روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کررہا ہے

خون مسلم سے رنگین برما کبھی مسلمانوں کی شان وشوکت اور عظمت ورفعت کا امین تھا ہنود کی پلاننگ ،یہود،کا اسلحہ، برما فوج کا جبر بھارتی مسلمانوں کی طرح برما کے مسلمان بھی ستر سال سے ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں

جمعرات 28 ستمبر 2017

Rohangiya Musalmano Ki Nasal Kashi
ارشاد احمد ارشاد:
برما کا صوبہ”اراکان“ جو آج خون مسلم سے رنگین ہے کبھی یہ صوبہ مسلمانوں کی شان وشوکت اور عظمت ورفعت کا امین تھا۔”اراکان“ وہ خطہ خلیفہ ہارون الرشید کے عہد خلافت میں مسلم تاجروں کے ذریعہ اسلام کی ضیاپاشیوں سے سے روشن ہواتھا۔ اس ملک میں مسلمان بغرض تجارت آئے تھے اور اسلام کی تبلیغ واشاعت شروع کی تھی ، اسلام کی آفاقی تعلیمات سے متاثر ہوکر وہاں کی کشمیر آبادی نے اسلام قبول کرلیا اور کچھ عرصہ بعد ایسی قوت کے مالک بن گئے کہ 1430ء میں سلیمان شاہ کے ہاتھوں اسلامی حکومت کی تشکیل عمل میں آئی ۔

اس کے بعد اس ملک پر مسلمانوں نے ساڑھے تین سو سال تک نہایت ہی شان وشوکت اور عظمت وسطوت سے حکومت کی، مسجدیں بنائیں ، مدارس تعمیر کئے، قرآنی حلقے قائم کئے، مدارس و جامعات کھولے، مملکت کے وسائل اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لئے وقف کردیے، مملکت کے تمام شعبہ جات پر اسلام کی جھلک وچھاپ نمایاں تھی یہاں تک کہ ان کی کرنسی پر لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کندہ ہوتا تھا اور اس کے نیچے ابوبکر عثمان اور علی نام درج ہوتا تھا۔

(جاری ہے)

اراکان کے پڑوس میں بدھسٹوں کی حکومت کی تھی انہوں نے 1784ء میں اراکان پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا اور اسے برما کا حصہ بنالیا۔ 1824ء میں برما برطانوی استعمار کے زیر تسلط آگیا۔ چالیس کی دہائی میں جب ایک طرف بھارت قائم ہوا تو دوسری طرف برما نے انگریز استعمار سے آزادی حاصل کر لی۔ جس طرح پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہوا اسی طرح بھارت کی بنیاد اسلام دشمنی پر رکھی گئی تھی، چنانچہ بھارت نے تقسیم ہند کے ساتھ ہی برما اور مشرقی پاکستان میں اثرورسوخ بڑھانا شروع کردیا تھا۔

۔ برما کے بدھسٹ اگرچہ پہلے بھی مسلمانوں کے دشمن تھے لیکن جب برما میں بھارت کا اثررسوخ بڑھا تو یہ” کریلا اور نیم چڑھا“ ہوتے چلے گئے ۔ یہی وجہ تھی کہ ایک طرف قیام بھارت کے ساتھ ہی برہمن سامراج نے ایک کروڑ مسلمانوں کو بھارت چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ تو برما کے بودھوں نے پانچ لاکھ مسلمانون کو ترک وطن پر مجبور کردیا تھا۔ 1947ء سے اب تک برما کے مسلمان مسلسل بدھا کے پیروکاروں کے ظلم کی چکی میں پس رہے ، تڑپ رہے اور سسک رہے ہیں۔

حقیقت میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے یہ بودھسٹ۔۔۔ بدھا کے سچے پیروکار نہیں بلکہ جھوٹے پیروکار ہیں۔ اگریہ بدھا کے سچے پیروکار ہوتے تو کبھی بھی انسانی خون سے اپنے ہاتھ رنگین نہ کرتے۔ اس لئے کہ مہاتماگوتم بدھ امن کے پیامبر اور عدم تشدد کے داعی تھے۔ مہاتما بدھ کی تعلیمات کا خلاف اگر دولفظوں میں بیان کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہوگا کہ جس نے کسی جانور کو بھی قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی انسان کو قتل کیا۔

اس اعتبار سے بودھ مذہب دنیا کا پرامن ، خوبصورت مذہب ہے جو ذات پات کے خلاف ، خدمت انسانیت اور محبت کاداعی ہے۔ بودھ مذہب دنیا کا مظلوم ترین مذہب بھی ہے کہ جس کے پیروکاروں نے بہت ظلم سہے ہیں۔ بدھ مذہب کے بانی مہاتما بودھ کی جائے پیدائش نیپال ہے لیکن اپنی خوبصورت تعلیمات کی وجہ سے بہت کم عرصہ میں یہ مذہب قدیم بھارت سمیت دنیا کے بہت سے خطوں میں پھیل گیا تھا۔

