سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں قائم کچی آبادیوں کے خلاف تمام آپریشن روک دیئے،حکومت سی ڈی اے،اسلام آباد انتظامیہ سے جواب طلب

40 سال سے قائم کچی آبادیوں کو گرانے سے قبل متبادل جگہیں کیوں نہیں دی گئی، سی ڈی اے بادشاہ نہیں کہ جو مرضی آئے کرتا پھرے، اب کسی کچی آبادی کو ہاتھ نہ لگایا جائے،چیف جسٹس غیر قانونی مقیم افغانوں کو مزید دو سال رہنے کی اجازت دیدی گئی جو ہمارے کاروبار ،رہائشی علاقوں، کھانے پینے پر قابض ہیں اپنے شہریوں کو رہنے کی اجازت کیوں نہیں،جسٹس دوست محمد

بدھ 26 اگست 2015 18:46

سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں قائم کچی آبادیوں کے خلاف تمام آپریشن روک دیئے،حکومت سی ڈی اے،اسلام آباد انتظامیہ سے جواب طلب

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 26 اگست۔2015ء) سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں قائم کچی آبادیوں کے خلاف تمام تر آپریشن روک دیئے ہیں اور وفاقی حکومت ، سی ڈی اے اور اسلام آباد انتظامیہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے اب تک کئے گئے آپریشن اور دیگر معاملات بارے تفصیلی جواب طلب کیا ہے جبکہ وفاق اور صوبوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں شہریوں کو دی گئی ہاؤسنگ سہولیات کے حوالے سے جو پالیسی وضع کی گئی ہے اس کی تفصیلات عدالت میں پیش کریں ۔

اسلام آباد 22 پولیس سٹیشنوں پر کچی آبادیوں کے حوالے سے اب تک قائم کردہ مقدمات اور روزنامچوں کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں جبکہ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 40 سال سے قائم کچی آبادیوں کو گرانے سے قبل متبادل جگہیں کیوں نہیں دی گئیں ۔

(جاری ہے)

سی ڈی اے بادشاہ نہیں کہ جو مرضی آئے کرتا پھرے ۔سی ڈی اے اب کسی کچی آبادی کو ہاتھ نہ لگائے ۔

سی ڈی اے کی بادشاہت نہیں چلنے دیں گے ۔ نجانے 15 سے 17 ہزار لوگوں پر کیا بیتی ہو گی جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو ملک میں مزید دو سال رہنے کی اجازت دے دی گئی ہے جو ہمارے کاروبار ،رہائشی علاقوں اور کھانے پینے پر قابض ہیں اپنے شہریوں کو رہنے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی ہے اور 30 سے 40 سال قبل قائم ہونے والی آبادی کو کیوں گرانا چاہتے ہیں ۔

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں ۔عدالت نے عابد حسن منٹو کی کچی آبادیوں کو گرائے جانے کے خلاف دائر آئینی درخواست بھی سماعت کے لئے منظور کر لی ۔ سی ڈی اے اور وفاقی حکومت نے عدالت کو بتایا ہے کہ ہم نے آپریشن عدالت عالیہ کے حکم پرکیا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ ان آبادیوں میں آخر ایسا کیا ہے کہ جس کی وجہ سے آپریشن کر کے ان کو مسمار کیا گیا ۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکورٹی کی وجہ سے ایسا کیا جا رہا ہے ۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 15 ایجنسیاں ان کچی آبادیوں کو چیک کر چکی ہیں ان میں کوئی دہشت گرد نہیں رہ رہا ہے ۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک شخص نے صرف اپنا شناختی کارڈ بنانے کی درخواست دی تھی آگے سے ہائی کورٹ نے انتظامیہ کو کچی آبادیوں کے خلاف آپریشن کر کے ان کو مسمار کرنے کا حکم دے دیا ۔

ان میں کئی آبادیاں 30 سے 40 سال پرانی ہیں ۔ شہر اگر وسیع ہو رہا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ غریب لوگوں کے گھر گرانے سے قبل ان کو متبادل جگہیں تو دے یہ سب جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور یہ بنیادی اہمیت کا معاملہ ہے جس میں درخواست سماعت کے لئے منظور کی جائے ۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ واقعی بنیادی انسانی حقوق اور عوامی اہمیت کا معاملہ ہے ہم چاہتے ہیں کہ اس کو تفصیل سے سنا جائے اور کوئی حکم جاری کیا جائے ۔

بعدازاں عدالت نے وفاقی حکومت ، سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ سے کچی آبادیوں بارے تمام تفصیلات طلب کی ہیں اور حکم دیا ہے کہ جب تک یہ مقدمہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے کسی کچی آبادی کو نہ گرایا جائے ۔ بعدازاں عدالت نے سماعت 31 اگست تک ملتوی کر دی ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں