تاجروں پر ٹرن اوورٹیکس لاگو

ایک فیصد دیکر 5 کروڑ روپے تک کالا دھن سفید کرنے کی سیکم کا اعلان وفاقی حکومت نے ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے، غیر رسمی معیشت کو باقاعدہ بنانے کے لیے رضا کارانہ ٹیکس ادائیگی سکیم کا اعلان کر دیا جو صرف کاروباری برادری کے لیے ہوگی

ہفتہ 9 جنوری 2016

Taajiron Par Turn Over Tax Laagu
سید ساجد یزدانی:
وفاقی حکومت نے ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے، غیر رسمی معیشت کو باقاعدہ بنانے کے لیے رضا کارانہ ٹیکس ادائیگی سکیم کا اعلان کر دیا جو صرف کاروباری برادری کے لیے ہوگی۔اس سے کالا دھن سفید ہو جائے گا۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز ہونے والی تقریب میں وزیراعظم محمد نواز شریف ،وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار اور تاجر برادری کے نمائندوں نے شرکت کی۔

سکیم کے تحت ”نان فائلرز“ کو اپنا سرمایہ ظاہر کرنی کی اجازت دیدی گی۔ 5کروڑ روپے تک کا سرمایہ ظاہر کرنیوالوں کو ایک فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ان کے سرمایہ کو قانونی تحفظ مل جائے گا۔تاجروں کو ٹرن اوورٹیکس دینا ہوگا۔ اس وقت ٹیکس نیٹ میں موجود فائلرز بھی اس سکیم سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

(جاری ہے)

تاجروں کو سادہ فارم بھر کر اپنی ریٹرن داخل کرنا ہوگی۔

وزیراعظم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکوتم ایشوز کو مفاہمت اور مشاورت سے حل کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اچھا بھلا مسئلہ بڑی خوش اسلوبی اور اتفاق رائے کے ساتھ طے کر لیا گیا جس کے لیے میں اسحاق ڈار، خواجہ محمد شفیق، نعیم میر، اجمل بلوچ اور دیگر ساتھیوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ مشاورت کیساتھ معمالات کو طے کیا جائے اس سے بہتر بات کاور کوئی ہو نہیں سکتی۔

یہ جذبہ انشاء اللہ ہمیں آگے لے کے چلے گا، یہ جذبہ پاکستان کو مسائل سے باہر نکالے گا اور یہی انشاء اللہ بے روزگاری کے خاتمے کا باعث بنے گا، یہی جذبہ غربت کے خاتمے کا باعث بنے گا، یہی جذبہ دہشت گردی کے خاتمے کا باعث بنے گا۔ کراچی انشاء اللہ ترقی کریگا،امن آئیگا، کراچی پاکستان کا مرکز ہے ۔ اگر کراچی پرامن ہے تو اللہ کے فضل سے پورا ملک پرامن ہے۔

وہاں کے حالات جزیر بہتر کریں گے جب ہم آئے ہیں تو ہم نے چیلنجز کا مقابلہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا، ہم گھبرائے نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ معاملہ ہو،بھارت کے ساتھ معاملہ ہو،ان سب پہ ہم نے آگے بڑھنا ہے ان سب پہ ہم نے ترقی کرنی ہے اور اپنے اندورنی اور بیرونی مسائل بات چیت اور گفتگو کے ذریعے حل کرنے ہیں۔ ہمیں اندورنی طور پر بڑا مضبوط ہونا چاہیے۔

اور ہماری معیشت مضبوط ہونی چاہیے۔ اُسی ملک کی افواج مضبوط ہوتی ہیں جس ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے، وہاں پر دہشت گردی بھی اپنے پاوٴں جمانے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتی لیکن اندرونی طور پر اگر ہم خستہ حال ہیں خدا انخواستہ اندرونی طور پر اگر ہم کمزور ہیں تو پھر کوئی بھی پہلو ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ تو اس لیے میری ڈار صاحب سے یہ بات ہوئی ہے الیکشن سے پہلے بھی اور الیکشن کے بعد بھی کہ ہم مشاورت کے ساتھ، تاجروں کے ساتھ، صنعتکاروں کے ساتھ، کاروباری برادری کے ساتھ ملکر پالیسیاں بنائیں گے اور ٹیکس کی شرح کو اتنا نیچے لیکر آئیں گے اتنا نیچے کہ وہ خوشی کے ساتھ ٹیکس ادا کریں۔

ہم جتنے بھی ایل این جی پر چلنے والے بجلی کے کارخانے لگا رہے ہیں، ان کو ہم مثلاََ 100 ارب روپے میں لگا رہے ہیں تو آج 40 ارب روپے ہم نے بچایا بھی ہے صرف شفافیت کی وجہ سے ، حکومت اس فرض کو پوری طرح سے ادا کر ہی ہے ۔ وزیراعظم نے کہاکہ اپنی قوم کے ایک ایک پیسے کو امانت سمجھتے ہیں اور امانت میں خیانت اللہ کے فضل وکرم سے سوچ بھی نہیں سکتے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت مضبوط ہوگی تو ہماری افواج بھی مضبوط ہوگی۔

نئے سال کی شروعات اچھی ہوئی ہے ، تاجروں کے مسائل حل ہوئے ہیں، دہشت گردی کی کمر ٹوٹ چکی ، کراچی کے حالات بہتر ہوئے، خواندگی ،بے روزگاری ختم ہونے سے دہشت گردوں کو ملک میں قدم جمانے کا موقع نہیں ملے گا۔ اس موقع پر اسحاق ڈار نے کہا کہ رضا کارانہ ٹیکس سکیم کی پارلیمنٹ سے منظوری لیں گے۔ تقریب سے خطاب میں چیئرمین ایف بی آر نثار محمد خان نے کہا ہے کہ ٹیکس فائلرز کی تعداد 7 لاکھ سے بڑھ کر 10 لاکھ ہوگی ہے۔

کالا دھن سفید سکیم کے تحت قومی اسمبلی، سینٹ، صوبائی اسمبلیوں کے ارکان استفادہ نہیں کر سکیں گے جبکہ دہشت گردی ،منی لانڈرنگ اور منشیات کے جرائم میں سزا یافتہ افراد بھی رضا کارانہ سکیم کے تحت مستفید نہیں ہو سکیں گے۔سکیم سے فائدہ اٹھانے والے آڈٹ اور 10 لاکھ روپے تک کی آمدن پر ویلتھ سٹیٹمنٹ داخل کرانے سے مستثنیٰ ہونگے۔تاجروں کے لیے مراعات کے پیکیج کے تحت سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن کی شرط ختم کر دی گی ہے تاہم بڑے تاجر جن کا بجلی کا بل 50 ہزار ماہانہ یا 6 لاکھ روپے سالانہ تک ہے بدستور سیلز ٹیکس قانون کے تحت رجسٹرڈ ہونگے۔

وزیر خزانہ نے کہا ہے اس سکیم کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم کہنا مناسب نہیں ہوگا، کوئی جائیدادیں، جیولری اس سکیم سے وائٹ نہیں ہوگی،وہ تاجر جنہوں نے کبھی ٹیکس نہیں دیا انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سکیم متعارف کروا رہے ہیں۔ اس سکیم کے ذریعے حکومت کا کوئی نقصان نہیں ،اس میں فائدہ ہی ہے۔ سمگلنگ روکنے کے لیے بہت سے اقدامات کئے، پاکستان میں معیشت کو سیاست سے الگ کرنا ہوگا۔

