تعلیم کے بوجھ سے ہلکان بچے

سخت تعلیمی مقابلہ بچوں سے معصومیت چھین رہا ہے

جمعرات 11 اگست 2016

Taleem K Bojh Se Halkaan Bachay
پچھلے سال ہونیوالی ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان ” تعلیم سب کیلئے“ کاہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اسامہ کلاس چہارم کا طالب علم ہے۔ ایک دن وہ سکول گیا تو واپسی پر گھر نہ آیا۔ اس کے والدین کو شدید پریشانی لاحق ہوئی۔ڈھونڈتے ڈھونڈتے آخر کارشام ہوگئی۔ پھر کسی نے بتایا کہ اس نے اسامہ کو سپرمارکیٹ کے سامنے بیٹھا ہوا دیکھا گیا ہے۔

والدین بھاگم بھاگ جب وہاں پہنچے تو دیکھا اسامہ ایک دیوار کیساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔ ماں نے اسے دیکھتے ہی بانہوں میں لپٹا لیاوالد نے بھی پیار کیااور اسے گھر لے آئے۔ والدین حیران تھے کہ اسامہ نے یہ قدم کیوں اٹھایا ہے۔ اسامہ تو ایک بہت ہی تابعدار بچہ تھا۔ روزانہ باقاعدگی کے ساتھ سکول اور اکیڈمی جاتا تھا۔

(جاری ہے)

کبھی والدی کو پریشان نہ کیا۔

پھر ایسا کیاہوا کہ وہ سکول سے گھر آنے کی بجائے ادھر اُدھر آوارہ گھومتا رہا۔ والدین نے جب اسامہ سے دریافت کیاتو معلوم ہوا کہ ہسٹری کی ٹیچر نے ٹیسٹ لیاتھا جس میں اچھے نمبر نہ آنے پر وہ خوفزدہ تھا۔ یہی سوچ کر اس نے گھر نہ جانے کافیصلہ کیا۔ یہ واقعہ والدین کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔یہ صرف اسامہ کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ہمارے سارے تعلیمی نظام کابھی مسئلہ ہے۔

ہمارا تعلیمی نظام غریب کیلئے بوجھ بنتا جا رہا ہے اور بچوں کو تعلیم سے بیزار کررہاہے۔ حالانکہ تعلیم کا مقصد توبچوں کو سنوارنا اور بہتر مستقبل سے سرفراز کرنا ہے۔ یہاں پہیہ التا گھوم رہاہے۔ آج اتنا بچے کاوزن نہیں ہوتا جتنا کہ بیگ کاوزن ہوتا ہے۔ معصوم بچے کیلئے کندھوں پر بھاری بیگ اٹھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان بھاری بیگز کی وجہ سے جہاں بچے کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوتا جارہا ہے وہیں اس سے بچے کے گھنٹے اور ریڑھ کی ہڈی بھی متاثر ہوتی ہے۔

بھاری بیگز کے پیچھے سب سے بڑی وجہ آجکل تعلیم میدان میں سخت مقابلہ ہے۔ تمام والدین چاہتے ہیں کہ انکا بچہ سب سے آگے نکل جائے۔ بچے توویسے ہی بہت زیادہ جذباتی ہوتے ہیں۔ وہ ہر حال میں اچھا رزلٹ کارڈ دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کیلئے خواہ انہیں بھاری بیگ یا ٹیوشن کیلئے طویل عرصے بیٹھ کر اکتاہٹ کاشکار ہونا پڑے۔ والدین کو صرف رزلٹ چاہئے بلکہ اب تو بچوں کو اتنی چھوٹی عمر میں سکول داخل کرادیا جاتا ہے کہ انہیں فیڈر تھما کرسکول بھیجا جاتا ہے۔

کم عمر بچوں کے تعلیمی ادارے یہ کہہ کر والدین کی تسلی کرتے ہیں کہ ان کا زیادہ وقت کھیل کو دکیساتھ تعلیم حاصل کرنے میں گزرے گا۔ مگر در حقیقت ایسا نہیں ہوتا بلکہ زیادہ وقت بچے کلاس روم میں بیٹھ کرگزارتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سخت بوریت اور تھکاوٹ کاشکار ہوجاتے ہیں۔ والدین اس بات پر بہت خوش ہوتے ہیں کہ انکابچہ سکول جا اور سکول سے آرہاہے۔

بچہ خواہ رورہ کرہلکان ہوجائے۔ اگلے روز اسے دوبارہ سکول بھیجا جاتا ہے۔ بلاشبہ والدین بچے کے سب بڑے خیرخواہ ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے رویے میں تھوڑی سی نرمی پیدا کرنی چاہئے۔ بچے کو بلاوجہ سکول داخل کرنے کی جلدی نہ کریں۔ بچے کو کم ازکم 4سال کی عمر میں سکول بھجوانا چاہئے۔ اکثر دیکھا گیا کہ کم عمر بچوں کو سکول بھجوانے کے نتائج زیادہ بہتر سامنے نہیں آئے۔

آج سخت تعلیمی مقابلے کے فضانے بھی ایک اور خرابی کو جنم دیا ہے جس نے بچوں کی معصومیت چھین لی ہے اور وہ ہے سارا دن پڑھائی میں جتارہتا ہے۔ سکول آکر مولوی صاحب سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرتا ہے اور پھر ٹیوشن چلاجاتا ہے۔ صبح سے لیکر رات تک اتناتھک چکا ہوتا ہے کہ اس میں کھیلنے کی ہمت ہی نہیں رہتی اور وہ رات کاکھانا کھا کر سوجاتا ہے۔ یہ بات نہ صرف والدین بلکہ اساتذہ کو بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ بھاری بستے کا بوجھ طویل پڑھائی سے تنگ آکر اسامہ کی طرح بچے سکول کے بعد کیسے گھر آئیں گے۔

پڑھائی سے فرار کیلئے وہ ایسی ہی تدبیریں سوچیں گے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر فرواہ کا کہنا ہے کہ بچوں میں اظہار خیال کی قوت کم ہوتی ہے۔ وہ یہ بتانے سے قاصر ہوتے ہیں کہ پڑھائی کے بوجھ تلے دے جا رہے ہیں۔ یہ چیز بھی قابل غور ہے کہ اکثر والدین جب امتحان قریب آتے ہیں تو بچے پر پڑھائی کا بوجھ بڑھا دیتے ہیں جبکہ عام دنوں میں وہ ان کی پڑھائی سے صرف نظر کرتے ہیں۔

اگر ان پر توجہ دیکر روز کاکام روز کروالیا جائے تو پڑھائی کا بوجھ نہیں پڑے گا۔ تعلیمی ماہرین کاکہنا ہے کہ والدین کو بچوں کو ساتھ کچھ وقت ضرور گزارنا چاہئے تاکہ انہیں یہ سمجھنے میں مدد مل سکے کہ انہیں کس طرح کے مسائل پیش آرہے ہیں اور انہیں کیسے حال کرنا ہے۔ والدین جب بچوں کے ساتھ معقول وقت گزاریں گے تو انہیں پتہ چلے گا کہ انکا بچہ کس مضمون میں کمزور ہے۔

والدین کا یہ رویہ کہ میرا بچہ سب سے بہتر ہو اور دوسرے بچوں کے مقابلے میں سب سے آگے ہو۔ یہ رویہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ والدین کو چائے کہ جس طرح بچے کی پڑھائی کافکر کرتے ہیں۔ انہیں بچوں کے کھیل کوداور آرام کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ اگر کسی مجبوری کے تحت والدین کے پاس بچے کے ساتھ وقت نہیں گزارسکتے ہیں تو پھر کسی اور کی ڈیوٹی لگائیں جو بچے کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ بچے کے مسائل سمجھے اور انہیں والدین کے ساتھ ڈسکس کرے۔


والدین کی اہم ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ گاہے بگاہے بچے کے اساتذہ کے ساتھ ملتے رہیں یوں ان کے مسائل حل ہوتے رہیں۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس کا تعلیمی نظام مسائل کاشکا رہے۔ جہاں گھوسٹ سکولوں اور گھوسٹ اساتذہ کی تعداد سوچ سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکوکی 2010ء کی ایک رپورٹ میں دنیا کے بدعنوان محکمہ تعلیم کے حامل ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پرتھاا ور 2015 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو 2015 ء تک تعلیم سب کے لئے “ کا اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔

ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا میں تعلیمی شعبے کو ہمیشہ سرفہرست رکھاجاتا ہے۔ ہرسال مختص تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیاجاتا ہے مگر ہمارے ہاں اس حوالے سے ابھی تک اتنا شعور بیدار نہیں ہوسکا حکمرانوں کویہ شعور آنے تک معاملہ پٹڑی پر نہیں چڑھ سکتا۔ نئی نسل روز بروز حکمرانوں کی تعلیم سے چشم پوشی کی وجہ بدظن ہوتی جارہی ہے۔ دوسری جانب تعلیم یافتہ بے روزگار بھی ہمارے تعلیمی نظام کا منہ چڑھانے کیلئے کافی ہیں۔

مگر افسوس ہم ابھی اس کہاوت کوسمجھنے کے قابل نہیں ہوسکے۔ ہمارے حکمران ابھی اتنے میچور نہیں ہوئے کہ تعلیمی نظام کیلئے منصوبہ بندی کرسکیں۔ دوسری طرف ہمارے والدین بھی اتنے میچور نہیں ہوئے کہ اپنے بچوں کے تعلیمی مسائل حل کرسکیں۔ ایسی صورتحال میں یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ ہمارے نونہالوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور ہم اپنی مدد آپکے تحت ان کے مسائل کریں والدین کے ساتھ اپنے مسائل کو ضرور ڈسکس کریں ۔ اساتذہ کے ساتھ دوستی کریں اور انکی مدد سے اپنے تعلیمی مسائل حل کروائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Taleem K Bojh Se Halkaan Bachay is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 August 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.