئٹہ نہیں ہے بلکہ 25 لاکھ کی آبادی ہے۔ اب پھر عوام کو کوئٹہ کے مثالی حسن کے خواب دکھائے جارہے ہیں۔ وزیراعلیٰ زہری نے کوئٹہ کی صفائی اور خوبصورتی کے لئے 75 کروڑ روپے دئیے۔


کسی دور میں زرعون روڈ کی سیر گویا سارے دکھ بھلا دیتی تھیں دوسرے ملکوں سے آنے والے رنگ برنگے پرندوں کا حسن پھر موسم کا حسین ہونا۔ سیاحوں کے لئے پُرلطف تجربہ تھا مگر جوں جوں یہ رپورٹیں سامنے آئیں کہ بلوچستان میں سیندک اور ریکوڈک جیسے کئی سونے چاندی تانبے کے ذخائر والے پہاڑی سلسلے بھی ہیں اور گوادر کی بندرگاہ کا اہم وجود بھی ہے۔

تو بیرونی مغربی طاقتوں اور پڑوسی ممالک نے سازشوں کا جال بچھا دیا جس کے لئے انہیں قوم پرستی کے روپ میں سہولت کار مل گئے اور بلوچستان دہشت گردی کا شکار ہوگیا باقی کسر افغان مہاجرین کی تیس سالہ مہمان نوازی نے پوری کردی۔ صوبائی دارلحکومت کوئٹہ تاحال اور زیادہ بُرا ہوگیا۔ ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر، کچرے کے ڈھیر جو بارش میں تو مزید تباہی کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Quetta Main Pani Ka Bohran is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 August 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.