قدیم بھارت میں بودھ مذہب کے پیروکاروں پر بہت زیادہ مظالم ڈھائے گئے ہیں۔ ان کا اس طرح سے اجتماعی قتل عام کیا گیا کہ بودھوں کی بستیوں کی بستیاں مٹ گئی تھیں۔ اس کے برعکس جب اسلام کا اس خطے میں ظہور ہوا تو اس نے بدھا کے پیروکاروں سمیت تمام مظلوموں ،اقلیتوں کو تحفظ و مقام اور احترام دیا۔ اگرچہ آج دنیا بھر میں مہاتما بودھ کے پیرو کار قریباََ 35کروڑ کی تعداد میں موجود ہیں تو ان کی بقا میں اسلام اور مسلمانوں کا بہت بڑا کردار ہے۔

برصغیر میں اسلام کا ظہور سندھ کے راستے سے ہوا ہے، اسلام نے سندھ میں آمد کے ساتھ ہی بودھ مذہب کے پیروکاروں کو تحفظ دیا تھا۔ واضح رہے کہ مہاتما بدھ کے پیروکار جاپان،جنوبی کوریا،لاؤس،منگولیا، سنگاپور، تائیوان،تھائی لینڈ،کمبوڈیا، بھوٹان اور میانمار میں رہ رہے ہیں۔ یہ بات پہلے ذکر ہوچکی ہے کہ مہاتما امن ، شانتی ، محبت کے بڑے علمبردار تھے جس کا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی جاپان ، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک میں بودھ مذہب کے پیرو کا نہایت ہی امن وسکون سے رہ رہے ہیں۔

ان ممالک میں مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے لوگوں کی جان ومال عزت آبرو بدھا کے پیروکاروں کے ہاتھوں میں مکمل محفوظ ہے۔ صرف میانمار ایسا خطہ ہے جہاں بدھاکے پیرو کار مسلمانوں پر وحشیانہ مظالم ڈھا رہے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے۔۔۔؟ اس کی سیدھی اور صاف وجہ یہ ہے کہ میانمار کے حکمران بھارت کے زیر اثر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کے لیے وہی طریقہ واردات استعمال کیا جارہا ہے جو 1947ء کے موقع پر برہمن نے مسلمانوں کے خلاف کیا تھا۔

جو مسلمان ہجرت نہ کرسکے ان کی ناکہ بندی لگادی گئی، اوقاف چراگاہوں میں بدل دیئے گئے، مسجدوں کی برحرمتی کی گئی،اذان ممنوع اور مساجد ومدارس کی تعمیر پر قدغن لگادی گئی، مسلم بچے سرکاری تعلیم سے محروم کردیے گئے ، ان پر ملازمت کے دروازے بند کردیئے گئے،1982 میں اراکان کے مسلمانوں کو حق شہریت سے بھی محروم کردیا گیا، اسی طرح ان کی نسبت کسی ملک سے نہ رہی اور وہ بالکل ہی بے شناخت ہوکر رہ گئے۔

بھارتی مسلمانوں کی طرح ستر سال سے اراکان کے مسلمان بھی ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ، ان کے بچے ننگے بدن ،ننگے پیر، بوسیدہ کپڑے زیب تن کئے قابل رحم حالت میں دکھائی دیتے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں سے اس وقت بدسے بدترین سلوک کیا جارہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی حالت حیوانوں سے بدتر ہوگئی ہے۔ مسلمانون کو شہریت تو کیا دینی تھی حکومت نے انہیں بنیادی سہولتوں سے بھی محروم کردیا یہ لوگ روٹی کوترس گئے اور ہولناک غربت کا شکار ہوگئے ہی۔

کہتے ہیں کہ دنیا بہت وسیع ترین ہے لیکن اس وسیع دنیا میں برما کے مسلمانوں کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ برما کی فوج،یہود کا اسلحہ اور ہنود کی پلاننگ ان پر تباہی وبربادی جکے بادل برسا رہی ہے۔ سرائیلی اخبار ”بارٹنر“ کے مطابق صہیونی حکومت نے سو سے زائد ٹینک ، اسلحہ اور کشتیاں برما کی حکومت کو فروخت کی ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد صہیونی اسلحہ ساز کمپنیوں کے نمائندے برما کا دورہ کرچکے ہیں۔

