سپریم کورٹ، لال مسجد آپریشن با رے اہم ترین دستاویزات اور شواہد کو سامنے لانے کی درخواست سماعت کیلئے منظور ،وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری، دو ہفتوں میں جواب طلب

جمعرات 10 ستمبر 2015 15:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 10 ستمبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کرنے والے ایک کمیشن کی رپورٹ میں اب تک خفیہ رکھے جانے والی اہم ترین دستاویزات اور شواہد کو سامنے لانے کی درخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کردیئے ہیں اور ان سے دو ہفتوں میں جواب طلب کیا ہے ۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعرات کے روز طارق اسد ایڈووکیٹ کی درخواست پر نوٹس جاری کئے ہیں جبکہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ دستاویزات کو افشاء کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ وفاق کو سننے کے بعد کرینگے ۔

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز لال مسجد کے وکیل کی گزارشات کے جواب میں کہا ہے ۔جس میں لال مسجد کے وکیل نے عدالت کو بتایا ہے کہ لال مسجد آپریشن پر بنائے گئے آپریشن کی رپورٹ کو بھی آئے ہوئے عرصہ ہوگیا اوراس دوران سات چیف جسٹس صاحبان بھی اپنی مدت ملازمت مکمل کرتے ہوئے ریٹائر ہوگئے ہیں اب یہ مقدمہ آپ کی عدالت میں ہے درخواست کرتے ہیں کہ اس مقدمے کو اپنی مدت ملازمت کے دوران ہی مکمل کریں کیونکہ پہلے بھی چار سال گزر چکے ہیں مقدمے کی سماعت نہیں ہوئی ۔

(جاری ہے)

درخواست سماعت شروع ہوتے ہی درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ لال مسجد کیس میں تین مختلف ایشوز زیر سماعت ہیں ایک دو ہزار سات میں لیا گیا ازخود نوٹس جو لال مسجد آپریشن کیخلاف لیا گیا تھا دوسرا ایک آئینی درخواست جو دو ہزار سات میں دائر کی گئی تھی جس پر عدالت نے آرڈر جاری کئے تھے تیسرا ایشو عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کئے جانے کے معاملے پر دائر کردہ توہین عدالت کی درخواست ہے عدالت نے توہین عدالت کی درخواست پر ایک کمیشن مقرر کیا تھا جس میں ایک تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی تھی اس میں بعض ایسی چیزیں بھی تھیں جنہیں سربمہر لفافوں میں عدالت میں پیش کیا گیا تھا

ان اہم دستاویزات میں ایسی چار شہادتیں بھی ہیں جو کمیشن نے ریکارڈ کی ہیں اور بعض ایسے بھی معاملات ہیں جو ہمارے علم میں نہیں ہیں یہ ریکارڈ کھلے گا تو معاملات سامنے آئینگے اس لئے ہم استدعا کرتے ہیں کہ اب تک خفیہ رکھے گئے دستاویزات کو کھلا جائے اور سب کچھ سامنے لایا جائے جس پر چیف جسٹس انور ظہیرجمالی نے کہا کہ فیصلہ کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے فریق کو بھی سن لیا جائے فی الحال ہم وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کررہے ہیں اور ان سے دو ہفتوں میں جواب مانگ ر ہے ہیں ان کے جواب کے بعد ہی ان سربمہر دستاویزات کو کھولنے اور نہ کھولنے بارے فیصلہ کیاجائے گا اس پر طارق اسد نے استدعا کی کہ اس مقدمے کو پہلے ہی کافی عرصہ ہوگیا ہے اس کو اب اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے جس پر عدالت نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں کیس کی سماعت کی جائے گی بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کردی ۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں