جعلی ڈگری پر ملازمت حاصل کرنا مجرمانہ اقدام ہے، تمام ملازمین کی ڈگریوں کی ہائرایجوکیشن سے تصدیق یقینی بنائی جائے اور جس کی ڈگری جعلی ثابت ہو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی

پیر 7 ستمبر 2015 20:21

اسلام آباد ۔ 7 ستمبر (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 ستمبر۔2015ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے کہا ہے کہ جعلی ڈگری پر ملازمت حاصل کرنا مجرمانہ اقدام ہے، اس حوالے سے قانونی کارروائی کے دور رس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، تمام ملازمین کی ڈگریوں کی ہائرایجوکیشن سے تصدیق یقینی بنائے اور جس کی ڈگری جعلی ثابت ہو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے، پی اے سی حکومت سے سرکاری ذرائع ابلاغ کو حقیقت پسندانہ اور ان کی ضرورت کے مطابق فنڈز کی فراہمی کیلئے سفارش کرے گی۔

پی اے سی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینر سردار عاشق حسین گوپانگ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان ڈاکٹر عذرہ فضل پیچوہو،شاہدہ اختر علی اور شیخ روحیل اصغر سمیت وفاقی سیکرٹری اطلاعات محمد اعظم، ایم ڈی پی ٹی وی، ایم ڈی اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔

(جاری ہے)

07 ستمبر۔2015ء اور ڈی جی ریڈیو اور دیگر اعلیٰ سرکاری افسران نے شرکت کی۔

اجلاس میں وزارت اطلاعات ونشریات کے حسابات کا جائزہ لیا گیا۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے آڈٹ اعتراضات کے جائزے کے دوران کمیٹی نے ہدایت کی کہ ریڈیو کے حسابات باقاعدگی سے رکھنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ ڈی جی ریڈیو نے بتایا کہ ادارے میں ابھی تک1455 آسامیاں خالی ہیں،4330 آسامیوں کی گنجائش ہے تاہم اس وقت کل2875 افراد کام کررہے ہیں ۔

ریڈیو پاکستان میں 2005ء میں کنٹریکٹ پر بھرتی کئے گئے افراد کو خلاف ضابطہ ریگولرائز کرنے کے حوالے سے آڈٹ اعتراضات کے جائزے کے دوران سیکریٹری اطلاعات ونشریات محمد اعظم نے پی اے سی کو یقین دلایا کہ ہم نے تمام ماتحت اداروں کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ اس قسم کی باضابطگیوں سے اجتناب کیا جائے۔ پی اے سی نے سیکرٹری اطلاعات ونشریات کی یقین دہانی کے بعد معاملہ نمٹا دیا تاہم ہدایت کی کہ آئندہ کیلئے اس طرح کی بے ضابطگیوں سے اجتناب کیا جائے اور جو بھی ادارہ اس طرح کی بے ضابطگی میں ملوث ہو متعلقہ سرکاری افسر کے خلاف کارروائی کی جائے ۔

آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ ریڈیو کے اشتہارات کی ریکوری قانونی طور پر 90 دنوں میں ہونی چاہیئے۔مگر 230 دن گزر جانے کے بعد بھی ریکوری نہیں کی جاتی۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ90 دنوں میں اشتہارات کی ریکوری یقینی بنائی جائے۔ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ جہاں بھی کرپشن ہے وہ ناقابل معافی جرم ہے اس کی کوئی معافی نہیں دے سکتا، مگر جہاں بدعنوانی ہے وہ پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر درست کرسکتا ہے، کرپشن پر کوئی سجھوتہ نہیں ہونا چاہیئے۔

پی ٹی وی کے حوالے سے آڈٹ اعتراضات کے جائزے کے دوران بطور ایم ڈی پی ٹی وی نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ ایک سال بعد بازپرس ہونی چاہیئے، میں جن کیسز کو بھگت رہا ہوں وہ میں نے نہیں کئے، میں آج بڑے آرام سے فیصلے کررہا ہوں کیونکہ مجھے پتہ ہے میری باری نو دس سال بعد آئے گی، نظام میں موجود اس سقم کو دور ہونا چاہیئے۔ شیخ اویس اصغر نے کہا کہ سفارش کا کلچر ختم ہونا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایم ڈی کا عہدہ سنبھالتے ہی پی ٹی وی کا آڈٹ کرایا۔ ہم نے نئی پروکیورمنٹ پالیسی تیار کرلی اور ہم نے تقریباً 2 ارب روپے کے قرضے اپنے وسائل سے اتارے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی پورے ملک میں لوگوں تک اپنے پروگرام ٹراسمیٹرز لگا کر پہنچا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی اور اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 ستمبر۔

2015ء کے پروگرام اور خبریں دیکھ لیں ان میں اپوزیشن نظر آئے گی، ہمیں صرف 4 ارب ملتے ہیں مگر ہم 7 سے8 ارب روپے خرچ کرتے ہیں۔ پی ٹی وی قومی مفاد کو مد نظر رکھ کر کام کرتا ہے جبکہ باقی ٹی وی چینلز کا واحد مقصد منافع کمانا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ایم ڈی پی ٹی وی نے کہا کہ اس وقت پی ٹی وی کے گزشتہ 6 سے7 سالوں کے مجموعی نقصانات10 ارب روپے ہیں۔کمیٹی کے کنوینر عاشق حسین گوپانگ نے کہا ہے کہ ہم کسی کی ذات پر اعتراض نہیں کرتے بلکہ کسی پیش رو نے اگر کوئی غلط کام کیا ہوتا ہے تو نئے آنے والے کو انکوائری کرانی چاہیئے۔

شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ آپ لوگ ایسی مثال قائم کر جائیں جسے آئندہ آنے والے نہ توڑ سکیں۔ محمد مالک نے کہا کہ ہم نے آؤٹ آف ٹرن پروموشن کا سلسلہ روک دیا ہے، پہلے والے تمام کیسز کے حوالے سے سپریم کورٹ سے راہنمائی کیلئے رجوع کرلیا ہے۔ ڈی جی ریڈیو نے کہا کہ تمام ترقیاں میرٹ پر کی جارہی ہیں۔ پی اے سی نے کہا کہ ڈی جی ریڈیو اور ایم ڈی پی ٹی وی کے حالیہ اقدامات اور کردار سے ہم مطمئن ہیں تاہم ماضی کے زیر التوا آڈٹ اعتراضات نمٹانا بھی ان کی ذمہ داری ہے اس حوالے سے الگ سیٹ اپ قائم کرکے کام کو نمٹایا جائے۔

اور تمام معاملات کی انکوائری کرائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پی اے سی حکومت کو سفارش کرے گی کہ سرکاری ذرائع ابلاغ کو ان کی ضروریات اور حقائق کو مدنظر رکھ کر فنڈز فراہم کئے جائیں۔ ایک اور آڈٹ اعتراض کے جائزے کے دوران پی اے سی نے ریمارکس دیئے کہ ترقی یافتہ قوموں نے بورڈ آف ڈائریکٹرز اداروں کی ترقی کیلئے بنائے۔ہم نے ان کی تقلید کی مگر ہم نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے جو فیصلے دیکھے ان میں مادر پدر آزادی نظر آتی ہے ۔

پی اے سی نے ہدایت کی کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز سے پالیسی سازی کرائی جائے۔ سیکرٹری اطلاعات محمد اعظم نے کہا کہ وہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ہیں، ان کے دور میں کوئی ایسا غلط فیصلہ نہیں ہوا۔ پی اے سی کے استفسار پر محمد مالک نے کہا کہ جعلی ڈگری والے 82 ملازمین کو ہم نے نکال دیا ہے۔ سردار عاشق حسین گوپانگ نے کہا کہ جعلی ڈگری پر ملازمت دینا یقیناً مجرمانہ اقدام ہے اس پر سیاست دانوں اور سینئر بیوروکریٹس کے خلاف ایف آئی آرز درج ہونی چاہئیں۔

محمد مالک نے کہا کہ ہم نے ایف آئی آر درج کرادی تو ہر کیس کیلئے وکیل رکھنا پڑے گا اور فی پیشی ہمیں25 ہزار روپے دینے پڑیں گے، ریکوری پھر بھی نہیں ہوگی، جعلی ڈگری کے معاملے کو روکنے کیلئے فوجداری قانون کے تحت ایف آئی آر کے اندراج کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے، اس لئے تمام ملازمین کی ڈگریوں کی تصدیق کرائی جائے اور جن لوگوں کی ڈگریاں بوگس ثابت ہوں تو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے اور دو ماہ میں پی اے سی کو رپورٹ پیش کی جائے۔

آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ قومی خبررساں ادارے”اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 ستمبر۔2015ء“نے 2003-04ء سے2006-07ء تک آڈٹ شدہ حسابات جمع نہیں کرائے۔ ایم ڈی اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 ستمبر۔2015ء نے کہا کہ 2003ء سے 2007ء تک کے آڈٹ شدہ حسابات ہم نے جمع کرا دیئے ہیں، تاخیر کے حوالے سے انکوائری جاری ہے۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں