شریف خاندان کیلئے وزیراعظم ہاؤس کا دروازہ کھل سکے گا؟

لاہور کا ضمنی الیکشن، نون لیگ جیت کر بھی ہار گئی!! شاہد خاقان عباسی وزارت عظمیٰ سے استعفی نہیں دیں گے․․․

پیر 25 ستمبر 2017

Shreef Khandan K Liye Wazer Azam house Ka Drwaza Khul Saky Ga
محمد انیس الرحمن:
لاہور کے مشہور انتخابی حلقے NA- 120 میں ہونے والے ضمنی انتخاب کا نتیجہ نون لیگ کے حق میں نکلا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس مرتبہ پی ٹی آئی کی امیدوار سے مارجن بہت کم رہا ۔ ایک ایسا حلقہ جو گذشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے نون لیگ کے نااہل ہونے والے قائد نواز شریف کا حلقہ انتخاب ہے اور نااہلی کے بعد ان کی اہلیہ کو اس حلقہ انتخاب سے محض اس لئے الیکشن لڑوایا گیا کہ اس حلقے میں ناکامی نون لیگ کے قلعے میں بڑے شگاف کے مترادف سمجھی جائے گی لیکن تمام تر صوبائی اور وفاقی حکومتی وسائل ، پٹواریوں کے بے دریغ استعمال، اربوں روپیہ لوٹانے کے باوجود سینکڑوں کی تعداد میں گلو بٹوں کی موجودگی کو بڑا حصہ استعمال کرکے بھی اس مرتبہ نون لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان حاصل کردہ ووٹوں کا فرق بہت زیادہ سکڑ گیا جو فرق ماضی میں چالیس سے پچاس ہزار کا ہوتا تھا وہ سکڑ کر 13 ہزار تک آگیا۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ حلقہ NA-120 میں تین لاکھ بیس ہزار رجسڑڈ ووٹ ہے اس میں سے صرف ساٹھ ہزار ووٹ نون لیگ کو پڑا چھیالیس ہزار ووٹ پی ٹی آئی کو ملے جبکہ ساتھ ہزار ووٹ لیکر تحریک لبیک پاکستان تیسرے نمبر پر آئی ہے، غالباََ پی پی جس کا مشن ہی یہ تھا کہ اپنا ووٹ پی ٹی آئی کو نہ پڑنے دیا جائے جبکہ نووار د ملی مسلم لیگ کے ساڑھے چار ہزار ووٹ لے سکی ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ مجموعی طور پر ایک لاکھ بیس یا چالیس ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے باقی تقریباَ دولاکھ افراد اس الیکشن سے الگ رہے۔

۔!! جبکہ یہ نون لیگ کے ”گھر“ کا الیکشن تھا اس حلقے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ستر کے الیکشن میں یہاں ذوالفقات علی بھٹو نے مسلم لیگ کے مرحوم جسٹس جاوید اقبال کر ہرایا تھا اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کے نون لیگ جیت کر بھی ہار گئی اور پی ٹی آئی کی لیڈر شپ نے اپنی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کی اس انداز میں مدد نہیں کی جس کا وہ حق رکھتی تھیں یہ ساری انتخابی مہم ڈاکٹر یاسمین نے ذاتی تعلقات کی بنا پر چلائی کیونکہ ڈاکٹر صاحبہ ایک گائنا کالوجسٹ ہیں اور اس حوالے سے یہاں ان کو تقریباََ ہر خاندان جانتا ہے بیس سے چوبیس برس کی نسل یہاں ایسی ہوگی جو تقریباََ انہی کے ہاتھوں پیدا ہوئی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک طرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے وسائل کے انبار تھے تو دوسری جانب ڈاکٹر یاسمین نے پیدل ایک ایک گھر جا کر اپنا پیغام سنایا اور کامیابی کے درمیان فاصلے کو پچاس ہزار سے تیرا ہزار پر سمیٹ دیا۔

عمران خان کی جانب سے تھوڑی اور کوشش کی جاتی تو ممکن ہے یہ فاصلہ بھی سمٹ جاتا لیکن وہ عمران خان کود ہی کیا جو آخیر میں جھک نا مارے۔۔ دوسری جانب کامیابی کے اعلان کے بعد بی بی مریم نواز کا کہنا تھا کہ ” آج عوام نے عدالتی فیصلہ مسترد کردیا“۔۔۔ کیا یہ توہین عدالت نہیں ہے، ملکی سکیورٹی اداروں پر بھرے مجمع میں الزام عائد کرنا کہ ” نظر آنے والے بھی اس الیکشن میں ناکام ہوئے“ ۔

کیا نواز شریف آسمان سے اتراہوااوتار ہے کہ جس کی عدالتی نااہلی پر ملکی آئین اور قانون کو روز سربازار رسوا کیا جاتا رہے؟نون لیگ نا اہلی کے بعد جس انداز میں نواز شریف کی مقبولیت کا شور مچا کر عدالتی فیصلے کو عوامی فیصلے کے مقابل لانے کی کوشش کررہی تھی اس میں وہ بری طرح ناکام رہی ہے۔ اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلانے والی مریم نواز نے انتخابی مہم کے دوران جس انداز میں اعلیٰ عدلیہ سمیت ملکی اداروں کو الزامات کی زد میں لیا ہے اس سے انہوں نے یہی تاثر دینے کی کوشش کی کہ عوامی ووٹوں کی کثرت سیاسی رہنماؤں کو قانون سے بالاتر کردیتی ہے۔

۔ یا للعجب۔۔ لیکن بی بی مریم نواز اس میں بری طرح ناکام ہوئی ہیں کیونکہ ان کے حزیان انگیز بیانات سے ایسا ہی محسوس ہوتا تھا کہ نواز شریف ہوتا تھا کہ نواز شریف سے زیادہ انہیں وزیراعظم ہاؤس سے دختر اول کی حیثیت سے نکلنے کا غم کھائے جا رہا ہے۔ مریم نواز کی جانب سے اپنی والدہ کی الیکشن مہم کے دوران وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کو بالکل الگ رکھا گیا تھا جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شریف خاندان اقتدار کی اس جنگ میں باہمی دست وگریباں ہوچکا ہے،ذرائع اس سے پہلے یہ خبر دے چکے تھے کہ نوا ز شریف کے لندن جاتے ہی پیچھے سے شہباز شریف لندن پہنچے تھے جہاں دونوں بھائیوں کے درمیان شدید جھگڑا بھی ہوا اور ایک دوسرے کو موجودہ حالات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

نواز شریف شہباز شریف کو وزیراعظم تو دور کی بات مسلم لیگ نون کا صدر تک بنانے پر راضی نہیں ہیں۔ انہی کشیدہ حالات میں شہباز شریف واپس وطن آئے اور اگلے روز یعنی الیکشن سے ایک دن پہلے چھوٹے بیٹے سلمان کو لیکر ترکی چلے گئے جبکہ حمزہ شہباز لندن سے وطن واپس آنے کی بجائے امریکہ نکل گئے۔۔۔ انہیں ان حالات میں ترکی ہی ایسی پناہ گاہ نظر آئی جہاں کچھ دیر منہ چھپاکر بیٹھا جاسکتا تھا۔

جبکہ الیکشن والے دن ہی وزیراعظم خاقان عباسی امریکہ جانے سے پہلے خود لندن کے دربار میں حاضری دینے موجود تھے، دوسری جانب قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق بھی لندن میں ناایل وزیراعظم سے ملاقات کرتے رہے۔ حلانکہ کسی بھی سیاسی شخص کا اسپیکر بننے کے بعد کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہوتا لیکن چونکہ مورثیت کے غلام اس خطے میں نظام سے زیادہ شخصیات کو اہمیت دی جاتی ہے اس لئے قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی خود کو شریف خاندان کا تابعدار ثابت کرنے کی کوششوں میں رہتے ہیں۔

دوسری جانب الیکشن کے دن تقریباََ سارے وفاقی اور صوبائی وزیر منظر سے غائب رہے۔ سب اس بات پر پریشان ہیں کہ بی بی مریم نواز نے وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب پر بھی قبضہ جمایا ہوا ہے ۔۔۔ کس سیاسی حیثیت سے؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔۔ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ شاہد خاقان عباسی اپنی عبوری وزارت عظمیٰ کو اگلے الیکشن سے پہلے تک دراز کرنے کی خواہش رکھتے ہیں غالباََ اسی خواہش کے پیش نظر انہوں نے اقوام متحدہ میں خطاب کے لئے دورہ امریکہ کے دوران سی این این کو انٹر ویو دینے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے، یہ صورتحال میاں نواز شریف کے کان کھڑے کردینے کے لئے کافی ہے ۔

اسی لئے کہا جارہا ہے کہ غالباََ اسی معاملے کو زیر بحث لانے کے لئے الیکشن سے ایک روز قبل لندن میں ہی وزیر دفاع خواجہ آصف اور میاں نواز شریف کی ملاقات بھی ہوئی ہے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی کوئی تصویر گردش میں تھی۔ ذرائع کے مطابق خواجہ آصفہ کا خیال ہے کہ جو تقریر خاقان عباسی اقوام متحدہ میں کرنا چاہتے ہیں اس میں کچھ تبدیلی کردی کائے اب کیا شاہد خاقان عباسی وہی تقریر کرتے ہیں جو پہلے سے ان کے پاس موجود ہے یا تبدیل شدہ تقریر کی جاتی ہے اس کا علم اسی وقت ہوسکے گا جب وہ اقوام متحدہ میں تقریر کریں گے۔

یقینی بات ہے جو خواجہ آصف اور نواز شریف کا بیانیہ ہے اس میں نہ تو بھارت کے حوالے سے کوئی بات ہوسکتی ہے اور نہ ہی افغانستان کا ذکر ہوگا بلکہ بقول خواجہ آصف ”ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے“ جیسے معاملات ہی سامنے آسکتے ہیں۔ اسلام آباد میں موجود بہت سے ذرائع بتا رہے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی وزارت عظمیٰ سے استعفی نہیں دیں گے، کیونکہ نواز شریف کی جانب سے کوشش ہوگی کہ کلثوم نواز کو وزیراعظم بنا کر وزیراعظم ہاؤس میں دوبارہ داخل ہو ا جائے اور ڈی فیکٹو وزیراعظم کے طور پر باقی معاملات کو دیکھتے ہوئے آئین میں ایسی تبدیلی کروائی جائے جس سے ان کی عدالتی نااہلی ختم کی جاسکے لیکن افسوس کہ ایساہونے نہیں جارہا ۔

۔۔ شاہد خاقان عباسی کے استعفی نہ دینے کے علاوہ اس میں دوسری رکاوٹ بیگم کلثوم نواز کا ”اقامہ“ ہے جس کی پٹیشن پہلے ہی فیصل میر اور عوامی تحریک کی جانب سے دائر کی جاچکی ہے دوسری جانب الیکشن کے اگلے روز ہی مسلم لیگ نون میں یہ سوچ پروان چڑھنا شروع ہوگئی کہ جو حکمران خاندان ایک طرح سے اپنے ہوم گراؤنڈ این اے 120 میں اس حالت کو پہنچ چکا ہے تو 2018ء کے الیکشن میں وہ باقی جماعت کو کہاں لے جائے گا۔

دوسری جانب حکمران خاندان کی خلاف ریفرنس دائر ہوچکے ہیں اور مزید دائر کرنے تیاری جاری ہے ۔ نون لیگ عملا اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے ایک چوہدری نثار گروپ ہے اور دوسرا مریم نواز گروپ، ان دو گروپوں کے علاوہ اب تیسرا بڑا گروپ شہباز شریف کا بھی ہے جس جھکاؤ چوہدری نثار کی جانب ہے ۔ ایک طرف یہ سیاسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تو دوسری جانب شریف خاندان کی ریفرنسز میں حاضریاں شروع ہونے جارہی ہیں ، حکم عدولی کی شکل میں جائیدادیں ضبط ہوں گی یہی وجہ ہے کہ سمدھی اول اسحاق ڈار میاں نواز شریف کو مسلسل منارہے ہیں۔

کہ وہ پاکستان واپس آئیں اور ان کے ساتھ عدالتوں کا سامنا کریں۔ اس کی دوسری جانب سندھ میں آپریشن کا بڑا اور تیز ترین حصہ شروع ہوا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت آصف زرداری کی بولتی بند ہے اور اگر وہ کوئی بیان دیتے ہیں تو پھونک پھونک کر بات منہ سے نکالتے ہیں۔ سندھ میں صوبائی وزیروں اور اعلیٰ قیادت کے فرنٹ مینوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوچکی ہے اور جلد ہی یہ سلسلہ اعلیٰ قیادت تک پہنچ جائے گا۔

ملکی اداروں کی اینٹوں سے اینٹیں بجانے والے زرداری صاحب کو اپنی اینٹیں کھڑکتی محسوس ہورہی ہیں اس لئے ان حالات میں وہ میاں نوا ز شریف کی بس اتنی مدد کرسکے ہیں کہ این اے 120 سے اپنا امیدوار کھڑا کروا کر پی ٹی آئی کی یقینی فتح کو روک سکے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کا پول کھل چکا ہے کہ پیپلز پارٹی اب پنجاب میں اپنا وجود کھوچکی ہے اور اگر سندھ کے حالات ٹھیک ہوگئے تو الیکشن میں دھاندلی کا خدشہ نہ رہا تو پھر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے دن بھی وہاں گنے جاچکے ۔

غیر ملکی اقاموں کو مسئلہ بھی اب وسیع تر ہوجائے گا کیونکہ پاکستان کو لوٹنے والے سیاستدانوں نے ملکوں سے فرار کے لئے اور یورپی بینکوں میں لوٹ کا مال چھپانے کے لئے یہ غیر ملکی اقامے حاصل کررکھے ہیں جبکہ غیر ملکی پاسپورٹ بھی ان کی دسترس میں ہیں ان آدھے سے زیادہ اسمبلی ممبران کی جیبوں میں یہ اقامے اور غیر ملکی پاسپورٹ پڑے ملیں گے۔ اس لئے گمان یہی کیا جارہا ہے کہ آئینی اور قانونی ادارے آئندہ ایسے قوانین تشکیل دیں گے جن کی بنیاد پر کوئی ایسا شخص جو غیر ملکی کاغذات اور سفری دستاویزات کاحامل ہو اس جس کے اثاثے غیر ممالک میں ہوں وہ اسمبلیوں تک نہ پہنچ سکے۔

کچھ ذرائع یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ زرداری صاحب کے لئے فی الحال ڈاکٹر عاصم کا وعدہ معاف گوا بننا اور عزیر بلوچ کے اعترافات ہی کافی ہیں رونہ ان کی جیب میں شاید ایک عدد غیر ملکی اقامہ پڑا ہوا ہے۔۔۔ شریف خاندان کے لئے موجودہ ضمنی الیکشن میں کامیابی اس لئے ضروری قراردی جارہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح وزیراعظم ہاؤس کا دروازہ ان پر کھل سکے لیکن جیسے ہم نے پہلے کہا کہ ایسا نہیں ہونے جارہا اس راستے میں فی الحال دو رکاوٹیں ہیں ایک شاہد خاقان عباسی جو پہلے ہی ایل این جیسے سکینڈل میں پھنسے ہوئے ہیں اور دوسرا بیگم کلثوم نواز کا غیر ملکی اقامہ۔

اس کے بعد اس خاندان کے لئے 2018ء کا جنرل الیکشن ہی واحد امید کی کرن رہ جاتی ہے لیکن اس الیکشن کے بارے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ” ہنوذ دہلی دوراَست“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Shreef Khandan K Liye Wazer Azam house Ka Drwaza Khul Saky Ga is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.