تحریک انصاف کے سنیئر رہنما نے مجھ سے خود بات کرتے ہوئے کہا کہ ایمنسٹی سکیم اچھی متعارف کرائی ہے۔ پیپلز پارٹی، ن لیگ، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی کے تاجر بھی ہیں جن کو سہولیات ملیں گی۔ تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ آرڈیننس نہ لائیں اسمبلی میں بل لائیں۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماء نوید قمر نے حکومت کی طرف سے پیش کئے جانیوالے بل کو فوری منظور سے رکوا دیا اور سپیکر نے اسے مزید غور کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے تاجروں کو مراعات دینے کا پیکج اور مالیاتی اداروں (محفوظ ٹرانزیکشن) بل 2016 قومی اسمبلی میں پیش کر دئیے۔ موخرالذ کر بل کو تفصیلی غور اور رپورٹ کے لئے متعلقہ قائمہ کو بھیج دیا گیا۔تارجروں کو مراعات دینے کے لئے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی مختلف شقوں میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔ تاجر (نان فائلرز) جس نے 31 دسمبر 2015 ء سے 10 سال قبل تک کوئی گوشوارہ داخل نہ کرایا ہوا سے بعض شرائط کے ساتھ روکنگ سرمایہ ایک فیصد ٹیکس کے ساتھ ظاہر کرنے پر چھوٹ دیدی گئی۔

ٹیکس سال 2015 میں سرمایہ ظاہر کرنے اور گوشوارہ داخل کرنے والے تاجر کو آئندتین سال تک آڈٹ سے مشروط استثنیٰ دیا جائیگا۔ ٹیکس سال 2016 کا گوشوارہ داخل کراتے ہوئے تاجر کو 2015 میں ظاہر کردہ اپنے ورکنگ سرمایہ سے کم سے کم تین گنا زائد ٹرن اوور بتانا ہوگی۔ تاجر ٹیکس سال 2017 اور 2018 میں اس طرح ٹرن اوور ظاہر کرے گا ۔ جس پر ادا کردہ ٹیکس اس سے قبل کے سال میں جمع کرائے گے ٹیکس سے 25 فیصد زائد ہو۔

تاجروں پر ٹرن اوورٹیکس لگایا گیا ہے۔جہاں ٹرن اوور 5کروڑ تک ہو ٹیکس کی شرح 0.20 فیصد ہو گی۔ 5کروڑ روپے سے زائد اور 25 کروڑ تک ایک لاکھ روپے کے علاوہ 5 کروڑ روپے سے زائد ٹرن اوور کی رقم پر 0.15 فیصد ٹیکس لیا جائے گا۔25 کروڑ روپے سے زائد کی ٹرن اوور ظاہر کرنے والے تاجر کو 4 لاکھ روپے بمعہ 25کروڑ روپے سے زائد ٹرن اوور پر 0.1 فیصد کے مساوی ٹیکس دینا ہوگا۔

ایسے تاجر اس سکیم میں شامل نہیں ہو ں گے جن کی آمدن تجارتی سرگرمیوں کے علاوہ ہے سکیم سے استفادہ کرنے والے تاجر ودہولڈنگ کی کسی ایڈجسٹمنٹ کے بھی اہل نہیں ہوں گے ار نہ ری فنڈ کلیم کر سکیں گے۔ایسے تاجر جنہوں نے 2015 میں تو سکیم سے استفادہ کر کے ریٹرن داخل کرایا تاہم سال 2016 ،2017 اور 2018 کے ریٹرن داخل نہ کرائے وہ 2015 تا 2018 تک اس سکیم کے ثمرات کے اہل نہیں ہوں گے۔

تاجر کو ریٹرن داخل کراتے ہوئے اپنا فون ، ای میل ایڈریس، موبائل فون نمبر ورکنگ ٹرن اوور بتانا ہو گی۔ ایسے تاجر جو اب تک ٹیکس نیٹ میں نہیں اپنا 5 کروڑ روپے (50 ملین روپے) تک کا ورکنگ سرمایہ ظاہر کر سکیں گے اور ظاہر کر دہ سرمایہ کے ایک فیصد کے مساوی ٹیکس ادا کر کے اپنے سرمایہ کو قانونی بنا سکیں گے۔اس طرح 5کروڑ تک کا کالا دھن سفید بنانے کی اجازت دیدی گی ہے۔

سرمایہ ظاہر کر دینے والے تاجر کو 2015 میں ایک فیصد ٹیکس دینے کے بعد آئندہ برسوں میں ٹرن اوورٹیکس دیدیں یا اپنی آمدن ظاہر کر کے اس پر مقررہ شرح سے انکم ٹیکس ادا کر دیں تاہم شرط ہو گی ان دونوں میں سے جس میں زیادہ ٹیکس بنتا ہے وہ ادا کردیں۔بل لانے کی وجوہات میں کہا گیا ہے کہ تاجروں کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ٹیکس کے امور کو باضابطہ بنالیں۔

ٹی وی کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں انکم ٹیکس ترمیمی بل 2016 پیش کیا جسے متعلقہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ 31 جنوری 2016 تک گوشوارے جمع کرانے پر گزشتہ 4سال کی آمدنی کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا۔ سالانہ ٹیکس گوشواروں کی بھی چھوٹ حاصل ہو گی۔ 2016 سے 2018 کے دوران ٹراوورٹیکس ریٹس مختلف ہوں گے۔ فائلر بننے کے بعد ٹیکس کی شرح بتدریج کم ہوتی جائے گی۔

پانچ سے 25کروڑ روپے ٹرن اوور پر ایک لاکھ روپے فکسڈ بھی ہوگا۔25 کروڑ روپے تک ٹرن اوور پر 4لاکھ فکسڈ دینا ہوگا۔ 25کروڑ روپے سے اضافی بل پر ٹیکس کی شرح 0.10 فیسصد ہوگی۔ وفاقی حکومت نے ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے اور غیر رسمی معیشت کو باقاعدہ بنانے کے لیے رضا کارانہ ٹیکس ادائیگی سکیم کا اعلان کیا ہے جو صرف کاروباری برادری کے لیے ہوگا اس سکیم کے تحت کالا دھن سفید ہو جائے گا۔

یہ اعلان گزشتہ روز وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت ایک تقریب میں کیا گیا جس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور تاجر برداری کے نمائندے بھی شریک تھے۔ سیکم کے تحت ”نان فائلرز“ کو اپنا سرمایہ ظاہر کرنے کی اجازت دیدی گی ہے جنہیں پانچ کروڑ روپے تک کا سرمایہ ظاہر کرنے پر یاک فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا جس کے بعد انکے سرمایے کو قانونی تحفظ مل جائے گا ۔

اس سکیم کے تحت تاجروں کو ٹرن اوورٹیکس ادا کرنا پڑیگا جبکہ ٹیکس نیٹ میں موجود فائلرز بھی اس سکیم سے فائدہ اٹھا سکیں گے تاہم قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اس سکیم سے استفادہ نہیں کر سکیں گے۔ اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والے آڈٹ اور دس لاکھ روپے تک آمدن پر ویلتھ سٹیٹمنٹ داخل کرانے سے متثنیٰ ہو نگے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت کی ٹیکس ایمنسٹی سکیم ایمانداروں پر ٹیکس ہے ہم اسکی مخالفت کردینگے ایل این جی اربوں ڈال کا معاہدہ ہے مگرکسی کو کچھ بھی نہیں بتایا جا رہا ۔

پاکستان بھارت وزرائے اعظم ملاقات خو ش آئند ہے یہ ملاقاتیں جندال نے کرائی ہیں تو وزارت خارجہ کا کیا کردار ہے وہ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کر رہے تھے، عمران خان نے کہا کہ راہداری روٹ، ایک این جی منصوبے کی تفصیلات سامنے لائی جائیں، انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف میں بہت جلد انٹراپارٹی الیکشن ہونگے، حکومت اقتصادی راہداری منصوبے کو متنازعہ بنا رہی ہے، عمران خان نے کہا کہ دنیا میں کونسا نظام ہے کہ انصاف لینے ڈائی سال لگتے ہیں ،ڈھائی سال کی جدوجہد کے بعد ہم نے کامیابی حاصل کی، انہوں نے کہا کہ موجودہ الیکن کمیشن شفاف انتخابات نہیں کرا سکتا ۔

جب کسی کو سزا نہیں ملے گی تو لو گ قانون توڑتے رہیں گے۔ عمران خان نے کہا جہانگیر ترین نے انصاف کے حصول کے لیے 2کروڑ روپے خرچ کئے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ شوکت خانم ہسپتال میں ہر سال 40سے 50 افغان شہریوں کا اعلاج ہو تا ہے، علاج سے پہلے یہ نہیں پوچھتے کہ اس کا تعلق کس مذہب یا ملک سے ہے ۔پتہ کروایا جائے۔ اسامہ بن لادن نے بے نظیر کو حکومت سے اتارنے کے لیے کس کو پیسے دیئے تھے خیبر پی کے ک تمام جماعتیں اقتصادی راہداری کے خلاف ہیں۔

