شہریوں کو بہترین سہولیات فراہم کرنا ان پرریاست کااحسان نہیں بلکہ یہ ان کا حق ہے، چیف جسٹس

جب عوام اپنے آئینی حقوق سے محروم ہوتے ہیں تو مایوسی اور منافرت جنم لیتی ہے اور لا قانونیت کے دروازے کھول دیتی ہے ملک کا ہر شہری بلواسطہ یا بلاواسطہ ٹیکس دہندہ ہے حتیٰ کہ ایک نادار دہقان جب اپنی بچی کے لئے عید پر کپڑے یا جوتی خریدتا ہے توادا کردہ قیمت کا ایک حصہ ٹیکس میں سرکار کو جاتا ہے کامیاب ریاست کے لئے لازم ہے کہ ہر فرد اور گروہ کو اپنی شکایات کے ازالے کے لئے ریاستی امور میں جگہ مل سکے بد عنوانی وہ ناسور ہے جو ریاست کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے، اسی سے پاکستان کو اربوں بلکہ کھربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے، مفلس و نادار طبقے پسے چلے جا رہے ہیں جب کہ دولت مند حضرات مزید دولت مند ہوتے جا رہے ہیں، تقریب سے خطاب

ہفتہ 5 ستمبر 2015 21:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 05 ستمبر۔2015ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ شہریوں کو بہترین سہولیات فراہم کرنا ان پرریاست کاکوئی احسان نہیں بلکہ یہ شہریوں کا استحقاق ہے، جب عوام اپنے آئینی حقوق سے محروم ہوتے ہیں تو مایوسی اور منافرت جنم لیتی ہے اور لا قانونیت کے دروازے کھول دیتی ہے۔ملک کا ہر شہری بلواسطہ یا بلاواسطہ ٹیکس دہندہ ہے حتیٰ کہ ایک نادار دہقان جب اپنی بچی کے لئے عید پر کپڑے یا جوتی خریدتا ہے توادا کردہ قیمت کا ایک حصہ ٹیکس میں سرکار کو جاتا ہے، ایک کامیاب ریاست کے لئے لازم ہے کہ ریاست میں موجود ہر فرد اور گروہ کو اپنی شکایات کے ازالے کے لئے ریاستی امور میں جگہ مل سکے۔

بدعنوانیوں کی روک تھام کے لئے قانون میں ادارے موجود ہیں لیکن اُن کی کارکردگی کچھ ایسی نہیں کہ جس سے یہ تسلی ہو کہ بد عنوانی کا خاتمہ جلد ہو جائے گاجبکہ ہر شخص کی نظر میں بد عنوانی ہی وہ ناسور ہے جو ریاست کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے، اسی بد عنوانی کی وجہ سے پاکستان کو اربوں بلکہ کھربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے، عوام میں عدم مساوات انتہا تک پہنچ رہی ہے اور مفلس و نادار طبقے پسے چلے جا رہے ہیں جب کہ دولت مند حضرات مزید دولت مند ہوتے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ہفتہ کو یہاں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ سولہ برس سے میں پاکستان کی آئینی عدلیہ کا رکن رہا ہوں اس دوران مجھے یہ موقعہ ملا ہے کہ میں ملکی اداروں کے معیار اور کارکردگی کو قریب سے دیکھ سکوں۔ بالخصوص قانون کے یکساں اطلاق اور اس میں حائل مشکلات کا مجھے بطورجج ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ادراک حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔

میرے مشاہدے کی بہت سی جہتوں میں دوخصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ میں نے قانون کی عملداری کو اولاً ریاستی کارپردازانِ اقتدار کے نقطۂ نظر سے اور دوسرا عوام الناس کی شکایات اور ان کو در پیش مشکلات اور ان کی پریشانی و مظلومیت کی داستان کے نقطۂ نظر سے ، دونوں زاویوں میں،میں نے اس عمل کو قریب سے دیکھا ہے۔لہٰذا آج میں ان مخصوص پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آپ سے اپنی سوچ کا اظہار کروں گا۔

اس سوچ میں بعض اوقات ایک خوشی کا عنصر ہوتا ہے جب یہ احساس ہو کہ مجھ سے کوئی بہتری کا کام لیا گیا ہے لیکن بسا اوقات مایوسی اس بات پر ہوتی ہے کہ زمینی حقائق قانون اور آئین کی دنیا سے الگ نظر آ رہے ہوتے ہیں لیکن میرا احساس غالب یہی رہاہے کہ ہم صحیح راستہ پر چل کراور نیک نیتی سے کوشش کے ذریعے زمینی حقائق کو آئین اور قانون کی منشاء اور تقاضوں سے قریب تر لا سکتے ہیں۔

اس تناظر میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں کہ کامیاب ریاست اور قوم کی بنیاد اور ساخت کیا ہے؟وہ کون سے عوامل ہیں جو کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟اور آج کے موضوع سے خاص طور پر متعلق یہ سوال اہم ہے کہ آیا ہمارے پاس وہ لازمی ضوابط اور فکری سانچہ موجود ہے جن سے کام لے کر ہم اپنے اداروں کو فعال بنا سکیں اور اپنے عملی اہداف حاصل کر سکیں۔ میرے اپنے تجربے اور مشاہدے سے ایک بات کی اہمیت مجھ پر واضح ہے کہ ہمارے ریاستی اداروں میں ملک کے عوام کومؤثر طریقہ سے شامل کرنا نہایت ضروری ہے لیکن اس اعلیٰ مقصد کی ضرورت کا احساس ہوتے ہوئے بھی ہمارے سامنے ایک بڑا رخنہ جو حائل ہے وہ ہے: قانون اور آئین کے اطلاق میں کمزوریاں۔

لہٰذاسب سے پہلا سوال یہ ہے کہ ہم ریاست کی تشکیل اور تعمیر کس طرح سے کریں؟ میری نظرمیں اس راہ میں ایک بڑی رکاوٹ وہ فرسودہ سوچ ہے جس کی رو سے ریاست کو بعض اوقات سماج اور معاشرے سے بالاتر اور الگ تھلگ سمجھا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حقیقی معاشرتی بنیاد پر ریاست کی تشکیل نہیں ہوپاتی لہٰذا اس دقیانوسی ماڈل کو ناقدانہ نظر سے دیکھنا اور اس پر سوالیہ نشان اٹھانا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ ایک ایسا ماڈل ہے جس نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں پر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ریاست ہی ہر ایک اجتماعی حقیقت پر حاوی اور بالا دست ہو کر رہ گئی ہے ہر عمل کا محور بھی ریاست ہے، وہی اول اوروہی آخر ہے۔

اس داستانِ ریاست میں عوام کا کوئی ذکر ہی نہیں آتاسوائے چند نیک خواہشات کے۔ ریاست کا یہ ہمہ گیر بالا دستی کا نظریہ اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو میکس ویبر نے انیسویں صدی میں اور نظام الملک طوسی نے اس سے پانچ صدیاں قبل اپنی کتاب ریاست نامہ میں پیش کی۔ ہماری ریاست اور اس کے ذمہ داران کے احساسِ برتری کا اثرمسندِاقتدار کے حامل افسران اورتمام ریاستی عہدے داروں کی سوچ میں سرایت کر چکا ہے، نتیجتاً سماجی اور معاشرتی عناصر پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق ہیں۔

آج کی اس مجلس میں، میں مروجہ ریاستی ماڈل میں موجود کمزوری کی نشان دہی کر کے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ریاست اور ریاستی اداروں کا معاشرتی حقائق سے الگ اور بالا تر بن کر رہنا کس طرح خودریاستی کارکردگی اوراس کی خرابیوں کی اصلاحات میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ریاست کی بنیاد ایک ایسے عمرانی معاہدے پر ہے جو کہ ریاست اور عوام کے درمیان منعقد ہوتا ہے۔

ہمارے آئین کی تمہید میں اس عمرانی معاہدے کا واضح اظہار اور اعلان موجود ہے ۔آئین میں واشگاف انداز میں کہا گیا ہے کہ یہ آئین عوام کے جذبات اور احساسات کا عکاس اور مظہر ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس کی جڑیں سماجی اقدار میں پیوست ہیں اور عوامی امنگوں کی بنیاد ہیں۔ البتہ سرسری طور پر دیکھنے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ریاستی کارگزاری میں اکثر عوامی احساسات اور امنگوں کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ سماج اور معاشرے کی اہمیت اور معاشرتی بنیاد پر مستحکم مضبوط ریاستی ڈھانچے کی اہمیت موجود ہ دور کی جنگوں اور بد امنی سے بھی ظاہرہوتی ہے جن کے ہر روز مظاہرے ہمیں عراق، لیبیا اور یورپی سمندروں اور ساحلوں پر نظر آتے ہیں۔ ریاست کی ایسی تعمیر جو سماج سے بالا ہو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ برادریوں ، قومیتوں اور فرقوں میں بٹ کر رہ جاتا ہے ۔

ایسی ریاست سماج سے الگ تھلگ ہو کر رہ جاتی ہے اورریاست کے اعلیٰ ایوانوں کی حدود میں سمٹ جانے اور محلات سے سماج میں ہر طرح کاتفرقہ جڑ پکڑنے لگتا ہے ۔ وہ سیاسی عمل اور عمرانی معاہدہ جس کے تحت یہ تفرقہ ختم کیا جا سکتا تھا اور باہمی یکجہتی جنم لے سکتی تھی وہ بد قسمتی سے بہت ملکوں اور معاشروں میں ختم ہوتا جا رہا ہے۔آج اس عمل کا ادراک کرنا ضروری ہے تا کہ عوام اور ریاست کے درمیان جو خلیج پیدا ہو چکی ہے اس کے کیا اسباب ہیں تا کہ اس خلیج کو ختم کیا جا سکے۔

ایک کامیاب ریاست کی علامت یہ ہے کہ طبقاتی گروہوں اور دیگرفرقوں کو ایک ایسا راستہ مہیا ہو جس کے تحت معاشرہ اور معاشرے کے اندر موجود مختلف فکر رکھنے والے طبقوں کو اپنی شکایت کے ازالے کے لئے ریاست کے اندر ہی جگہ مل سکے۔ لہٰذا میری رائے میں ایک کامیاب ریاست کے لئے لازم ہے کہ ریاست میں موجود ہر فرد اور گروہ کو اپنی شکایات کے ازالے کے لئے ریاستی امور میں جگہ مل سکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم تاریخ کے دھارے میں اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں ریاست اور عوام میں موجود خلیج کو پُر کرنے کی ضرورت گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ نمایاں ہو رہی ہے اور یہ خلیج اس بناء پر پیدا ہوئی ہے کہ معاشی اور سیاسی طبقات کے درمیان ناہمواری اور عدم مساوات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ریاستی اداروں تک ایسے شہریوں کی رسائی کم سے کم تر ممکن ہو رہی ہے جن کی ریاستی اداروں کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

اس موقع پر بطور عدلیہ کے سربراہ کے میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ عدلیہ کے اندر کوئی ایسی تحقیق نہیں کی گئی جس کے ذریعے وہ اعداد و شمار اکٹھے کئے جائیں جن کے بغیر موثر تجاویز اور اصلاحات پیش کرنا ممکن نہیں۔یہاں پر میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ مسئلہ صرف عدلیہ میں ہی نہیں بلکہ ملک کے بیشتر اداروں میں موجود ہے۔ میں نے بطور چیئرمین قانون و انصاف کمیشن دیگر ارکان کمیشن کے ساتھ مل کر کمیشن کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ اعداد و شمار اکٹھے کرے تا کہ ان کی بنیاد پر مؤثر اصلاحات اور اقدامات کیے جا سکیں۔

یہاں ایک مثال سے میں اپنے خیالات کو واضح کرنا چاہوں گا ۔ 2002 میں پولیس آرڈر جاری کیا گیا لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ بوجوہ جن میں اہلیت کا فقدان بھی ہے پولیس آرڈر کا صحیح معنوں میں اطلاق ہی نہیں ہو سکا۔ بلکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد دو صوبوں یعنی بلوچستان اور سندھ نے تو پھر سے نو آبادیاتی قانون مجریہ 1861ء بحال کر دیا جب کہ پنجاب میں پولیس آرڈر جزوی طور پر ہی لاگو کیا گیا جس کی وجہ سے وہ غیر مؤثر رہا۔

اور نتیجتاً عوام کی مشکلات کی داد رسی نہ ہو سکی۔انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ جو ہمارے ملک میں عنانِ اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں وہ یہ سوچتے ہیں کہ ملک کے شہریوں کو ان کا شکر گزار یا ممنونِ احسان ہونا چاہئے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک کا ہر شہری بلواسطہ یا بلاواسطہ ٹیکس دہندہ ہے حتیٰ کہ ایک نادار دہقان جب اپنی بچی کے لئے عید پر کپڑے یا جوتی خریدتا ہے توادا کردہ قیمت کا ایک حصہ ٹیکس میں سرکار کو جاتا ہے۔

لہٰذا شہریوں کو بہترین سہولیات فراہم کرنا ان پرریاست کاکوئی احسان نہیں بلکہ یہ شہریوں کا استحقاق ہے ایسا استحقاق ہی ریاستی پالیسیوں اور اصلاحات کی بنیاد ہونا چاہئیے۔ خوش قسمتی سے ہمارے آئین کی پہلی فصل میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے جو ہر شہری کا حق ہیں اور ان سے متصادم کوئی بھی قانون نافذ نہیں ہو سکتا۔ تمام ریاستی ادارے اور بالخصوص عدلیہ ان بنیادی حقوق کے اطلاق کے پابند ہیں۔

جب ریاست کی حقیقی اور بامقصد تعمیر مقصود ہو تو اس میں اولین ترجیح شہریوں کو سہولیات اور بنیادی حقوق کی فراہمی ہونی چاہئیے۔ ان کی امنگوں اور جائز حقوق کی ترجمانی ریاستی پالیسی کا لازم جزہونا چاہئیے۔ بالفاظ دیگرکوئی اصلاحات اس وقت تک مؤثر طور پر مکمل نہیں ہو سکتیں۔ جب تک ریاست اور عوام میں براہِ راست ربط اوررشتہ نہ ہو۔ قومی یکجہتی طبقاتی تفریق اور منافرت کے ماحول میں ممکن نہیں لہٰذا وہ خلیج جو ریاست اور عوام میں پیدا ہو چکی ہے اسے پُر کرنے کے لئے ہماری تمام تر پالیسیوں کا محور عوام الناس اور ان کے قانونی و آئینی حقوق ہونا چاہئیے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بطور جج میرے مشاہدے میں آیاہے کہ کم از کم چند شعبوں میں اس سوچ کا ادارک ہو رہا ہے گوکہ اس کی رفتار ابھی سست ہے مثلاً پولیس بذریعہ آرڈر 2002اور نظامِ جیل خانہ جات کی قانونی طور پر کچھ عوامی نمائندگان کو شامل کیا گیا ہے۔ اس عمل کو تقویت دینے کی ضرورت ہے تا کہ ریاست اور عوام الناس میں ہم آہنگی اور قربت پیدا ہو سکے۔

فی الواقع جن لوگوں کا ذمہ ہے کہ ریاستی پالیسی بنائیں وہ زیادہ تر دفتروں کے حصار میں بند رہتے ہیں جب کہ عوام الناس کو ان تک رسائی کے بہت کم مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ یہاں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر ریاست کے وجود کا مقصد کیا ہے۔ اس کا جواب ہر نظریاتی گروہ اور ہر ایک صاحبِ فکر کے تخیل میں ایک ہی ہے یعنی عوام الناس کی فلاح۔

