سپریم کورٹ کے فیصلے پر احتجاج اور ہنگامہ آرائی سے گریز کیا جائے!

نواز شریف کی نااہلی پر عوامی رائے․․․․ کرپشن،لوٹ مار اور ملاوٹ پر سزائے موت کے قانون سے ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگا

بدھ 16 اگست 2017

Supreme Court K Faislay Par Ehtijaj Or Hangama Arayi Se Gurez Kia Jaye
رحمت خان ورگ:
سب سے پہلے تو 20 اپریل کا جب فیصلہ آیا تو اس 5 رکنی بینچ میں سے دو معزز ججوں نے اپنا مکمل فیصلہ دے دیا تھا اور اب کی طرف سے کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا تھا اسی لئے بعد میں عملدرآمد بنچ میں 3 معزز جج صاحبان تھے جنہوں نے جے آئی ٹی بنانے سے لیکر حتمی رپورٹ جمع ہونے اور پھر جے آئی ٹی کے متعلق سماعت کی اس لئے کئی سینئر قانون دانوں کی رائے میں 28 جولائی کا فیصلہ بھی انہی 3 معزز ججوں نے دینا تھا لیکن اچانک سے فیصلے کے لئے 5 رکنی بنچ کا اعلان ہوا، جس سے عوام کے ذہنوں میں شکوک جنم لیتے ہیں حالانکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ دیا ہے اور اس پر سب کو ہر صورت عملدرآمد کرنا چاہیے اور میاں محمد نواز شریف نے بھی پانامہ کیس میں ہر مرحلے پر اپنے تحفظات کے باوجود سپریم کورٹ کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کیا اور آئینی طریقہ کار کے مطابق نیا وزیراعظم منتخب کرادیا ہے۔

(جاری ہے)

نواز شریف پر کرپشن کا الزام نہیں بلکہ ملازمت کا ریکارڈ نہ دکھا کر غلط بیانی کی بنیاد پر نااہل کیا گیا ہے، میرے خیال میں کیپٹن صفدر اور نواز شریف کی نشستوں پر ضمنی انتخابات میں بھی ن لیگ ہی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی۔ 2013 میں جب ن لیگ نے حکومت سنبھالی تھی تو ملک کی کیا حالت تھی؟ہمیں حقائق کو کسی صورت نہیں بھولنا چاہیے۔ کراچی سے خیبر تک امن وامان کی کیا حالت تھی؟ لوگ صبح گھر سے نکلتے وقت یہ سمجھ کر نکلتے تھے کہ شاید ہم شام کو گھر لوٹ کر نہیں ا ٓئیں گے۔

ملک بھر میں امن وامان کی بہترین صورتحال اسی حکومت نے قائم کی اور آپریشن ردالفساد اب بھی جاری ہے۔ اسی طرح معاشی صورتحال سب کے سامنے ہے اور جس قدر ترقیاتی و میگا پروجیکٹس لگ رہے ہیں اور یہ تمام منصوبے اسی رفتار سے بروقت مکمل ہوتے رہے تو ن لیگ کو الیکشن 2018ء میں بھی بھاری اکثریت سے فتح حاصل ہوگی، اگر کوئی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ردعمل نہ آنے کو نواز لیگ کی مقبولیت میں کمی کے طور پردیکھتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔

نواز لیگ کی حکومت نے چار سال میں ہر پہلو سے بہتری کی جانب گامزن کیا ہے اور ویسے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عوام کے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کا ہر کوئی مخالف ہی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہر صورت تسلیم کیاجانا چاہیے۔ پانامہ کیس کے فیصلے پر ایک تو اس پہلو سے عوام میں شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ سماعت 3 رکنی بنچ نے کی اور فیصلہ 5 رکنی بنچ نے سنایا اور سپریم کورٹ کے ماضی کے بڑے فیصلے پر بھی تنقید ہوتی ہے جس میں ذوالفقار علی بھٹو کا کیس سرفہرست ہے اور بھٹو کیس کے بنچ میں شامل معزز جج نے ماضی قریب میں ایک ٹی وی چینل پر اس بات کا باقاعدہ اعتراف بھی کیا کہ بھٹو کیس میں دباؤ میں آکر فیصلہ دیا گیا اور بھٹو کا جوڈیشنل مرڈر ہوا۔

اسی طرح یوسف رضا گیلانی نے بھی آئین کے مطابق عدالت عظمیٰ میں کہا کہ صدر کوآئین میں استنثی حاصل ہے اسی لئے سوئٹزرلینڈ کو خط لکھنے سے انکارکیا جس پر انہیں نااہلی کی سزادی گئی لیکن یوسف رضا گیلانی نے تو آئین کے مطابق بات کی تھی، بہرحال یوسف رضا گیلانی نے بھی عدلیہ کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کیا۔پانامہ فیصلے کی ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی سامنے آرہی ہے لیکن انہیں اس فیصلے پر اپیل کا حق دینا بہت ضروری تھا۔

سپریم کورٹ نے بے شک نواز شریف کو تاحیات نا اہل کرنے کا فیصلہ لکھا ہے لیکن اس فیصلے میں اتنی گنجائش میرے خیال میں بہت ضروری تھی کہ اس فیصلے پر اپیل کیلئے فل کورٹ بیٹھے گا اور اس معاملے پر نظر ثانی کی درخواست سنی جائے گی۔ اگر فل کورٹ تمام قانونی تقاضے دیکھ کر اپنا فیصلہ برقرار رکھتا تو اس کے بعد عوامی و قانونی ماہرین کی رائے مختلف ہوتی۔

یا تو سپریم کورٹ سپریم کورٹ نااہلی کا معاملہ ہائی کورٹ کے سپرد کرتا اور ہائی کورٹ فیصلے پر سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دیا جاتا۔ بہرحال اپیل کا حق دینا قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے میرے خیال میں بہت ضروری تھا۔ نواز شریف کو اپیل کا حق دینے کے معاملے کو افہام تفہیم سے سلجھانا چاہیے کیونکہ بطور سیاسی ورکر میں سمجھتا ہوں کہ مارچ 2018ء میں جب سینیٹ میں نواز لیگ کو اکثریت حاصل ہوجائے گی تو وہ کوئی بھی ایسی ترمیم لاسکتے ہیں جو صبح قومی اسمبلی اور شام سینیٹ سے منظور ہوجائے گی اور دمادم مست قلندر ہوگا ۔

البتہ آئین سے آرٹیکل 62-63 کو ختم کرنے کی کوئی بھی کوشش بددیانتی ہی سمجھی جائے گی اور یہ تصور ہوگا کہ اسی لئے آئین سے آرٹیکل 62-63 کو نکالا جارہا ہے تاکہ کرپشن ولوٹ مار کو جائز قراردیا جاسکے،تحریک انصاف سے منسلک قانونی ماہرین عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے سے پوری نواز لیگ کے خلاف فیصلہ آگیا ہے اور پوری نواز لیگ کا وجود ختم ہوجائے گا۔

یہ ہر زہ سرائی سراسر ناجائز ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہونی چاہیے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی ذات کے خلاف فیصلہ آیا ہے اور اس کا پارٹی کی سیاست پر قانونی تقاضوں سے کوئی اثر نہیں پڑے گا اور پارٹی چلتی رہے گی۔ کیا یوسف رضا گیلانی کی نااہلی سے پیپلز پارٹی ختم ہوگئی تھی؟شاہد خاقان عباسی کے خلاف مختلف باتیں ہورہی ہیں کہ ان کے خلاف نیب میں ریفرنس تھے اور انہیں بھی وزارت عظمیٰ سے ہٹائیں گے تو نیب کو کارائی کرنے چاہیے، صرف پروپیگنڈے سے کچھ نہیں ہوتا اور شاہد خاقان عباسی 6 مرتبہ ممبر قومی اسمبلی بن چکے ہیں اور کبھی بھی ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔

غیر ضروری میڈیا ٹرائل کے بجائے حقائق پر بات ہونی چاہیے۔ آئین و قانون کے مطابق جمہوری عمل ہر صورت چلنا چاہیے اور انتخابات اپنے مقررہ وقت پرہوں۔ پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے جو قانون سازی کرتا ہے اور عدلیہ کاکام قانون کی تشریح کرنا ہے۔ موجودہ نظام میں جب ایک ممبر قومی اسمبلی کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلی میں پہنچتا ہے تو یقینا وہ اربوں روپے کمانے کی ہر صورت کوشش کرے گا،جب تک دولت کا عنصر سیاست سے ختم نہیں ہوجاتا،اس وقت تک کرپشن کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔

تحریک استقلال کا یہ نعرہ کہ ”چہرے نہیں نظام بدلو۔ لوٹ کھسوٹ کے راج کو بدلو‘ 1979ء میں مان لیا جاتا اور الیکشن متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کرائے جاتے تو میں مان لیا جاتا اور الیکشن متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کرائے جاتے تو آج سیاست کی یہ حالت نہ ہوتی اور سیاست پر صرف چند دولت مند خاندانوں کا قبضہ نہ ہوتا، اب بھی اگر نظام کی تبدیلی میں دیر کی گئی تو کرپشن و لوٹ مار کا خاتمہ بہت مشکل ہوگا ہم شروع دن سے کرپشن، لوٹ مار اور ملاوٹ کے خلاف ہیں اسی لئے سب سے پہلے اس سلسلے میں ا ٓواز بلند کی لیکن اتنے عرصے بعد اب بھی قوم ہیجان کا شکار ہے کہ آیا کرپشن ولوٹ مار کا خاتمہ کیسے ممکن ہوگا؟ سیاست سے دولت کا عنصر ختم کرنے کے لئے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر الیکشن کرانے ہوں گے۔

کاش آج بھی حکومت و اپوزیشن اس بات پر اتفاق کرکے سزائے موت ہوگی تو قوم یہ سمجھ سکے گی کہ اب ہمارے سیاستدان واقعی کرپشن کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں اور مستقبل میں کرپشن پر سخت سزائیں ملیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Supreme Court K Faislay Par Ehtijaj Or Hangama Arayi Se Gurez Kia Jaye is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 August 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.