سب کا احتساب پھر انتخاب

پاکستان ستر سال کے بعد بھی سیاسی، جمہوری، سماجی، معاشی اور فکری حوالے سے ایک پسماندہ ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری بحثوں کا معیار بھی پسماندہ ہے۔ مسلم لیگ کے صدر اور پاکستان کے بانی قائداعظم نے قیام پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی سے اپنے پہلے پالیسی خطاب میں کرپشن کو زہر قراردیا تھا۔ اس تاریخی بیان سے کھلے انحراف کی وجہ سے آج کرپشن کا زہر پاکستان کے پورے جسم میں سرایت کرچکا ہے

جمعرات 20 جولائی 2017

Sab ka Ehtesab
قیوم نظامی:
پاکستان ستر سال کے بعد بھی سیاسی، جمہوری، سماجی، معاشی اور فکری حوالے سے ایک پسماندہ ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری بحثوں کا معیار بھی پسماندہ ہے۔ مسلم لیگ کے صدر اور پاکستان کے بانی قائداعظم نے قیام پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی سے اپنے پہلے پالیسی خطاب میں کرپشن کو زہر قراردیا تھا۔ اس تاریخی بیان سے کھلے انحراف کی وجہ سے آج کرپشن کا زہر پاکستان کے پورے جسم میں سرایت کرچکا ہے۔

دردمند اور محب الوطن افراد متفق ہیں کہ اگر کرپشن کے بت نہ توڑے گئے تو خدانخواستہ پاکستان کا مسقبل ہی خطرے میں پڑجائیگا۔ اشرافیہ کو اندازہ نہیں کہ کرپشن نے پاکستان میں سنگین نوعیت کے سماجی معاشرتی اور معاشی مسائل پیدا کردئیے ہیں۔ میگا کرپشن بھوک، افلاس، بیماری ، مایوسی، محرومی، ناانصافی اور بے چینی پیدا کررہی ہے جن سے انتہا پسند دہشت گرد تنظیمیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔

(جاری ہے)

بنیادی حقوق سے محروم اور مایوس نوجوان ان تنظیموں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ یادش بخیر پانامہ لیکس کو سب سے پہلے صدر پاکستان جناب ممنون حسین نے ”خدائی معجزہ“ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب بڑے بڑے کرپٹ بے نقاب ہونگے۔ انکی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی۔ یہی ”خدائی معجزہ“ اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والا ہے اور حکمران جماعت نے اپنے لیڈر کو احتساب سے بچانے کیلئے ”سازش“ کے نام پر کریمنل ایشو کو پولیٹیکل ایشو بنانے کیلئے سرتوڑ کوششیں شروع کررکھی ہیں۔

نام نہاد اور یرغمال جمہوریت کے نتیجے میں ملنے والے مینڈیٹ کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ حکمران جماعت کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت ہے وہ آئینی ترمیم منظور کرالے کہ پارلیمنٹ میں تمام پارلیمانی لیڈر ہر قسم کے احتساب سے آزاد ہونگے اور ان پر آئین کا نفاذ نہیں ہوگا۔ اگر پاکستان کی سیاست میں تحریک انصاف تھرڈ آپشن کی صورت میں منظر پر موجود نہ ہوتی تو پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) ”مک مکا“ کی پالیسی پر عمل کرکے پارلیمانی لیڈروں کیلئے آئینی تحفظ حاصل کرلیتے اور آئین میں یہ شق شامل کرالیتے کہ سیاستدانوں کا احتساب صرف عوام ہی انتخابات کے ذریعے کرسکتے ہیں۔


پاکستان میں احتساب کے قوانین موجود ہیں مگر ان کا اطلاق صرف ان افراد پرہوتا ہے جن کا تعلق اشرافیہ سے نہیں ہوتا۔ اینٹی کرپشن کے قوانین کے مطابق ایک سرکاری ملازم کو مجرمانہ سرگرمی میں ملوث تصور کیا جاتا ہے اگر وہ یا اسکے زیر کفالت افراد اپنی اعلانیہ آمدنی سے بڑھ کر اثاثوں کے مالک ہوں۔ اسی طرح نیب آرڈی نینس میں بھی ایک شق شامل ہے جس کے مطابق ایک سرکاری ملازم یا پبلک آفس ہولڈر کا احتساب ہوسکتا ہے اگر کوئی اپنی آمدنی سے بڑھ کر زندگی گزار رہا ہو تو وہ قصور وار سمجھا جاتا ہے اور سزا پاتا ہے۔

ان قوانین کے تحت ہزاروں افراد کو سزائیں دی جاچکی ہیں۔ آج بھی سینکڑوں چھوٹے سرکاری ملازمین انہی قوانین کے تحت کرپشن کے جرم میں جیلوں میں سزائیں بھگت رہے ہیں۔ قوانین کے مطابق جن اثاثوں اور جائیدادوں کو جائز ذرائع آمدن کے مطابق ثابت نہ کیا جاسکے ان کو کرپشن اور کالے دھن کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ پانامہ کیس میں یہی مروجہ ملکی قانون حکمران خاندان پر لاگو کیا گیا ہے تو اس نے آسمان سر پر اْٹھا رکھا ہے جبکہ پاکستان کا دوسرا بڑا سیاسی رہنما عمران خان اسی قانون کے تحت عزت و وقار کے ساتھ عدالتی احتساب سے گزررہا ہے حالاں کہ وہ کبھی کسی سرکاری منصب پر فائز نہیں رہا۔

پاکستان کے عوام کی چونکہ منصوبہ بندی کے تحت سیاسی تربیت نہیں کی گئی۔ سیاسی شعور نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو اچھے برے کی تمیز ہی نہیں ہے لہٰذا ہمارا جمہوری انتخابی نظام کرپٹ افراد کو پارلیمنٹ میں پہنچنے سے روکنے میں ناکام رہا ہے۔ جو سیاستدان کرپشن کرتے ہیں وہ سرمایے کی طاقت سے بار بار منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور سیاسی پارلیمانی طاقت سے ریاستی نظام کو یرغمال بنالیتے ہیں۔

سیاسی جمود اور شیطانی دائرے کو توڑنے کیلئے لازم ہے کہ انتخابی نظام میں ایسی بامعنی اور بامقصد انقلابی اصلاحات کی جائیں کہ دولت کا عمل دخل ختم ہوجائے اور باکردار، دیانتدار افراد منتخب ہوسکیں۔ متناسب نمائندگی کے اْصول پر انتخابات سے کرپٹ چہروں کو پارلیمنٹ میں آنے سے روکا جاسکتا ہے۔
انتخابات چوں کہ کرپٹ افراد کو منتخب ہونے سے نہیں روک سکے لہذا قومی سلامتی کا تقاضہ ہے کہ انتخابات سے پہلے یکساں مساوی اور شفاف احتساب کرکے سیاست کے گند کو قانون کی طاقت سے صاف کیا جائے تاکہ اگلے انتخابات میں معیاری لوگ منتخب ہوکر عوام کو معیاری حکومت دے سکیں اور بیڈ گورنینس کی وجہ سے جو سول ملٹری تنا? پیدا ہوچکا ہے وہ بھی ختم ہوسکے۔

اچھے اور باکردار لوگ ہی اچھی حکومت دے سکتے ہیں۔ کرپشن پر قابو پانے کے تمام ریاستی ادارے ناکارہ ہوچکے ہیں۔ اللہ کے فضل سے پاکستان کی عدلیہ اب آزاد اور فعال ہے لہذا عدالتی احتساب کے ذریعے ہی کرپشن کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کا خصوصی بنچ موجودہ جے آئی ٹی کے ذریعے پاکستان کے ان تمام سیاستدانوں کا انتخابات سے پہلے احتساب کرسکتا ہے جن کی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں نمائیندگی حاصل ہے۔

صاف اور شفاف انتخابات کا تقاضہ ہے کہ تمام پارلیمانی جماعتوں کے لیڈروں کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیا جائے اور ان سے میاں نواز شریف اور عمران خان کی طرح ”منی ٹریل“ طلب کی جائے۔ وزیراعظم اور انکے خاندان کے احتساب کی تکمیل کے بعد فطری اور منطقی طور پر حقیقی احتساب کا آغاز ہوجائیگا اور ریاستی ادارے کرپشن کے خاتمے کے سلسلے میں فعال ہوجائینگے۔

نیب کا سربراہ اگر سپریم کورٹ کے کسی حاضر سروس جج کو بنادیا جائے تو یہی ادارہ پانامہ لیکس میں شامل دیگر افراد سمیت ایک سال کے اندر احتساب کا عمل مکمل کرلے گا۔ ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کی ذمے داری بھی نیب کے سپرد کی جاسکتی ہے۔ قومی دولت کی لوٹ مار کرنیوالے اپنے انجام کو پہنچ جائینگے اور وہ کبھی انتخابی جمہوری سیاست کولوٹ مار کیلئے استعمال نہیں کرسکیں گے۔

اگر کسی حکمران کی مطلق العنانی کی وجہ سے ریاستی ادارے دباوٴ کا شکار ہوں تو آمرانہ ذہنیت کو ختم کرکے ہی ان اداروں کو فعال بنایاجاسکتا ہے۔ کڑے یکساں اور شفاف احتساب سے پہلے اگر انتخابات کرائے گئے تو قومی لٹیرے ایک بار پھر منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچ جائینگے اور سی پیک سے پیدا ہونیوالے ترقی اور خوشحالی کے نادر امکانات سے بھرپور فائدہ اْٹھانا ممکن نہیں ہوگا۔

پاکستان کی عدلیہ خراج تحسین کی مستحق ہے کہ اس نے اپنے بے مثال عزم اور حب الوطنی کے جذبے سے حکمران خاندان کا حتساب کرکے ناممکن کو ممکن کردکھایا ہے۔ لہذا ہماری قابل فخر عدلیہ تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کا احتساب بھی انتخابات سے پہلے ضرور کرے کیوں کہ موجودہ حالات میں یہ ریاست کے قومی اور عوامی مفاد کا اولین تقاضہ ہے۔

کرپشن کے بڑے بت گر جائینگے تو چھوٹے بت بے دست وپا ہو جائینگے اور کرپشن کا گٹھ جوڑ ٹوٹ جائیگا۔ ریاست تیزی کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے گی اور قوم اپنی عدلیہ کے اس احسان کو ہمیشہ یادرکھے گی۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی کا موقف درست ہے کہ کرپٹ خوشامدی کلچر نے جمہوری نظام کو بربادکرکے رکھ دیا ہے۔ جب لیڈر زیر عتاب آجائے تو خوشامدی اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔

خوشامدی لیڈر 1977ء میں بھٹو صاحب کا اور 1999ء میں میاں صاحب کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ اگر میاں صاحب پانامہ لیکس میں نااہل قرارپائے تو تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔
سپریم کورٹ کے خصوصی بنچ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سماعت کا آغاز کردیا ہے۔ یہ ہائی پروفائیل مقدمہ پہلے ہی بہت زیادہ وقت لے چکا ہے۔ گورنینس جمود کا شکار ہوچکی ہے۔ حکمران جماعت کی پوری توجہ اپنے لیڈر کو بچانے پر ہے۔

کچھ لیڈروں نے ریاست کے دو اہم اداروں عدلیہ اور افواج پاکستان کو تضحیک اور تحقیر کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سپریم کورٹ نے ان لیڈروں کی تقریروں کا ریکارڈ طلب کررکھا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے وضاحتی بیان میں سازش کا الزام مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے تشکیل دی تھی۔ فوج کے نمائندوں نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ایمانداری سے کام کیا۔

پاک فوج آئین اور ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔ افسوس قومی سلامتی کے بارے میں حکمران اشرافیہ کا رویہ کبھی سنجیدہ اور قومی مفاد کے تابع نہیں رہا۔ سپریم کورٹ کا خصوسی بنچ قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کرے گا۔ اشرافیہ کے وکلاء حسب روایت اور ہدایت کوشش کرینگے کہ اس خاندان کو عوام کی نظر میں مظلوم ظاہر کیا جائے اور اگر فیصلہ ان کیخلاف ہو تو میاں نواز شریف ”سیاسی شہید“ کی حیثیت سے ایوان وزیراعظم سے ”عوام کی عدالت“ میں جائیں۔

وکلاء تحریک کے نتیجے میں جب جج بحال ہوگئے اور عدلیہ پہلی بار حقیقی معنوں میں آزاد ہوئی تو عدلیہ نے ”نظریہ ضرورت“ کو دفن کرنے اور ”ضرورت پاکستان“ کے آئینی اصول پرگامزن ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اسی اْصول کے مطابق حکمرانوں کے سینکڑوں فیصلے اور احکامات غیر آئینی اور غیر قانونی ہونے کی بناء پر کالعدم قراردیئے گئے۔ پاکستان کے عوام کو اپنے معزز اور محترم ججوں سے پوری توقع ہے کہ پانامہ لیکس میں بھی آئین انصاف اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔

پاکستان کے عوام حیران ہیں کہ اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمرفاروق نے ایک بدو کے سوال پر اپنے کرتے کا حساب دیا تھا اسی شاندار اسلامی روایت پر عمل کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے مرد مومن چیف جسٹس منصور علی شاہ نے خود احتسابی کا مثالی نمونہ پیش کیا ہے مگر ہمارے حکمران اپنے اربوں ڈالر کے اثاثوں کا حساب قوم کے سامنے پیش کرنے سے مسلسل گریز کررہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sab ka Ehtesab is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.