سابق وزیراعظم پر فرد جرم کی لٹکتی تلوار․․․․․

عدلیہ،پاک فوج کے خلاف محاذ آرائی مہنگی پڑ گئی! احتساب عدالت میں داخلے سے روکنے کیلئے احکامات کس نے دیئے ،ن لیگی وزراء سیخ پا

ہفتہ 7 اکتوبر 2017

Sabiq Wazir Azam pr FArd Juram Ki latkti Talwwarr
محبوب احمد :
امن وسکون ، عوامی حقوق کا تحفظ اور بنیادی سہولیات زندگی کی فراہمی حکمرانوں کا فرض اور فاہ عامہ کا بنیادی فلسفہ ہے لیکن کبھی یہ سوچنا گوارہ نہیں کیا گیا کہ امن وسکون اور احساس تحفظ آج کے دور میں کیوں ناپید ہوتا چلا جارہا ہے؟ حکمران بہترین طرز حکومت کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر اس کے عملی مظاہر کہیں بھی نظر نہیں آرہے جس کی وجہ یہی ہے کہ عوامی نمائندے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دے رہے ہیں۔

قومی اداروں کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے، قانون اور آئین کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے اور اپنی نا اہلیت وکرپشن چھپانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے جس کی واضح مثال آئین کے آرٹیکل 62,63 کی شق نمبر 203 میں جو ترمیم منظور کی گئی ہے اس کے تحت نااہل شخص بھی پارٹی کا سربراہ ہوسکے گا۔

(جاری ہے)

اس حقیقت سے بھی کوئی انکاری نہیں ہے کہ ملک دشمن عناصر پاکستان کی ترقی وخوشحالی کے درپے ہیں۔

وطن عزیز ان دنوں جن کھٹن مراحل سے گزر رہا ہے اس سے نمٹنے کیلئے پاک فوج، رینجرز ، ایف سی ،پولیس اور دیگر اداروں کے جوان سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں لیکن دوسری طرف عدلیہ اور پاک فوج کے خلاف سیاستدانوں اور وفاقی وزراء کے تلخ اور نازیبا جملے بھی دنیا بھر میں ملک جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں۔ پانامہ سکینڈل میں مختلف ممالک کے سربراہان مملکت کی آف شور کمپنیوں کے ذکرنے جہاں بھونچال بپا کیا وہیں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اور ان کے خاندان سمیت مختلف سیاستدانوں اور تاجروں کے نام بھی سامنے آنے سے پاکستانی سیاست میں اک ہلچل سی مچ گئی ۔

مقام افسوس ہے کہ پانامہ پیپرز میں جس کا بھی نام آیا اس نے بغیر کسی ندامت کے ان جائیدادوں کو قانونی قراردیا، سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ کہ انسداد بند عنوانی کے ادروں نیب اور ایف بی آر نے بھی ان انکشافات کوقابل اعتناء نہ سمجھتے ہوئے کسی قسم کا کاروائی کا آغاز نہ کیا لیکن سپریم کورٹ نے پانامہ سکینڈل کو جو فیصلہ سنایا ہے وہ یقینا پاکستان میں قرباء پروری اورکرپشن پر ایک کاری ضرب ہے جس کے آنے والے دنوں میں دورس نتائج برآمد ہوں گے۔

پانامہ سکینڈل میں ملوث شریف خاندان کو سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کے بعد اب احتساب عدالت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، گزشتہ دنوں سابق وزیراعظم کی احتساب عدالت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، گزشتہ دنوں سابق وزیراعظم کی احتساب عدالت کے احاطے میں رینجرز اہلکاروں کی طرف سے وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال، وزیر مملکت طلال چوہدری ، دانیال عزیز، ن لیگ کے سینئر رہنما اور سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق سمیت اہم رہنماؤں کے روک لینے پر مسلم لیگی قیادت اور کارکن سیخ پاہیں ، وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تو مستعفی ہونے کی دھمکی بھی دے ڈالی، یہاں قابل غور امریہ ہے کہ نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر رینجرز کو سکیورٹی کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں جو کہ چیف کمشنر اسلام آباد کے ماتحت ہیں لیکن سکیورٹی اہلکاروں کو ن لیگی وزراء کے عدالت کے احاطے میں داخل ہونے سے روکنے کے احکامات کس نے دیئے یہ واقعی ایک ایسا سوال ہے کہ جس کا کسی کے پاس جواب نہیں لیکن اصل حقائق سے سبھی بخوبی آگاہ ہیں بظاہر دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کیلئے عدلیہ اور پاک فوج کے خلاف محاذ آرائی مہنگی ثابت ہورہی ہے اور ہر آنے والا دن درپیش مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے ۔