اقتصادی راہداری کو کالا باغ ڈیم کی طرح متنازع بنایا جا رہاہے ،حکومت کی ایمنسٹی سکیم ایمانداری پر قبضہ، چوروں کے بچاوٴ اور اپنوں کو نواز نے کے لیے ہے۔ اس کی بھر پور مخالفت کریں گے۔ نظام کو ٹھیک کیے بغیر ملک آگے نہیں بڑھے گا، انہوں نے کہا کہ حکومت نے پاک چین اقتصادی راہداری پر اعتماد میں نہیں لیا ٹیکس سیکم سے بلیک کے لیے والوں کو پیسہ سفید کرنے کا موقع دیا گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ نواز مودملاقات وزیراعظم کے بزنس پارٹنر جندال نے کرائی۔ دفتر خارجہ کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں۔ جب تک ملاقات میں دفتر خارجہ شامل نہیں ہوگا تو ایسی ملاقاتوں سے نہ مسائل حل ہوں گے نہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئیگی۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اقتصادی بنیادیں مستحکم کرنا کسی حکومت کی ترجیح اول نہیں رہا اور طاقت واختیار کو ہمیشہ قومی وسائل اور سرکاری خزانے کی لوٹ مار کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔

اس روش کے باعث ہی حکمرانی اشرافیہ طبقات کے ہاتھوں بے وسیلہ عام آدمی زندہ درگور ہوا ہے جبکہ دریغ لوٹ مار کے آگے کوئی بند نہ باندھے جانے کے نتیجے میں معاشرہ کرپشن کلچر کی زد میں آیا جس میں میرٹ کا جنازہ بھی نکلا اور قانون وانصاف کی عملداری کا تصور بھی مفقو ہوتا گیا۔ آج تک حکمران طبقات کی جانب سے منتخب فورموں پر اپنی لوٹ مار، غلط کاریوں اور غلط بخشیوں کو قانونی اور آئینی تحفظ دینے کے اقدامات ہی اٹھائے جاتے رہے ہیں نیتجتاََ ہمارا معاشرہ غیر متوازن ہو کر تباہی کے دہانے تک آپہنچا ہے جس میں موجود گورننس کی کمزوروں کے باعث ہر قسم کی سماجی برائی نے گھر کر لیا ہے۔

چنانچہ مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات قوانین توڑنے اور خاطر میں نہ لانے کے عمل میں بھی ذہنی لذت محسوس کرتے ہیں۔ یقینا اس سوچ نے ہی یہاں قانون شکنی کا کلچر استوار کیا جبکہ وسائل سے محروم اور اقتصادی ناہموار یوں کا شکار طبقات ہر قسم کے استحصال کی زد میںآ تے ہیں اور کسی قانون کو مجبوراََ توڑنے کی سزا بھی وہی بھگتے ہیں۔قومی ٹیکسوں کا سارا بوجھ بھی انہی کے سر پر آگرتا ہے اور انصاف تک راسائی بھی ان کے لیے ہی مشکل بنی رہتی ہے۔

ہمارا یہ المیہ ہے کہ حکومتی گورننس اور متعلقہ اداروں کی قانونی گرفت کمزور ہونے کے باعث یہاں، جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا تصور پختہ ہوا اور طاقت واختیار کے اداروں میں پہنچنے والے لوگوں نے طاقت واختیار کو فلاحی ریاست کی تشکیل کیلئے استعمال کرنے کے بجائے اسکے ذریعے اپنے طبقات کے مفادات کے تحفظ کی راہ اپنا لی نتیجتاََ قومی وسائل لٹتے رہے اور قومی خزانہ خالی ہوتا رہا جبکہ جائز، ناجائز ذرائع سے دھن دولت کے ڈھیر لگانے والے طبقات نے اپنی ساری دولت پر واجب الادا ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے سے کے بھی جائز نائز راستے نکال لئے۔

ان طبقات میں منتخب فورموں میں بیٹھے قوم کے نمائندگان کے علاوہ تاجروں، وکلاء، ڈاکٹروں، جاگیرداروں، صنعتکاروں اور دوسرے کاروباری طبقات کی کثیر تعداد شامل ہے۔یہ طبقات اپنی عددی اقلیت کے باوجود اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ اپنے مفادات پر زدپڑتی دیکھ کر قانون وانصاف کا رخ موڑ سکتے ہیں اور حکومتوں تک الٹا سکتے ہیں جبکہ ملک کی اکثریتی آبادی جو مفلوک الحال ہے اور خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر ری ہے، وہی ہمارے ٹیکس کلچر کے سب سے زیادہ شکنجے میں آتی ہے ۔

جن سے جبری طور براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس وصول کرنا آسان ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ٹیکس نیٹ کا دائر وسیع کرنے اورٹیکس کلچر فروغ دینے کا عزم باندھا جس کا وہ اپنی ہر بجٹ تقریر میں اعلان واعادہ کرتے ہیں مگر ہو ٹیکسوں کی وصولی کے ناقص نظام کی اب تک اصلاح نہیں کر پائے چنانچہ انکی جانب سے ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کیا گیا ہے تو مفلوک الحام عوام کی اکثریت ہی اسکی زد میں آئی ہے جبکہ مراعات یافتہ طبقات کے لیے آج بھی ٹیکس چوری اور اپنی آمدنی ووسائل چھپائے رکھنے کے راستے کھلے ہوئے ہیں۔

اب کالا دھن سفید کرنے کا قانون درحقیقت انہی طبقات کے لیے لایا جا رہاہے جو اپنی دولت چھپانے اور ٹیکس چوری کرنے کے عادی مجرم ہیں اس لیے خطرہ یہی ہے کہ اپنی من مانیوں اور ہوس پرستیوں کے باعث یہ طبقات ٹیکس وصولی کے باعث یہ طبقات ٹیکس وصولی کے اس سسٹم کو بھی ناکام بنا دینگے اور جبری ٹیکسوں کے ذریعہ قومی بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کی ساری ذمہ داری پھر بے وسیلہ اور مجبور ومقہور طبقات پر ہی آن پڑیگی۔

ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے یقینا ٹیکس کلچر کو فروغ دینے اور مربوط بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے حکومتی ریاستی اٹھارٹی کو بے لاگ اور سخت اقدامات اٹھانا ہونگے اگر کالا دھن سفید کی پالیسی سے فائدہ اٹھا کر اس معاشرے کی اشرافیہ قانون کی نگاہوں سے چھپائے گے اپنے دھن دولت کے ذخائر بارہ لے آتی ہے اور ان پر لاگو ہونے والا ٹیکس اداکرنے کا کلچر اپنا لتی ہے تو ملک کے اند ہی اتنی دولت اور وسائل موجود ہیں کہ انکی مدد سے ملک کو فی الحقیقت ایک خوشحال و آسودہ فلاحی ریاست میں تبدیل کریاجا سکتا ہے۔

اگر اسکی ابتدا حکمران اشرافیہ طبقات کی جانب سے ہو گی تو اس سے ایڑیاں رگڑتی ہماری معیشت میں زندگی کی نئی لہر دوڑ جائیگی۔ تاہم ٹیکس وصولی کا یہ رضا کارانہ سسٹم اسی صورت کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے جب اپنا دھن دولت چھپائے رکھنے کے عادی طبقات اس رعایت سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے تو لازمی طور پر قانون کی پکڑ میں آجائیں گے۔ بصورت دیگر قانون کی کی گرفت کے خوف سے آزاد طبقات رضا کارانہ طور پر قانون کی پابندی کی درش کبھی اختیار نہیں کرینگے۔ اس قانون کایقینا عام آدمی کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا مگر اس قانون کی ناکامی کا بوجھ بھی اب عام آدمی پر ڈالنے سے بہر صورت گریز کرنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Taajiron Par Turn Over Tax Laagu is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 January 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.