اسی طرح اسرائیلی فوج برما کی فوج کو سپیشل تربیت دے رہی ہے ۔ واضح رہے کہ صہیونی کمپنیاں کئی سالون سے مسلم دشمن برما حکومت کو اسلحہ بیچ رہی ہیں۔ اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کے خلاف استعمال ہونے والا اسلحہ ”آزمودہ “کہہ کر برما اور بھارت جیسے مسلمان دشمن ملکوں کو بیچ رہا ہے۔ مسلمانوں کی حالیہ نسل کشی میں بھی برما کی فوج اسرائیلی اسلحہ استعمال کررہی ہے۔

دوسری طرف نہرو سے لے کر مودی تک تمام بھارتی حکمرانوں کے برما کے ساتھ خصوصی تعقات چلے آرہے ہیں۔ جب سے مودی اقتدار میں آیا ہے یہ تعلقات گرم جوشی کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ بھارت اور برما کے درمیان مسلم دشمنی کے علاوہ کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ یہودوہنود کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے کہ اس وقت پانچ ہزار سے زائد مسلمان شہید اور نوے ہزار بے گھر کئے جا چکے ہیں۔

برمی فوج نہایت ہی ظالمانہ طریقے سے بچوں کے پیٹ چاک کررہی اور میخوں میں گاڑرہی ہے۔ اس سے قبل جون2012ء میں اراکان میں بدترین نسلی فسادات ہوئے اور اس وقت تقریباََ چالیس ہزار لوگ وہاں سے نکل کر دوسری جگہوں پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ہزاروں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کے کیمپوں میں موجود تھے لیکن حسینہ واجد کی حکومت بھی اب ان کو مزید برداشت نہیں کرنا چاہتی اس لئے اس نے انہیں وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا ہے۔

برمی مسلمانوں نے ظلم وستم سے تنگ آکر اپنے آپ کو سمندر کے حوالے کردیا ، ان کا خیال تھا کہ کشتی میں بیٹھ کر وہ ملائیشیا پہنچ جائیں گے، وہاں کھلی بانہوں کے ساتھ ان کا استقبال ہوگا، ان کی مشکلات کم ہوجائیں گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ آسٹریلیا، ملائیشیا، انڈو نیشیا اور فلپائن نے انہیں قبول کرنے سے انکا ر کردیاہے۔ بے شمار لوگ زندگی و موت کے بیچ میں ڈول رہے ہیں، کھلے سمندر کی بے رحم لہروں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

ظلم وستم کی داستان یہیں ختم نہیں ہوتی ، بلکہ اب برما میں ایک نیا قانون رائج کیا جارہا ہے جس کے مطابق کسی بھی قانون کو تین سال سے قبل اگلے بچے کی پیدائش کی اجازت نہیں ہوگی۔ عام خیال یہ ہے کہ یہ قانون رائج کرنے کا مقصد بالواسطہ مسلمانوں کی پیدائش محدود کرنا ہے ۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ کوئی ان بے یارومددگار لوگوں کی طرف نظر کرم نہیں کررہا۔

تمام مسلم ممالک اس صورتحال پر خاموش ہیں۔ برادر اسلامی ملک ترکی نے اسلامی حمیت وغیرت کا ثبوت دیا ہے اس کے علاوہ تمام عالمی برادی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے کا ن پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ انسانی حقوق کا راگ الاپنے والی زبانیں بھی بند ہیں۔ ایسی صورتحال میں کم از کم مسلم امہ کو تو ان کا درد محسوس کرنا چاہیے۔ پاکستان جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا اس پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

ضروری ہے کہ تمام مسلم ممالک جلد از جلد موثر اقدامات اٹھائیں، برما پر دباؤ ڈالیں بین الاقوامی برادری کو مجبور کریں کہ وہ ان کی خبر گیری کرے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ روہنگیا کہ یہ مظلومین صرف اور صرف مسلمان ہونے کی پاداش میں مارے جارہے ،ذبح کئے جارہے اور تہہ تیغ کئے جارہے ہیں۔ برمی افواج ،ملیشیا اور دہشت گرد بدھسٹ کے تمام تر سنگین اور روح فرسا حالات ومظالم کے باوجود بھی مسلمان اپنے دینی شعائر سے جڑے ہیں اور کسی ایک کے متعلق بھی یہ رپورٹ نہیں ملی کہ دنیا کی لالچ یا ظلم کی وجہ سے اپنے ایمان کاسودا کیا ہو۔

لیکن آخر یہ ظلم کب تلک۔۔۔۔؟ مسلم ممالک چاہیں تو ان لوگوں کو بانٹ سکتے ہیں، اپنے پاس پناہ دے سکتے ہیں، ان کے والی وار ث بن سکتے ہیں۔ کہ پوری دنیا میں ان روہنگیا مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے؟ مسلم امہ اور عالمی برادری ان پر رحم کریں، انہیں کم از کم انسان تو سمجھیں اور ان کے دکھ درد کا مداوا کرنے کا سامان کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Rohangiya Musalmano Ki Nasal Kashi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.