احتساب عدالت نے نیب پر اسیکیوٹر کی استدعا کو منظور کرتے ہوئے 3 ملزمان کیپٹن (ر)صفدر، حسین اور حسن نواز کے ناقابل ضمانت جبکہ مریم نوان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے تمام ملزمان کو 9 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے، گزشتہ دنوں سماعت کے دوران دیگر ملزمان کے پیش نہ ہونے کی صورت میں نواز شریف کے خلاف فرد جرم عائد نہ ہوسکی اور اب اگر پھر ملزمان عدالت میں پیش نہ ہوئے تو مقدمے کو الگ سے ٹرائیل کرنے کے بارے میں غور کیا جائے گا، تاہم عدالت کی طرف سے اس بارے میں کوئی تحریری حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے پانامہ کیس سے متعلق 28 جولائی کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کئے جو ایوان فیلڈ پراپرٹیز ، العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے متعلق ہے۔ نیب کی جان سے ایوان فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن ، حسین، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔

العزیزیہ سٹیل ملز جدہ اور15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے ددنوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا تھا۔ زرداری کے پاک فوج کے خلاف اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان کی طرح ڈان لیکس سکینڈل کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرف سے عدلیہ اور پاک فوج کے خلاف جو ہرزہ سرائی کونے کا سلسلہ جاری ہے اس کے دوررس اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔

لیگی قیادت اب اس بات پر زور دے رہی ہے کس طرح پانامہ پیپزر کی مصیبت سے خلاصی پانے کیلئے کوئی راہ نکالی جائے اور اس حوالے سے لندن میں موجود عالمی شہرت کے حامل مالیاتی اور قانونی ماہرین سے ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں لیکن معاملہ اب صرف پانامہ لیکس تک محدود نہیں رہا کیونکہ حدیبیہ پیپر ملز اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کیسز ری اوپن ہونے سے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف، حمزہ شہباز اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے گردبھی گھیرا تنگ ہونے کے ساتھ ساتھ پرتعیش زندگی گزارنے والے بیوروکریٹس بھی احتساب کے شکنجے میں نظر آتے دکھائی دے رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کی قیادت نے اپنے مقاصد کی تکمیل اور حالیہ مشکلات سے چھٹکارے کیلئے دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے تیز کردیئے ہیں لیکن یہاں قابلِ غور امر یہ بھی ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی باہمی مشاورت سے ہونے والے فیصلوں پر کس حد تک عملدرآمد یقینی ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کیونکہ اب کی بار حالات کچھ یکسر مختلف دکھائی دے رہے ہیں ۔

حالیہ مسلم لیگ ن کے مشاورتی اجلاس میں نواز شریف کو مشورہ دیا گیا ہے کہ انہیں اس سے پہلے بھی شفاف ٹرائل نہیں ملا، نیب ریفرنس کے معاملے میں بھی شفاف ٹرائل کا کائی چانس نہیں ہے اس لئے تمام عمل میں تعاون کا کوئی فائدہ نہیں اب دیکھنا ہے کہ اس حوالے سے کیا لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے کیونکہ حتمی فیصلہ نواز شریف ہی کریں گے ، یہ قیاس آرائیاں بھی منظر عام پر آرہی ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو مستقل وزیراعظم بنانے پر غور کیا جا رہا ہے کیونکہ بیگم کلثوم نواز کے متعلق یہی کیا جارہا ہے کہ وہ آئند ہ 4 سے 6 ماہ سفر نہیں کرسکیں گی جس کے باعث شاید این اے 120 میں الیکشن کا دوبارہ انعقاد ہوا ور اگر ایسا ہوا تو امکان ہے کہ اس الیکشن میں شہباز شریف کو کامیاب کروا کرقومی اسمبلی سے وزیر اعظم منتخب کروایا جائے گا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس بھی مسلم لیگ ن کی حکومت پر ایک لٹکتی تلوار سے کم نہیں ہے لہٰذا ایسے حالات میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا وزیراعظم بننا تو دور کی بات این اے 120 میں اگر دوبارہ الیکشن ہوتا ہے تو بطور ایم این اے کا امیدوار بننا بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ پانامہ ہنگامہ اب بری تیزی کے ساتھ اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے ، لہٰذا حکومت وقت پر یہ بہت بھاری ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے کہ وہ وطن عزیز پاکستان کی سلامتی ، اقتصادی استحکام اور عوامی فلاح وبہبود کیلئے دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے وقار کا خیال رکھتے ہوئے اس ے فیصلوں پر من وعن عملدرآمد یقینی بنائے کیونکہ یہی جمہوریت کا حقیقی حسن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Sabiq Wazir Azam pr FArd Juram Ki latkti Talwwarr is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.