فرق صرف اتنا ہے کہ متفرق نظریاتی سوچ میں اس ہدف کے حصول کے راستے مختلف بیان کئے گئے ہیں۔ ہمارے اپنے آئین میں تو بخوبی وضاحت کر دی گئی ہے کہ چونکہ پاکستان کے جمہور کی منشاء ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے، جس میں مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی جس میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پوری طرح عمل کیا جائے گاجس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں قانون اور اخلاق عامہ کے تابع حیثیت اور مواقع میں مساوات، قانون کی نظر میں برابری، معاشرتی، معاشی اور سیاسی انصاف اور خیال، اظہارِ خیال ، عقیدہ ، دین ، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہو گی جس میں اقلیتوں اور پسماندہ اور پست طبقو ں کے جائز مفادات کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا،1949ء میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان نے اپنی ایک تقریر میں آئینی اصول بیان کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’’ملک کے عوام ہی کو تمام طاقت اور اختیارات کا حامل تسلیم کیا گیا ہے اور انھی میں تمام طاقت برائے استعمال اختیارات مرکوز ہے‘‘ جناب سریش چندرا چھتوپدھیا آئین ساز اسمبلی میں نمائندہ تھے۔

انھوں نے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنی تقریر میں یہی جذبہ واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے ملک کے شہری ہی ہمارے مالک ہیں اور ہم اُن کے خدمت گار ملازم‘‘مزید تاریخی پس منظر میں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ1972-73میں قومی اسمبلی میں عوام کے ہمدرد نمائندگان موجود تھے۔ وہ خاص طور پر آئینی تقاضوں اور آئین کی زبان کے باریک نکتوں سے آگاہ تھے۔

یہی وہ سنہری اصول ہے جو ہمارے عمرانی معاہدہ (social contract) کی شکل میں آئینی تمہید میں موجود ہے اور جو آئین ساز اسمبلی میں کی گئی تقاریر سے مزید واضح ہوتا ہے۔ اُن ارکان کے نزدیک پاکستان کے عوام اب مغلوب و محکوم رعایا نہیں رہے تھے بلکہ ریاستی طاقت اور اختیارات کا سر چشمہ تھے، انہی نظریات کی عکاسی آئین میں اور مزید واضح طور پر نظر بھی آتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ ہمارے آئینی اور ریاستی نظام میں یہ بات حتمی طور پر طے شدہ ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے عوام کی رائے سے وجود میں آتے ہیں اور اپنے اختیارات اور وسائل کو عوام کے مفاد میں استقبال کرنے کے پابند ہیں ۔ اس کے بغیر ان کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ ریاست کی یہ کہانی قبل از آزادی ، یعنی نو آبادیاتی عہد کے دنوں سے شروع ہوتی ہے۔ جن دنوں ہندوستان کی آبادی استعماری احکامات کی اسیر تھی۔

ہندوستان کے عوام کو اپنی حکومت کاانتخاب کرنے کی آزادی حاصل نہ تھی نہ اس حکومت کی پالیسی سازی میں ان کا کوئی دخل تھا۔بلکہ 1947ء تک وہ ’’شاہ ِبرطانیہ‘‘کی رعایا تصور کئے جاتے تھے اس صورت حال کا خاتمہ1947ء میں آزادیٔ ہندوستان کے قانون کی دفعہ 7(2) کے تحت ہوا۔یہ شاہی قانونی القابات محض علامتی نہیں تھے بلکہ عملی طور پر ہندوستان کی حکومت کے ہرمعاملے میں ان کا مظاہرہ ہوتا تھا۔

اسی کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان کے لیے قانون بنانے کا کام ویسٹ منسٹر اور وائٹ ہال میں بیٹھے ہوئے مٹھی بھر لوگ کیا کرتے تھے۔رنجیت گپتا نے اس صورت حال کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’قانون کو عوام کی مرضی سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا‘‘۔اس تذکرہ کا مقصد یہ ہے کہ ایک معروضی حقیقت کو واضح طور پر بیان کر دیا جائے اور یہ نشان دہی کر دی جائے کہ وہ کون سی صورت حال تھی جسے آزادی کے بعد بدلنا لازم تھا۔

پاکستان کا طرزِ حکمرانی یعنی آزاد پاکستان کا آئین عوام کی مرضی اور رائے کے مطابق طے ہونا چاہیے تھا۔بے لچک اور فیصلہ کن آرا ایسے طرزِ حکمرانی کا پیش خیمہ نہیں بن سکتیں جس میں عوام، پارلیمنٹ میں شامل باد شاہ کی جگہ لے سکیں اورخود تمام قوانین کا ماخذ بن سکیں۔ یہاں فیضؔ صاحب یاد آتے ہیں جنھوں نے عوام کی ان امیدوں اور خوابوں کو زبان بخشتے ہوئے کہا تھاکہ:’’ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم،مسند پہ بٹھائے جائیں گے‘‘اب تک اگر یہ جذبہ محض کاغذی رہا ہے تو ا س میں قصور آئین کا نہیں، بلکہ اس پر عمل نہ کرنے والوں کا ہے جن کا فرض تھا کہ عوام کی مرکزی اہمیت کو حکومت کے ذریعے عملی طور پر اجاگر کریں کیوں کہ یہ عوام ہی ہیں جن کے لیے ریاست اور اس کے تمام ادارے تخلیق کیے گئے ہیں تاہم ایک اور تاریخی حقیقت پر ضرور غور کیا جانا چاہئیے۔

پروفیسر راج کمار چکراورتی جو مشرقی بنگال سے تعلق رکھتے تھے، اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے تیار تھے جو 1949ء میں قانون ساز اسمبلی کے ارکان کے درمیان خلیج پیدا کرنے کا باعث بن رہا تھا۔ اقلیتی ارکان نے قرار دادِ مقاصد کے متن کے متعلق کچھ تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ پروفیسر راج کمار چکراورتی نے اپنی تقریر میں عوام ہی کو ریاستی اداروں پر آئینی فوقیت کا نظریہ پیش کیا تھا۔

لیکن ان کی تجویز قبول نہیں کی گئی۔ تا ہم یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ دسمبر 1972میں جب قومی اسمبلی میں آئینی بل کا مسودہ پیش کیا گیا اور یہ تجویز دی گئی کہ قرار دادِ مقاصد کو اس آئین کی تمہید (preamble) کے طور پر شامل کر دیا جائے تو اس میں وہی تبدیلیاں کر دی گئیں جن کی تجویز پروفیسر چکراورتی نے دی تھی۔ 1949ء میں اپنی مجوزہ ترمیم کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اس ترمیم کے بعد مفہوم یہ ہو جائے گا ۔

اگرچہ پروفیسر چکراورتی 1949ء میں اس مقصد میں ناکام رہے تھے لیکن 1972-73 میں آئین سازوں کو 1949ء میں ہونے والی اس اہم بحث کا بخوبی علم تھا اور اسی کے نتیجے میں پاکستان کے عوام کو ان کا جائز حق اور مقام عطا کر دیا گیا۔ اور آئینی تمہید میں خاص طور پر ذکر کیا گیا کہ آئین کا سرچشمہ پاکستان کے عوام ہیں۔لہٰذا آج یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ ہمارے آئین کی رو سے ریاست کی ساری طاقت عوام کی مرہونِ منت ہے نہ کہ اس کے برعکس۔

اس نکتہ پر یہاں زور دینا ضروری ہے کیونکہ سال بہ سال ہمارے مشاہدے میں یہ بات آ رہی ہے کہ ہمارا نظامِ احتساب نہایت کمزور ہے اور عوام الناس کی شکایات کے بارے میں ریاستی اداروں میں حساسیت اور جواب دہی کا فقدان ہے۔ مثلاً دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر سال برسات کے موسم میں سیلاب آتا ہے اور غریب اور نادار لوگ ہر سال ہی اس آفت کا شکار ہوتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی مؤثر حل یا دیرپا علاج میسر نہیں گو کہ آئین کے آرٹیکل 9میں یہ واضح طور پر بیان ہے کہ :’’کسی شخص کو اس کی زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے اس صورت میں جس کی قانون اجازت دے‘‘۔

اس بنیادی حق کی موجودگی میں ریاست کیسے اس بارے میں غافل رہتے ہوئے سال بہ سال اپنے شہریوں کے جان و مال کو تباہی کا شکار ہوتے دیکھ سکتی ہے؟جب کہ آئین کی رو سے ریاست ہر فرد کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ اس رویہ سے عوام اور حکام کے درمیان خلیج وسیع تر ہو جاتی ہے۔ یہی وہ خلیج ہے کہ آئین میں تو بنیادی حقوق دے دئیے گئے ہیں لیکن در حقیقت نہ تو عام آدمی کو یہ حقوق خاطر خواہ طور پر میسر ہیں نہ ہی کوئی واضح لائحہ عمل ان حقوق کی باہم رسانی کا بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین ہی در حقیقت اس عمرانی معاہدے کو منعکس کرتا ہے جو کہ ریاست اور شہریوں کے درمیان طے پایا ہے۔ اس معاہدے سے ہی ریاست کا جواز پیدا ہوتا ہے اور جب بھی اس عمرانی معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ریاست کا جواز کم سے کم تر ہوتا جاتا ہے اور نتیجتاً ایسے خیالات اور رویے ابھرنے لگتے ہیں جو ریاست کی تباہی کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔

ہمارے ملکی حالات بھی بڑھتی ہوئی لاقانونیت کی وجوہات میں آئین سے انحراف بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے جب عوام اپنے آئینی حقوق سے محروم ہوتے ہیں تو مایوسی اور منافرت جنم لیتی ہے اور لا قانونیت کے دروازے کھول دیتی ہے۔ آج کی اس مجلس میں میرا دوسرا نکتہ ریاستی اداروں پر مرکوز ہے۔بہت سے بالغ نظر سوچ رکھنے والے مصنفین اور سیاسی مفکر اس بات پر متفق ہیں کہ ریاست کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اداروں کی فعالیت اور ان کی سنجیدہ کارگزاری پر ہوتا ہے ان مصنفین کی سوچ میں ریاستی ادارے جو عوام کی داد رسی کی بجائے عوام سے ان کے حقوق چھیننے میں مصروف رہتے ہیں وہ ہی ریاستوں کی ناکامی کی بنیاد بنتے ہیں۔

آج معاشرتی اور سماجی عوامل کو ریاست کے ڈھانچے کے ساتھ مربوط اور ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے اس ربط کے ادارک کے بغیر ریاست اور ریاستی اداروں کے جواز کا تعین کرنا نا ممکن ہے اور یہ بات خاص طور پر اُس وقت نمایاں ہوتی ہے جب ہمارے ریاستی ادارے اصلاحات تجویزکرنے اور ان کا اطلاق کرنے میں اسباب و نتائج کاجو ناگزیر تعلق ہے اس کا مکمل طور پر فہم نہیں کر پاتے۔

موجودہ قومی مباحثے میں جو عوامل زیادہ اہمیت کا باعث ہیں وہ مالی اور دیگر بد عنوانیاں ہیں ۔ بدعنوانیوں کی روک تھام کے لئے قانون میں ادارے موجود ہیں لیکن اُن کی کارکردگی کچھ ایسی نہیں کہ جس سے یہ تسلی ہو کہ بد عنوانی کا خاتمہ جلد ہو جائے گا۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہر شخص کی نظر میں بد عنوانی ہی وہ ناسور ہے جو ریاست کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے لیکن اس بارے میں کوئی خاطر خواہ قانون سازی یا دیگرمؤثر لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔

اسی بد عنوانی کی وجہ سے پاکستان کو اربوں بلکہ کھربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے ۔ علاوہ ازیں قانون و آئین کا اطلاق اور بالا دستی بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں۔اسی بد عنوانی کی وجہ سے عوام میں عدم مساوات انتہا تک پہنچ رہی ہے اور مفلس و نادار طبقے پسے چلے جا رہے ہیں جب کہ دولت مند حضرات مزید دولت مند ہوتے جا رہے ہیں یہاں پر ہمیں اپنی اخلاقی اقدار کیطرف بھی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے معاشرتی قدروں میں جس قدر انحطاط اور تنزلی رونما ہورہی ہے اچھے اور بُرے ، غلط اور صحیح ، سفید اور سیاہ دھن میں تمیز ختم ہوتی جا رہی ہے آج یہ صورتِ حال ہے کہ ہم من حیث القوم کسی شخص کی بے حساب دولت کے ذرائع سے نہ صرف غافل رہتے ہیں بلکہ ان ذرائع کے بارے میں تحقیق کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔

اس بدعنوانی کا ایک اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس کی بدولت عدم مساوات جنم لیتی ہے اور صرف مال و دولت کے انبار رکھنے والا چاہے وہ مال و دولت کسی بھی ذریعہ سے حاصل ہوئی ہو ، معاشرے میں قابلِ اعتبار ٹھہرتاہے اور اس اعتبار سے کام لے کر عنانِ اقتدار سنبھالنے میں پیش پیش رہتا ہے۔ اگر ریاست اور شہریوں میں خلیج کو کم کرنا مقصود ہے تو ہمیں بدعنوانی کے خاتمے کو اولین ترجیح بنانا ہو گا۔

چوں کہ ہمارا آئین ایک زندہ دستاویز ہے اس کو پڑھنا سمجھنا اوراس کا حقیقی اطلاق نہایت ضروری ہے اور روز کے بدلتے ہوئے حالات و واقعات کے مطابق اس اطلاق میں ارتقاء ناگزیر ہے۔ ایسے ہی ارتقاء کے ذریعے ریاست کا جواز قوی ہوتا ہے اور اس ارتقاء کے بغیر ریاست کا جواز کمزور پڑتا ہے۔ آئین اور قانون کے صحیح اطلاق سے ہی ریاست اور شہریوں میں دوری کو کم کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہی وہ ذریعہ ہے جو شہریوں کو ان کے آئینی اور قانونی حقوق بہم پہنچا سکتا ہے۔

المختصر یہ کہ ریاست خود مقصود بالذات چیز نہیں ہے بلکہ ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے اور وہ مقصد ہے کہ معاشرہ کی فلاح اس کے افراد کے وقار ، جان و مال اور ان کے انفرادی اور اجتماعی مفادات کی نگرانی اور تحفظ، اسی مقصد کے حصول کی خاطر ریاست کے مختلف ادارے وجود میں آتے ہیں۔ جہاں یہ مقصد اوجھل ہوتا ہے ریاست اور شہریوں کے باہمی تعلقات میں رخنہ پیدا ہونے لگتا ہے، ریاست کا رخ فلاحِ اجتماعی سے ہٹ جاتا ہے۔

اس کا نتیجہ عدم اعتماد ، بے چینی، انتشار اور تفرقہ کی صورت میں ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ اگر آج ہم اپنے ملک کو در پیش مسائل سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سنجیدگی سے ریاست اور عوام کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلوں کو ختم کرنے کا اہتمام کرنا ہو گا اور ان تمام نو آبادیاتی نشانیوں کو مٹانا ہو گا جن کا مقصد ہی یہ تھا کہ عوام کر ہر لمحہ محکوم اور مغلوب ہونے کا احساس دلایا جائے۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں