ٹرمپ کی افغان پالیسی سے قیام امن کی کاوشوں کو شدید دھچکا!

امریکہ اور بھارت کی افغانستان میں اسلحے کا ڈھیر لگانے کیلئے نئی منصوبہ بندی طالبان کو کچلنے کیلئے ڈیڑھ سو جدید بلیک باکس جنگی ہیلی کاپٹر فراہم کئے جائیں گے

جمعرات 28 ستمبر 2017

Trump Ki Afghan Palici Sy Qayam Aman  Ko Shdeed Dhachka
محمد رضوان خان:
افغانستان کے بارے میں ڈرمپ انتظامیہ کی پالیسی میں جس طرح پاکستان کے خلاف جارحانہ انداز اپنایا گیا تھا اس کے اثرات دھیرے دھیرے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستان نے ردعمل میں نئے دوستوں سے دوستی گاڑھی کرنا شروع کردی ہے تو دوسری طرف سرحد پار توقعات کے عین مطابق امریکہ اور بھارت دونوں ہی افغانستان کی ناز برداری میں جت گئے ہیں، اس ناز برادری میں افغانستان کو دونوں اسلحہ فراہم کررہے ہیں ۔

امریکہ کو افغانستان کی فتح کا میڈل اپنے سینے پر سجانا ہے تو بھارت کی سرتوڑ کوشش ہے کہ پاکستان پر مغربی سرحد سے بھی دباؤ بڑھایا جائے، یوں اس مثلث میں پاکستان دشمنی مشترک ہے جس میں افغانستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے عوام کے براہ راست مفادات پاکستان میں اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی حکومت پاکستان کی مخالفت میں چاہنے کے باوجود ایک حد سے آگے نہیں جاسکتی، یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی سول اور عسکری قیادت سرحد کی دیکھ بھال کیلئے مشترکہ ورکنگ گروپ جیسی تجاویز پاکستان کے ساتھ اتفاق بھی کررہی ہے اور ساتھ ہی بھارت اور امریکہ سے اسلحہ بھی حاصل کررہی ہے۔

(جاری ہے)

افغانستان اور بھارت کی یہ قربت اس قدر بڑھ رہی ہے کہ خود پاکستان میں افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر ذاخیلو ال کو اپنی حکومت سے یہ مطالبہ کرنا پڑگیا کہ ” افغانستان کوچاہیے کہ وہ پاکستان کو یقین دلائے کہ اس کے بھارت کے ساتھ تعلقات پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں ہیں“۔ افغانستان کے سفیر کی جانب سے اس قسم کی بات ایک ایسے موقع پر کی گئی جب ہندوستان اور افغانستان کے درمیان حال ہی میں سکیورٹی تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے اس مفاہمت کے تحت دونوں ملک دہشت گردی،منظم جرائم ، منشیات کی سمگلنگ اور منی لانڈرنگ سے نمٹنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔

، یہ مفاہمت افغانستان اور بھارت کے وزراء خارجہ صلاح الدین ربانی اور سشما سوراج کے درمیان دہلی میں طے پائی، مفاہمت کے بعد جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ بھارت افغان فوجیوں کو اپنی فوجی اکیڈمی میں تربیت دیتا ہے اور معرکہ آرائی کے حامل ہیلی کاپٹر کی رسد فراہم کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا جبکہ اب افغان دفاعی افواج کا اضافی اعانت فراہم کی جائے گی، مذکورہ مفاہمت کے تحت نئے ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد میں بھی بھارت افغانستان کو مدد دے گا۔

حیران کن بات یہ کہ ایک طرف تو عمر ذاخیلوال یہ بات کہہ رہے کہ افغان حکومت بھارت کے مفادات کی خاطر کبھی پاکستان کو نیچا نہیں دکھائے گی تو دوسری طرف ان کے وزیر خارجہ نے بھارتی حکومت سے بڑی شدت سے یہ تقاضا بھی کیا ہے کہ بھارت ایران کی چاہ بہار پورٹ کے تعمیراتی کام کو جلد مکمل کرے تاکہ وہاں سے افغانستان کیلئے سامان منگوایا جاسکے۔افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کے اس تقاضے کا مطلب یہ تھا کہ چاہ بہار کی بندرگاہ جس کو بھارتی وزیراعظم مودی نے کہاتھا کہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے وہ سی پیک کے مقابلے میں چاہ بہار کو ”اپ گریڈ“ کریں گے۔

اس بندرگاہ کے آپریشنل ہونے سے افغانستان اپنا سامان پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے وسطی ایشیا ء تک بھیج سکتا ہے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ کے بارے میں اس قسم کے تقاضوں کے باوجودافغان سفیر کی پاکستان سے محبت کا دم بھرنا اچھی سفارتکاری تو ہوسکتی ہے لیکن کسی بھی طور افغانستان حکومت کی ترجمانی نہیں ہوسکتی جس کے وزیر خارجہ چاہ بہار رپورٹ بھارت کی تمنا اس لئے کر رہے ہیں کہ وہ اس طرح بھارت سے پاکستان کے بغیر سمندر کے ذریعے افغانستان کو اشیاء منتقل کرسکیں، بات اگر یہیں تک محدود رہتی تو بھی خیر تھی لیکن افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے بھارت سے جون میں دونوں ممالک کے درمیان متعارف کرائی گئی ایئر فریٹ کوریڈور (فضائی تجارتی روٹ) میں توسیع کرنے کا تقاضا بھی کر ڈالا جس کا مقصد انڈین مارکیٹں میں افغان اشیاء کی منتقلی ہے۔

بھارت سرکار کا منہ اس طرح بند کردیا ہے کہ بھارت اور افغانستان نے نئی تعمیراتی شراکت کو مشترکہ طور پر منظور کرلیا ہے، اس منظوری کے بعد افغانستان اور ہندوستان مستقبل میں 100 نئے تعمیراتی منصوبوں پر مل کر کام کریں گے۔ افغانستان کی تعمیر نو میں پاکستان کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے لیکن افغان حکومت سب کچھ دہلی کی گود میں ڈالنے کو تیار ہے اور اس پر مستزادیہ کہ پاکستان میں افغان سفیر فلسفیانہ انداز میں استدلال پیش کرتے ہیں کہ افغان اور پاکستان دونوں ممالک نے اپنے دوطرفہ تعلقات کو بگاڑنے میں کردار ادا کیا ہے۔

افغانستان نے خزاب تعلقات میں یوں کردار ادا کیا کہ اس نے بھارت اور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن نہیں رکھا جو غلط تھا تو دوسری جانب پاکستان میں ریاستی ادارے عوام سے عوام کے تعلقات ، تجارت اور سرحد کی بندش وغیرہ میں مداخلت کررہے ہیں ۔ افغان سفیر نے مزید کہا کہ پاکستان جہاد میں ملوث رہا ہے اور اس کا خیال تھا کہ کا بل کی حکومت کو احکامات جاری کرنا درست اقدام ہے، لیکن یہ حکمت عملی درست ثابت نہیں ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ ہم نے دوطرفہ تعلقات سدھارنے کے لئے چین اور امریکہ پر بھروسہ کیا لیکن کبھی ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کیا۔زاخیلوال یا افغانستان کی دیگر اشرافیہ کو مطمئن کرنے کیلئے اب ماضی کی طرح آنکھیں بند کرکے پاکستان ے ہر سطح پر بات کہہ دی گئی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں جتنا حصہ ڈالنا تھا ڈال لیا اب دنیا کی باری کہ وہ اپنا فرض پورا کرے۔

پاکستان کی طرف سے یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ افغان جنگ کو اپنی سرزمین پر نہیں لاسکتے، یہ بہت واضح پیغام ہے لیکن کیا افغانستان اس کو سمجھ پارہا ہے کہ نہیں؟ ، اس سوال کا جواب نفی میں ہی دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ نئی افغان پالیسی کے بعد امریکہ اور ہندوستان دونوں ہی نے افغانستان کو اسلحے کا ڈھیر بنانا شروع کردیاہے، اس ضمن بھارت نے حالیہ دنوں میں افغان فوج کو اضافی اعانت فراہم کرنے کا عندیہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خانہ جنگی سے متاثرہ افغانستان کو نہ صرف اسلحہ دے گا بلکہ اس سلسلے کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔

بھارت کی طرف سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ وہ افغانستان کو حتی الوسع دفاعی اعانت فراہم کرے۔ بھارت کی یہ پھرتیاں اس بناء پر بھی ہیں کہ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا تو انہوں نے بھارت کو گویا افغانستان میں اپنا غیر اعلانیہ جان نشین قرار دے دیا تھا، جس میں ٹرمپ نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا کردار بڑھائے۔

بھارت کیلئے ٹرمپ کا بیان اس وقت تو مبہم دکھائی دے رہا تھا لیکن وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ اب معاملات سامنے آرہے ہیں۔ بھارت کی یہ خواہش ہے کہ امریکہ اپنا بوریا بستر لپیٹ کر افغانستان کو چھور جائے تاکہ امریکہ کے بعد وہ افغانستان کے امور اس کے ہاتھ لگ جائیں لیکن اب کی بار ایساہوا اور امریکہ نے پہلے ہی سے ہی گویا بھارت کو پیشکش کردی ہے کہ وہ افغانستان میں امریکہ کے نائب کے طور پر کام کرے گا، اس غیر اعلانیہ ”اعزاز“ کی وجہ سے بھارت بھی افغانستان کو اسلحہ دے گا، تاہم اس کی تفصیل خفیہ رکھی جارہی ہے ، اس اسلحے کو دینے کیلئے یہ استدلال پیش کیا جارہا ہے کہ افغانستان میں حکومت کو مسلسل طالبان جنگجووں کی بغاوت کا سامنا ہے جنہوں نے کافی علاقے پر قبضہ جمارکھا ہے ، اس صورتحال میں افغانستان کا ردعمل بہت دلچسپ ہے بھارت افغانستان کو سازوسامان کی رسد اور اپنی استعداد بڑھانے کے سلسلے میں ہر وقت تیار رہتا ہے لیکن افغانستان اس امداد کو تذبذب کی کیفیت میں قبول کرتا رہا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دونوں ممالک کی افواج میں تقابل کیا جائے تو پاکستان کی فوج زیادہ پیشہ ورانہ صلاحیت کی مالک ہے ، یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ افغانستان کی فوج کی تربیت بھارتی فوج نے کی ہے جس کا سٹینڈرڈ یہ ہے کہ افغان فوج ایک عشرے سے طالبان کے ساتھ برسرپیکار ہے لیکن یہ فوج طالبان کو کیا زیر کرے گی اس فوج میں اتنی صلاحیت بھی نہیں کہ افغان حکومت کی عملداری کابل سے آگے بڑھا سکے ۔

افغانستان کی ساری اشرافیہ اپنی فوج کی نااہلی سے واقف ہے لیکن اس کے باوجودوہ اسلحہ سمیٹ رہی ہے تا ہم حکومتی ذمہ داران یہ حقیقت بھی جانتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں بڑھتے ہوئے ہندوستانی کردار کا مخالف ہے۔ افغان حکومت کو ان باریک بینیوں کو کسی نہ کسی سطح تک اس کا خیال اس وقت کرنا پڑے گا جب تک لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں۔

پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین کی موجودگی کے باوجود اگر ایک طرف بھارت افغانستان کو اسلحہ فراہم کررہا ہے تو دوسری طرف امریکہ نے بھی افغان فضائیہ کو مضبوط کرنا شروع کردیا ہے جس کے تحت امریکہ نے بھی افغان فضائیہ کو 150 جدید بلیک باکس طیارے دے گا، اس سلسلے میں 6 بلیک باکس رواں ہفتے افغانستان کے حوالے کردیئے جائیں گے۔ افغان حلقوں کے مطابق جدید جنگی بلیک باک روسی ساختہ MI-37 اور MI-35 ہیلی کاپٹرز کی جگہ لیں گے، ان جدید جنگی ہیلی کاپٹرز کا طالبان کے خلاف فضائی آپریشن میں استعمال کیا جائے گا اور نئی حکمت عملی بھی اسی بنیاد پر بنائی جارہی ہے کہ طالبان کے خلاف زیادہ سے زیادہ فضائی قوت استعمال کی جائے اور یہ حملے خودافغان فوجی کریں۔

یا د رہے کہ افغانستان میں فضائی آپریشن کے دوران بھی جنگی جہاز مار گرائے گئے جس کے بعد امریکی و نیٹو فوجی فضائی آپریشن سے بھی کترانے لگے ہیں۔ یاد رہے کہ طالبان نے بعض ایسے جنگی طیارے بھی مار گرائے جن کے بارے میں امریکہ کا دعویٰ تھا کہ انہیں نہیں گرایا جاسکتا۔ امریکہ کی یہ ساری خام خیالی دھری کی گھری رہ گئی اور اسی وجہ سے اب افغان فوجیوں کی قسمت کھل گئی کہ انہیں جدید جنگی ہیلی کاپٹر اڑانے کا موقع ملے گا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغان فوج کو ملنے والا نیا اسلحہ اس قابل ہوگا کہ اس کے ذریعے وہ متحارب دھڑوں کا فضائی آپریشن سے کچومر نکال دیں یا پھر معاملات اب بھی جوں کے توں ہی رہیں گے۔۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Trump Ki Afghan Palici Sy Qayam Aman Ko Shdeed Dhachka is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.