غیر مشروط مذاکرات سے ہی پاک بھارت مسائل حل ہو سکتے ہیں ،سود مند مذاکرات کے لیے عالمی برادری کی ثالثی بہت ضروری ہے ،مذاکرات سے انکار اور ایل او سی پا کشیدگی، پاک چین اقتصادی راہداری ، دہشت گردی کے خلاف آپریشن اور افغان مفاہمتی عمل کی کامیاب پیش رفت پر بھارتی ردعمل ہے

سینیٹرعبدالقیوم، اشرف جہانگیر قاضی، اویس خان لغاری ، لیفٹیننٹ جنرل (ر)آصف یسٰین ملک، صاحبزادہ سلطان احمد علی اور دیگر کامسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب

بدھ 2 ستمبر 2015 21:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 02 ستمبر۔2015ء) مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام "پاک بھارت مذاکرات ڈیڈ لاک:خطے پر اثرات" کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہاہے کہ غیر مشروط مذاکرات سے ہی پاک بھارت مسائل حل ہو سکتے ہیں ،سود مند مذاکرات کے لیے عالمی برادری کی ثالثی بہت ضروری ہے ،مذاکرات سے انکار اور ایل او سی پا کشیدگی، پاک چین اقتصادی راہداری ، دہشت گردی کے خلاف آپریشن اور افغان مفاہمتی عمل کی کامیاب پیش رفت پر بھارتی ردعمل ہے۔

بدھ کو ہونے والے سیمینار سے سابق سفیر اشرف جہانگیر قاضی، صاحبزادہ سلطان احمد علی، قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئر مین اویس خان لغاری ، لیفٹیننٹ جنرل (ر)آصف یسٰین ملک، سینیٹرعبدالقیوم اورسابق سفیر آصف ایزدی اور دیگرنے خطاب کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنا مؤقف اپنایا جبکہ بھارت نے اقوام متحدہ کے قراردادوں سے روگردانی، غیر قانونی قبضہ، کھلی جارحیت، طاقت کا بے دریغ استعمال اور دیگر ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔

اقوام متحدہ کی قراردادیں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیتی ہیں یہ بات یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی بھی مذاکرات کشمیریوں کی آواز کو شامل کیئے بغیر کامیاب اور مؤثر نہیں ہو سکتے۔بین الاقوامی برادری نے ہمیشہ پاکستانی مؤقف کی تائید کی ہے جرمنی کے وزیر خارجہ کے حالیہ بیان سے بھی یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے ۔بھارت پاکستان کو مضبوط اور مستحکم نہیں دیکھنا چاہتا اسی لیے وہ پاکستان میں شر انگیزی کو ہوا دیتا ہے اس کے برعکس پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں عالمی معیارات کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔

جب بھی بھارتی حکومت نے کسی بھی قسم کا اندرونی دباؤ محسوس کیا اس نے ہمیشہ پاکستان بالخصوص کشمیر اور لائن آف کنڑول پر کشیدگی سے مسئلہ کو سلجھانے کی کوشش کی ۔بی جے پی کی حکومت نے انتخابی مہم کے دوران اپنے منشور میں کشمیر کے خصوصی درجے کے قانو ن کو ختم کرنے کا عندیہ دیا لیکن پھر بھیمقبوضہ کشمیر کے الیکشن کے دوران کشمیری عوام کو مائل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی اس ذلت کے بعد بھارت نے معصوم اور نہتے کشمیریوں کے خلاف جارحیت کا بے دریغ استعمال کیا۔

مزید بر اں بھارت پاکستان کے ساتھ کشید گی کو مزید بڑھانا چاہتا ہے تا کہ اپنی عوام کی طرف سے کسی بھی قسم کے ردعمل کو روکا جا سکے۔چین پاکستان اقتصادی راہ داری، دہشت گردوں کے خلاف کامیاب حکمت عملی اور افغان حکومت اور طالبان کومذاکرات کی میز پر لانا پاکستان کی بڑی کامیابیاں ہیں۔ان کامیابیوں پر بھارت نے بوکھلا کر لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر جنگ بندی کی خلاف ورزی اور پاک بھارت امن مذاکرات کا تعطل ، بھارت کی پاکستان کے بارے میں ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں۔

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق بھارت نے صرف پچھلے دو ماہ میں ستر بار سرحدی خلاف ورزیاں کیں۔پاکستان نے لائن آف کنٹرول سے ملحقہ ان علاقوں کا اقوام متحدہ کے نمائندوں سے معائنہ کروایا جوجنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے بری طرح سے بھارتی بر بریت کا شکار ہوئے اقوام متحدہ ، سارک ، ایس سی او اور دیگر علاقائی تنظیموں کو بھارتی جارحیت کا نوٹس لینا چاہیئے تاکہ اس کو روکا جاسکے کیونکہ یہ ایک بڑے تنازعہ کی صورت اختیار کرکے پورے خطے کے لیئے خطرہ کا باعث بن سکتی ہے ۔

پاکستان نے واضح طور پر "رـا" کی پاکستان میں دہشت گردی اور دیگر کاروائیوں کو اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی فورم پر واضح کیا۔ایسے حالات میں بھارت کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرے اور بین الاقوامی اوراندرونی دباؤ کا رخ موڑ دے بھارت نے مذاکرات کے ساتھ ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی سے بھی انکار کر دیا ہے حالانکہ موجودہ صورتحال میں مذاکرات بہت ضروری ہیں ۔

مذاکرات ضرور ہونے چاہیئے لیکن یہ بین الاقوامی برادری کی ثالثی اور معاونت سے ہی ہونے چاہئیں ۔ بمعنی مذاکرات وقت کی بڑی ضرورت ہیں تا کہ مسئلہ کشمیر جیسے اہم معاملے پر پیش رفت ہواور خطے میں دیر پا امن قائم ہو سکے ۔ موجودہ مسائل بشمول سیاچن، سرکریک اور کشمیر کو حل کیئے بغیر بمعنی اور سودمند مذاکرات کے امکانات بہت کم ہیں ۔پاک بھارت دو طرفہ مذاکرات کئی مرتبہ ہوئے لیکن ان میں کوئی بڑی پیش رفت سامنے نا آ سکی اس کی بنیادی وجہ بھی موجودہ مسائل ہیں ۔

جب بھی پاک بھارت مذاکرات میں پیش رفت ہوئی اس میں بین الاقوامی برادری کا کردار واضح نظر آیا۔آج بھی عالمی برادری کو اپنا مؤثر کردار ادا کرنا ہو گاتا کہ خطے میں امن قائم ہو سکے۔پاکستان بھارت کے ساتھ تمام مسائل پر مذاکرات کے لیے تیار ہے بھارت کو اپنی ذہنیت کو تبدیل کر کے مثبت جواب دینا ہو گا۔ سیمینار کے اختتام پر وقفہ سوال و جواب ہوا جس میں مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ساتھ سفارتکاروں ، دانشوروں اور صحافیوں نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں