سپریم کورٹ ، پی ایم ڈی سی کی تحلیل کرنے کا معاملہ حل نہ کرنے پر اٹارنی جنرل پاکستان اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کو نوٹس جاری

نااہلی اور اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے والے سرکاری حکام کے خلاف فوجداری کارروائی کے لئے تین سینئر قانون دانوں پر مشتمل کمیٹی قائم لگتا ہے کہ سرکار سارے کام سپریم کورٹ کے ذریعے کرانا چاہتی ہے، جب کوئی حکم دیتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے، چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس

منگل 25 اگست 2015 17:02

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 25 اگست۔2015ء) سپریم کورٹ نے ایک آرڈیننس کے ذریعے 35 ممبران پر مشتمل پی ایم ڈی سی کی تحلیل کرنے کا معاملہ ڈیڑھ سال میں حل نہ کرنے پر اٹارنی جنرل پاکستان اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں جبکہ نااہلی اور اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے والے سرکاری حکام کے خلاف فوجداری کارروائی تجویز کرنے کے لئے تین سینئر قانون دانوں پر مشتمل کمیٹی قائم کر دی ہے جو 24 گھنٹوں میں اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی ۔

میڈیکل کالجز اور ڈاکٹروں کی ڈگریوں کی تصدیق کون کر رہا ہے اس حوالے سے وفاقی وزارت صحت جوب دے جبکہ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی باڈی تحلیل ہونے کے بعد پوری قوم قصائیوں پہلوانوں کی شکل میں فعال غیر منظور شدہ ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں دے دی گئی ہے ۔

(جاری ہے)

یہ ہمارے لئے اور قوم کے لئے آزمائش کی گھڑی ہے ۔

امراء اور صاحب ثروت ، سرکاری افسران تو مہنگے ترین علاج کے لئے سرکاری خرچ پر امریکہ اور انگلستان جائیں مگر غریب لوگ غیر مستند ڈاکٹروں کے ہاتھوں اپنی قیمتی زندگیاں گنواتے رہیں ۔ جب بھی کاز لسٹ دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ سرکار سارے کام سپریم کورٹ کے ذریعے کرانا چاہتی ہے آج کی کاز لسٹ کا بھی یہی حال ہے جب کوئی حکم دیتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے ۔

ایک ادارے کے رجسٹرار کے عہدے کے دو دعویدار ہیں اور حکومت کو پتہ تک نہیں کہ اصل رجسٹرار کون ہے ۔منگل کے روز چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو پی ایم ڈی سی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کے معاملات الارمنگ ہیں سرکار کو معلوم ہی نہیں ہے کہ کتنے کالجز اس کی اجازت سے کام کر رہے ہیں اور کتنے ڈاکٹروں کی ڈگریاں تصدیق شدہ ہیں یا نہیں ۔

الرازی میڈیکل کالج کے پاس نہ تو اپنی عمارت ہے اور نہ ہی سٹاف ہے مگر پھر بھی ڈگریاں دیئے جا رہی ہے اور اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے ۔ افغانستان سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر کے آنے والے کو بھی یہاں ڈاکٹر لگا دیا جاتا ہے ایسے کئی لوگ کام کر رہے ہیں جو ڈاکٹر کم قصائژی اور پہلوان زیادہ ہیں جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ ڈرگ ایکٹ 1976 ایک بیکار قانون ہے جس میں ملزموں کو لوگوں کی جان لینے پر تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ۔

جب تک معززین کے بیرون ملک علاج پر پابندی نہیں لگائی جائے گی ۔ معاملات حل نہیں ہوں گے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ یہ بہت ہی خطرناک صورت حال ہے کیا وزارت ایسی نااہل ہے کہ ابھی تک قانون سازی بھی نہیں کر سکی ۔ انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں اس دوران عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی طلب کیا ۔ دوران سماعت پی ایم ڈی سی کی جانب سے ایک خاتون ڈاکٹر شہلا اور دوسرے مرد ڈاکٹر احمد پیش ہوئے اور دونوں نے اس بات کا دعوی کیا وہی پی ایم ڈی سی کے رجسٹرار ہیں اس پر عدالت نے جب ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر الرحمان سے پوچھا کہ اصل رجسٹرار کون ہیں تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ بہت ہی سنجیدہ سوال ہے مگر اس سوال کا جواب ان کے پاس نہیں ہے ۔

عدالت نے کہا کہ 20 مارچ 2014 کو ایک آرڈیننس کے ذریعے پی ایم ڈی سی کی 35 رکنی باڈی تحلیل کر کے ایک مینجمنٹ کمیٹی بنائی گئی ۔ اس آرڈیننس کو بعدازاں سینٹ نے نامنظور کر دیا ایک طرف پی ایم ڈی سی کی باڈی بھی ختم ہو گئی دوسری طرف وہ آرڈیننس بھی ختم ہو گیا اب ایک ویکیوم پیدا ہو گیا ہے کہ ڈاکٹروں کی اسناد اور جعلی میڈیکل کالجز کا پتہ کون چلائے گا ۔

کیا اب دوسری تنظیمیں اپنی مرضی سے لوگوں کو ڈاکٹروں کی سند کی تصدیق کریں گے ۔ لوگوں کو جعلی ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا جائے اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کو بھی کہ آخر اس کا کیا حل ہے کہ قانون سازی تک نہیں ہو سکی ہے ۔ علاوہ ازیں عدالت نے الیاس صدیقی ایڈووکیٹ ، وحید انجم ایڈووکیٹ اور فرانس پر مشتمل تین رکنی وکلاء کمیٹی بنا دی ہے جو ذمہ داروں کے خلاف فوجداری کارروائی کی مجوزہ شقیں عدالت میں پیش کرے گی مزید سماعت آج بدھ کو ہو گی ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں