شپ بریکنگ انڈسٹری کے باعث ماحولیاتی آلودگی کو سائنسی اور ماحول دوست طریقوں کے ذریعے ٹھکانے لگانے کی اشد ضرورت ہے

ماحولیاتی ماہرین کا گڈانی میں ماحولیاتی آلودگی کو سائنسی اور ماحول دوست طریقوں کے ذریعے ٹھکانے لگانے سے متعلق تحقیقی پروگرام سے خطاب

پیر 17 اگست 2015 19:16

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 17 اگست۔2015ء ) ماحولیاتی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں شپ بریکنگ انڈسٹری کے باعث بلوچستان کے ساحلی علاقے گڈانی میں ماحولیاتی آلودگی کو سائنسی اور ماحول دوست طریقوں کے ذریعے ٹھکانے لگانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ علاقے میں بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی اور اس کے انسانی اور جانوروں کی صحت پر منفی اثرات پر مکمل طور پر قابو پایاجاسکے۔

پیر کوشپ بریکنگ انڈسٹری کے باعث ملک کے ساحلی علاقے گڈانی میں ماحولیاتی آلودگی کو سائنسی اور ماحول دوست طریقوں کے ذریعے ٹھکانے لگانے سے متعلق ایک تحقیقی پروگرام سے خطاب میں ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان کو شپ بریکنگ کی وجہ سے نکلنے والے زہریلے فضلے کو سائنسی اور ماحول دوست طریقوں کے ذریعے ٹھکانے لگانا ناگزیر ہے۔

(جاری ہے)

وفاقی وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کے جوائنٹ سیکریٹری سجاد احمد بھٹا نے کہا کہ پاکستان ان مسائل سے پوری طرح آگاہ ہے اور ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں۔

اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادار ہ برائے ماحولیاتی پروگرام کی مالی اور تکنیکی مدد سے ایک جامع منصوبہ شروع کیا گیا ہے ، جس کی مدد سے ملک میں شپ بریکنگ انڈسٹری کے باعث ملک کے ساحلی علاقے گڈانی میں ماحولیاتی آلودگی کو سائنسی اور ماحول دوست طریقوں کے ذریعے ٹھکانے لگانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ شپ بریکنگ اور ریسائیکلنگ انڈسٹری کو ملکی معیشت میں غیر اہم اہمیت حاصل ہے ،جس سے دس بلین روپے سے زیادہ ٹیکس کی مد میں ملک کو آمدنی حاصل ہوتی ہے اور تقریباً دو لاکھ لوگوں کا بلواستہ اور بلاواستہ روزگار وابسطہ ہے ۔

اس کے علاوہ ملک میں اسٹیل کی کُل پیداوار کا 65فیصد اس شپ بریکنگ انڈسٹری سے آتا ہے۔بین الاقوامی شپ بریکنگ اور ریسائیکلنگ کنسلٹن فرم صوفیزلمیٹڈ(SofiesLimited ( کے ڈیوڈ مارٹن نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا میں پرانے بحری جہاز وں کے توڑنے کا 70فیصد کام پاکستان، انڈیا اور بنگلادیش میں ہوتا ہے مگر یہ ماحول دوست اور سائنسی طریقوں سے نہیں ہورہا ، جس کے باعث ساحلی علاقوں میں آلودگی اور مقامی لوگوں میں صحت کے مسائل پید اہورہے ہیں۔

آئندہ آنے والے برسوں میں ایسے پرانے بحری جہاز توڑنے کے لیے درقی پذیر ممالک میں دستیاب ہونگے ، جس سے خارخ ہونے والے زہریلے فضلے کوسائنسی اور ماحول دوست طریقوں کے ذریعے ٹھکانے نہ لگانے کے باعث مقامی ماحول کو شدید خطرات لاحق ہونگے۔ تاہم اس صنعت کو ماحول دوست بنانے کے لیے ضروری اقداما ت کرنے ہونگے۔ انڈیا کی اس شپ بریکنگ صنعت میں حالیہ چند برسوں میں قدرے بہتری آئی ہے۔ اس تقریب سے وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر زیغم عباس، پاکستان شپ بریکنگ بریکرس ایسوسی ایشن کے چیرمین رضوان دیوان، سیکریٹریٹ آف باسل ، روٹرڈم اور اسٹاک ہوم کنوینشنس کے سُسان ونگ فیلڈ نے بھی خطاب کیا ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں