وہ اپنے ہی بچوں کی قاتل تھی

مجھے پھانسی دے دو، تختہ دار پرلٹکا دو بچوں کیساتھ اُس نے خود بھی زہر ملاکھاناکھایا مگر اُسے بچالیا گیا

بدھ 26 اکتوبر 2016

Wo Apnay Hi Bachon Ki Qatil Thi
نوشابہ اختر :
تھانے کے ایک کمرے میں موٹی موٹی سلاخوں کے پیچھے وہ سر گھٹنوں پر رکھے بیٹھی تھی ۔ ایک سگی ماں کیسے اپنے بچوں کی قاتل ہوسکتی ہے۔ اس تہرے قتل کی تہہ میں کون کون سے راز دفن تھے مجھے اس سے پردہ اٹھانا تھا۔ بڑی مشکلوں سے ملاقات کی اجازت ملی اور جب میں تھانے کے اس سلین زدہ کمرے میں اس کے قریب بیٹھی تو اس کی آنکھوں میں پھیلی مردنی دیکھ کرسرسے پاؤں تک لرز گئی ۔


مجھے تھوڑا سازہر لادوگی “ اس نے میرا ہاتھ اپنے برف جیسے ہاتھوں میں تھام لیا“ مجھے تو ان کے ساتھ ہی مرنا تھا۔ میں کیوں زندہ ہوں۔ اپنے تین بچوں کو مار کرسانس لے رہی ہوں نہیں میں زندہ تو نہیں یہ تو میری لاش ہے۔ سڑی بسی ‘ بدبودار‘ تعفن زدہ لاش جسے ہر گھڑی گدھ اور چیلیں نوچے جارہی ہیں۔

(جاری ہے)

وہ میرے سامنے سوگئے سکون سے سوگئے ۔

وہ تومزے مزے سے چوری کھارہے تھے اور میں نے بھی وہی چوری ان کے ساتھ کھائی پھر میں کیوں زندہ ہوں باجی میں کیوں زندہ ہوں ۔
میں نے اسے پانی پلایا۔ اتنابولنے کے بعد وہ جیسے تھک گئی تھی ۔ میں نے اسے دالاسادیا۔ جوبے معنی تھا رکھو کھلے الفاظ بے جان لب دلہجہ لیکن مجھے اس ظلم سے پردہ اٹھانا تھا ۔ جس نے اتنے بڑے تہرے قتل کے لئے عوامل تیار کئے تھے۔

آخر تم نے ایسا کیوں کیا۔ اگر تم مجھے اپنی زندگی کے متعلق سب کچھ بتا سکو تو تمہیں بھی سکون ملے گااور شاید کسی اور کابھلابھی ہوجائے گا۔
سکون بھلا نہیں باجی یہ سب کچھ کہیں بھی نہیں۔ میں شاید اس وقت خوش قسمت تھی کہ مجھ پر تیل چھڑک کے مجھے جلایا نہ گیا گیس کا کوئی چولہانہ پھٹا کہ میں اس کا نشانہ بن جاتی لیکن ہواؤں کا رخ بس اسی طرف رہااور پندرہ سال گرزرگئے اور آخر چولہا پھٹ گیا۔

وہ بہکی بہکی سی بول رہی تھی میں اس کی پندرہ سالہ ازدواجی زندگی کے لمحوں کی ریت چھاننا چاہ رہی تھی ۔
تمہاری شادی کیسے ہوئی ارم کسی سے ہوئی میں نے پہلا سوال اس کی طرف اچھالاتو وہ دھوپ چھاؤں کے امتزاج میں مسکرادی ۔
شجاع ہماری برادری کاہی تھا۔ میں اس کی پسند تھی۔ ماں جی اس کی شادی اپنی بھانجی سے کرنا چاہتی تھیں اور باباجی اپنے بھائی کی بیٹی سے لیکن شجاع کی ایک ہی ضد تھی ۔

چاچاامیر الدین کی بیٹی ارم مجھے پسند ہے بس آپ میری شادی اسی سے کروادیں۔ وہ بھی توہماری برادری کے لوگ ہیں۔ امیر نہ سہی اچھے عزت دار لوگ ہیں اعتراض والی کوئی بات ہے ہی نہیں ۔
کیوں نہیں وہ ہماری ٹکرکے لوگ نہیں ہیں نہ زمینیں نہ جائیداددیں گے کیا لڑکی کو چند جوڑے کپڑوں کے نہ ہمیں فقیرنی نہیں چاہئے آخر برادری میں ہماری عزت ہے او رپھر میراپت پڑھا لکھا وڈافسر ۔


یہ شجاع کی اماں جی تھیں ۔ سوہنی ہے تو فیر کیا ہوا برادری میں بہتری سوہنیاں ہیں ۔
لیکن یہاں اصل مرغ کی ایک ہی ٹانگ ۔ اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہیں اماں جی ! خوامخواہ کپڑے نہ نکالیں۔ پھربندے کی اصل دیکھنی چاہئے جائیدادیں نہیں ۔
اماں جی نے میرے کادار پر بھی کیچڑ اچھالی۔ نہ اس نے تجھ پر جادو کردیا ہے جوماں کی سنتا ہی نہیں کہاں ملتا رہا ہے اس شہری سے ۔

اس پر شجاع نے کافی غصہ بھی کیااور اماں جی کو باور کرایا کہ ارم سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی بس برادری کے لوگ اس کی فیملی کی تعریف کرتے ہیں ۔
بہرحال یہ جوڑ تورب نے بنارکھا تھا۔ اماں جی اور اباجی کو ان کے سامنے ہارماننا پڑی اور وہ مجھے اپنے گھر کی سب سے چھوٹی بہو بناکر لے ہی آئے ۔ میں اپنے والدین کی ایک ہی اولاد تھی اس لئے انہوں نے ساری عمر کی جمع پونجی سے مجھے بہت دیا۔

جب میری شادی ہوئی میں بارہویں کلاس میں تھی سوچا تھا امتحان تودے ہی لوں گی مگر ساس سسر سے اس کی اجازت ہی نہ ملہ۔ امی جان کی تربیت کے زیراثر جو کچھ بھی سیکھاتھا گھر کی بہتری کے لئے کرتی گئی لیکن ہر چیز میں کیڑے نکالے جاتے ۔
تم نے شجاع کو کبھی بتایا کہ تمہارے ساتھ کیسا سلوک ہورہا ہے ۔ میں نے پوچھا تو وہ بولی ۔
پتہ نہیں کیوں میں شجاع کوکبھی بے سکون کرنا نہیں چاہتی تھی ۔

پھر ڈیڑھ سال بعد میرا بیٹا پیدا ہوا۔ اولاد تو شجاع کی ہی تھی نالیکن کسی خاص خوشی کا مظاہرہ نہیں کیاگیا۔ شجاع کچھ زیادہ ہی سمجھدار تھا۔ چھٹی کے چند روز میں ا س نے بہت سی باتیں دیکھ سن لیں اور مجھے یہ کہہ کرگیا کہ میں بندوبست کرتا ہوں کہ تمہیں اپنے ساتھ رکھ سکوں تم تھوڑی بہت تیاری رکھنا لیکن فی الحال کسی سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ۔


پھر شجاع تمہیں اپنے ساتھ کب لے کر گیا ؟ میں نے اس کی بات کو دوسری طرف موڑ نا چاہا ۔
بڑا افساد اٹھا ! گھر میں اچھا خاصا ہنگامہ کیالڑائی چھڑگئی ۔ ساس سسر مجھے بھیجنا نہیں چاہتے تھے اور شجاع چھوٹا ساایک گھر جواس کی آمدنی کے مطابق بنتا تھا کرائے پرلے چکا تھا اور اس نے کہہ دیا کہ میں بیوی بچوں کو لے کرجاؤں گا۔ بڑی مشکلوں سے جانے کی اجازت دی گئی ۔

اس شرط پر کہ گھر سے کوئی چیز اٹھائی نہیں جائے گی ۔
چھوٹا ساگھر ہم تینوں کے لئے کافی تھا۔ لیکن چند ماہ بعد ہی میرے ساس سسر ہمارے ہاں آگئے ۔ دو کمرے کے مکان میں ہم نے اپنی ضرورت کی چیزیں بڑی بچت سکیم بنا کرڈال لی تھیں جہاں مہمانوں کی گنجائش کہیں تھی ہی نہیں ۔ اب خرچ بھی بڑھ گیا اور ہمارے والے کمرے پر ان کا قبضہ بھی ہوگیا ۔ ہم میاں بیوی برآمدہ نما کمرے میں ز مین پرسوجاتے انہیں بھی شاید ہمیں صرف تنگ کرنا تھا کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔

اور جب وہ گئے تو تھوڑے عرصہ بعد میرا جیٹھ جیٹھانی اور ان کے بچے آگئے اور پھر یہ روٹین بن گئی کہ ایک جاتا اور دوسرا آجاتا ۔ بچت کیا ہوتی ۔ یہ شاید شجاع کو اور مجھے سزادی جارہی تھی بہرحال صبر شکر سے کام چلا رہی تھی ۔
دوسال بعد میرا دوسرا بیٹا قاسم پیدا ہوا۔ اور انہیں حالات میں حسن آراء نے جنم لیا۔ شجاع نے ایک ٹیوشن سنٹر میں بھی ملازمت کرلی تھی کیونکہ گھر کے اخراجات پورے ہی نہیں ہورہے تھے۔

شادی کے بعد کے دس سال بے حد تکلیف دہ حالات میں گزرے۔ تین بچوں کے ساتھ گھرداری نے مجھے خاصا کمزور اور بیمار کردیا۔ انہیں دنوں ایک حادثے میں میرے والدین کی دفات ہوگئی۔ کوئی امیر کبیر تو وہ تھے نہیں کہ میرے حصے میں کوئی اثاثہ آتا کرائے کاگھر تھا۔ معمولی سابینک بیلنس تھااور ان کے گھر کاسامان ۔ دکھی دل کے ساتھ اپنی ضرورت کی چیزیں اٹھا لائی باقی وہیں بانٹ دیں۔

تھوڑا سابڑا گھر بھی کرائے پر لے لیا اور سکھ کاسانس لیاکہ مہمانوں کے لئے بھی کوئی جگہ نکل آئی تھی ۔
ایک روزکالھ میں لیکچر دیتے ہوئے شجاع بے ہوش ہوکر گرپڑے ۔ انھیں فوراََ ہسپتال لے جایا گیا تو پتہ چلا کہ ان کے دماغ میں ٹیومر ہے سارے ٹیسٹ کالج والوں نے ہی کروائے اور آپریشن تجویز ہوا۔ جو اتنا مہنگا تھا کہ میں چکرا گئی۔ میرے پاس صرف 75ہزار روپیہ بینک میں تھا۔

ماں باپ نے جوزیوردیا تھا اس کی قیمت بھی دو لاکھ ہی بنتی تھی اور یہ ساری رقم ناکافی تھی۔ کس کے آگے دست سوال دراز کرتی۔ اس بھرے جہان میں میراکوئی نہ تھا ۔ جب شجاع کے والدین تک خبر پہنچ توبولے “ جسے کمائی کھلاتارہا ہے وہی اس کاعلاج کروائے نا۔
تین روز بعد شجاع نے آپریشن سے پہلے ہی اس ظالم دنیا سے منہ موڑلیا۔ میری دنیا اندھیر ہوگئی ۔

سارا خاندان جمع ہوگیا۔ ایک طرف شوہر کی اچانک موت کادکھ تھا اور دوسری طرف طرح طرح کی رسومات پر اٹھنے والے بھاری اخرجات کابوجھ ۔ ساس سسرکاحکم تھا کہ کسی چیز میں کوئی کمی نہ ہو ۔ میرے پاس اتنا پیسہ تھا نہیں جتنا مجھ سے خرچ کروایا جارہا تھا۔ عدت کے چار ماہ بعد میں بچوں کے سکول گئی اور نوکری کی درخواست گزارہوئی۔ انہوں نے بڑی مہربانی کی اور مجھے چند سوروپے ماہوار پر آیا کی جگہ دے دی۔

اس زمانے میں مجھے یہ چند سوبھی بہت اچھے لگے لیکن اخراجات ایسے تھے کہ ہرماہ کچھ نہ کچھ بینک سے نکلوانا پڑتا اور پھر نوبت زیور بیچنے پر آگئی میں نے پرائیوٹ ایف اے پاس کرلیا اور بی اے کی تیاری بھی شروع کردی۔ آزمائش جب آتی ہے توبار بار آتی ہے اور اب کی بارقاسم کی بیماری نے مجھے ہلا کے رکھ دیا۔ اس کا بخار اترنے کانام نہیں لے رہاتھا اور پھر میری نوکری بھی جاتی رہی اور ایک سال کے اندر بینک بیلنس ختم ہوگیا اور میں نے زیوربیچنے شروع کردئیے ۔

فیس نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کوبھی سکول سے اٹھالیااور گھر میں ہی انہیں پڑھانے لگ گئی۔ قاسم سوکھ کرکانٹا ہوگیا۔ کسی کو بیماری کی سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ ٹیسٹ اور دوائیں ہی رقم کو دیمک کی طرح چاٹ رہی تھیں اچھی خوراک کہاں سے لاتی ۔ پھر نہ جانے کیسے ایک حکیم صاحب کی دوا سے قاسم میں بہتری کی صورت پیداہوئی میں نے اپنے سسرال والوں سے التجا کی کہ آپ لوگ جو زکوٰة انہیں دے دیا کریں لیکن اس مین بھی انکار تھا کہیں سے کوئی بھی روزی کی صورت نہیں تھی۔

کئی بار جی چاہا بچوں سمیت گاڑی کے نیچے لیٹ کر ماجاؤں لیکن پھر سوچتی اگر سارے نہ مرسکے تو بچ جانے والے کاکیا حال ہوگا مجھے نہیں پتہ تھا آنٹی کہ اس عمل میں خود بچ جاؤں گی ۔
لیکن تم نے یہ قدم کیوں اٹھایا ارم ؟ میں نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے سال کیاتواس نے دوپٹہ کے پلو سے آنکھیں صاف کیں اور بے جان آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگی۔ سب ختم ہوگیا آنٹی بھیک مانگنے کی ہمت نہ تھی پیٹ سے کپڑا اٹھاتی تو اپنا پیٹ ننگاہوتا۔

مالک مکان نے الگ ناک میں دم کررکھ تھا تین ماہ کاکرایہ ادا کرنا تھا۔ پلے ایک پیسہ نہ تھا۔ بچوں کی کتابیں اور گھر کے برتن تک بک چکے تھے ۔ مایوسی نے چاروں طرف سے گھیرلیا تھا بس اب صرف ایک سوچ تھی کہ ایسا طریقہ ہوکہ ہم چاروں مرجائیں۔
کیا تم رب کی رحمت سے بالکل مایوس ہوچکی تھیں ۔ جب میں نے سوال کیاتو وہ پھر رو دی۔ اسی رحمت کی آس میں ہر صبح اٹھتی اور مایوسی کے عالم میں رات کردیتی ۔

اس روز تو میں آٹا لینے نکلی تھی چند آخری سکے میرے پلو میں بندھے تھے آدھا کلو آٹا اور دو چمچ چینی اور گھی لے کر میں گھر آرہی تھی کہ کوڑے کے ڈھیر کے قریب ایک بند لفافہ نظر آیا۔ وہ چوہے مار گولیوں کا پیکٹ تھا ۔بس یوں جیسے میرا دماغ گھوم گیا۔ مایوسی نے پوری طرح گھیرلیا۔ یاتوان بچوں کو بھیک مانگنے پر لگادیتی اور خود بھی چادر پھیلا کرکہیں بیٹھ جاتی اور یہ ذلت مجھے منظور نہیں تھی۔

سوچوں میں ڈوبی گھر پہنچی اور روٹیاں پکا کر ان سارگولیوں کو پیس کرچینی اور گھی کے ساتھ چوری بنائی اور بچوں کو پیار سے بلالیا۔ وہ بھی کھارہے تھے اور میں بھی آہستہ آہستہ کھارہی تھی۔ آہستہ کھانے کا ایک مقصد تھا کہ بچی ہوئی ساری چوری میں کھاؤں گی بچوں میں سے بھی کوئی زندہ نہ رہے ورنہ ظالم سماج ان کے لئے جینا مشکل کردے گا۔ وہ تینوں چوری کھاتے ہی سو گئے اور جب ان کی نبض ڈوب گئی تو میں نے روتے روتے وہ بچی ہوئی ساری چوری کھالی اور بڑی میٹھی نیند کی آغوش میں چلی گئی ۔


پھر کتنی دیر بعد تمہیں ہوش آیا؟ میں نے سوال کیا تو اس نے اپنا پیٹ لیا۔ مجھ ناشدنی کو ہوش کہاں آیاآنٹی کسی کام سے میری ہمسائی نے دروازہ کھٹکھٹایابہت دیر جب دروزاہ نہیں کھلا تو اس نے دو چار ہمسایوں کو آوازدی۔ مالک مکان کی دکان بھی قریب ہی تھی سب لوگ آگئے دروازہ کھولاگیا اور لوگ بتاتے ہیں کہ بچے مرچکے تھے اور میں بھی آخری دموں پر تھی ۔

کاش دروازہ کچھ دیر بعد کھلتا۔ پولیس آگئی مجھے ہسپتال لے جایاگیاجاں میں زندہ بچ گئی ۔ مجھے تو اپنے بچوں کاآخری دیردار بھی نصیب نہ ہوا۔ محلے والوں نے خود ہی مل جل کر سب کچھ کردیااور اب میں یہاں ہوں اپنے ہی تین بچوں کی قاتل ۔ ان سے کہو مجھ سے کچھ نہ پوچھیں بس مجھے پھانسی دے دیں۔ ہاں میں نے تین قتل کئے ہیں۔ میں ہار گئی تھی آنٹی میرا زخمی روح ان کی بے بسی اور آنسو نہ دیکھ سکی مجھے تو خود بھی مر جاتا تھا۔ اپنے بچوں سمیت شجاع کے پاس جانا تھا۔ نڈھال ہوچکی تھی ۔ مجھے پھانسی دے دو ․․․․ مجھے تختہ دار پرلٹکادو․․․․․ میں اپنے بچوں کے پاس جانا چاہتی ہوں․․․․․ مجھے شجاع کے پاس جانا ہے۔ وہ بے ہوش ہوچکی تھی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Wo Apnay Hi Bachon Ki Qatil Thi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 October 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.