ملک کیلئے قیمتی زرمبادلہ کمانے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مسائل کا حل حکومت کی اولین ترجیح ہے، ٹیکسٹائل انڈسٹری کو شدید قلت کے باوجود 25 فیصد گیس فراہمی کی جائے ، حکومت صنعتوں کے فروغ پر یقین رکھتی ہے ،ٹیکسٹائل برآمدات کا فروغ حکومتی ترجیحات کا حصہ ہے،ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مکمل تباہی سے بچانے کیلئے فوری اور دیرپا اقدامات کئے جائیں،مشیر برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین کاپاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سے وابستہ صنعتکاروں کے اجلاس سے خطاب

ہفتہ 22 دسمبر 2012 23:22

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔22دسمبر۔ 2012ء) مشیر برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا ہے کہ ملک کیلئے قیمتی زرمبادلہ کمانے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مسائل کا حل حکومت کی اولین ترجیح ہے انھوں نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو شدید قلت کے باوجود 25 فیصد گیس فراہمی کی یقین دہانی کروائی ، حکومت صنعتوں کے فروغ پر یقین رکھتی ہے اور ٹیکسٹائل برآمدات کا فروغ حکومتی ترجیحات کا حصہ ہے،ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مکمل تباہی سے بچانے کیلئے فوری اور دیرپا اقدامات کئے جائیں۔

ہفتہ کو پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سے وابستہ صنعتکاروں کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ناقص منصوبہ بندی کے باعث گیس جیسے قیمتی ایندھن کا نہایت بے دردی سے ضیاع کیا گیا ۔

(جاری ہے)

پاکستان دنیا میں گیس پیداکرنیوالے ممالک میں ستائیسواں بڑا ملک ہے جبکہ سی این جی کے استعمال میں پاکستان کا نمبر پہلا ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت صنعتوں کے فروغ پر یقین رکھتی ہے اور ٹیکسٹائل برآمدات کا فروغ حکومتی ترجیحات کا حصہ ہے۔انھوں نے یقین دلایا کہ صنعتوں کو گیس فراہمی میں جنوری کے بعد بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔اس سے پہلے پی ٹی ای اے کے چیئرمین اصغر علی نے مشیر پٹرولیم کو گیس بندش سے ہونے والے نقصان سے آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری ملکی معیشت کا بنیادی ستون تصور کیا جاتا ہے۔

ملکی زرمبادلہ کا 62 فیصد ٹیکسٹائل کی برآمدات سے حاصل ہوتا ہے جس میں فیصل آباد کا شیئر 4 ارب ڈالر ہے۔ملک میں40 فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم والی یہ صنعت اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔صنعتی اور پیداواری عمل متاثر ہونے سے ٹیکسٹائل برآمدات کا گراف تیزی سے گر رہا ہے اور پیداواری عمل کی بندش سے روزانہ ایک ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے ۔

گیس لوڈ شیڈنگ نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ گذشتہ چار سال میں صنعتی سیکٹر کو گیس فراہمی میں 329 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ سال 2008-09 میں صنعتوں کو 41 دن گیس کی بندش کا سامنا کرنا پڑا جبکہ سال-10 2009 میں 95دن، سال 2010-11 میں 136دن اور سال2011-12 میں 157 دن گیس بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ موجودہ مہینے کے 22 دنوں میں بھی صرف 5 دن گیس کی فراہمی ممکن ہو سکی اور اس دوران بھی پریشر اتنا کم کہ پیداواری عمل شروع ہی نہ ہوسکا۔

گیس جیسے اہم پیداواری عنصر کے بغیر ٹیکسٹائل انڈسٹری کس طرح اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مکمل تباہی سے بچانے کیلئے فوری اور دیرپا اقدامات کئے جائیں تاکہ صنعتی شعبہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔پاکستان میں گیس جیسے قیمتی ایندھن کو صنعتوں کی بجائے سی این جی کی شکل میں جس بے دردی سے استعمال کیا گیااسکے نظیر کہیں نہیں ملتی۔

اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے گیس کے ضیاع کو روکے اور اس کے صنعتی استعمال کو یقینی بنائے کیونکہ ٹرانسپورٹ کیلئے تو پٹرول کی شکل میں ایندھن موجود ہے مگر انڈسٹری کیلئے کوئی متبادل ایندھن میسر نہیں۔ دنیا بھر میں برآمدی صنعتوں کو ترجیحی بنیادوں پرپیداواری عوامل کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے۔ انھوں نے درخواست کی کہ ملک کیلئے بھاری زرمبادلہ کمانے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ سے استثنٰی دیا جائے جبکہ دوسری صورت میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو انفرادی سطح پربطور متبادل ایندھنLPG یاLNG کی ڈیوٹی فری ڈرآمد کی اجازت دی جائے تاکہ صنعتی اور پیداواری عمل متاثر نا ہو اور صنعتی پہیہ پوری روانی سے چلتا رہے۔

اجلاس میں وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیل رانا فاروق سعید خان، مینجنگ ڈائریکٹر سوئی ناردرن عارف حمید، گروپ لیڈر آپٹما گوہر اعجاز سمیت ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ صنعتکاروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی

فیصل آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں