وزارت خارجہ میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف

وزارت کے کئی لوگ کرپشن کر کے بیرون ملک پناہ لے چکے ہیں ،اس سے ملک کی بدنامی ہو رہی ہے 1994-95ء میں افغانستان میں قائم پاکستانی سفارتخانے کو 2 مرتبہ جلایا گیا تھا ،اس سے قومی خزانے کو 47 کروڑ 57 لاکھ روپے کا نقصان ہوا پبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام کی بریفنگ ہمارے پاس غیر مصدقہ اطلاعات ہیں ، رفیق الرحمن سنجرانی اس وقت سیاست میں آ چکے ہیں ،اس کیس کو ایف آئی اے یا نیب کے حوالے کریں گے ، سیکرٹری خارجہ

پیر 14 ستمبر 2015 20:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 14 ستمبر۔2015ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں وزارت خارجہ میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے ‘ وزارت کے کئی لوگ کرپشن کر کے بیرون ملک پناہ لے چکے ہیں جس سے ملک کی بدنامی ہو رہی ہے ‘ سال 1994-95ء میں افغانستان میں قائم پاکستانی سفارتخانے 2 دفعہ جلایا گیا تھا جس سے قومی خزانے کو 47 کروڑ 57 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

آڈٹ حکام کے مطابق وزارت میں مالی سال 1998-99 کی آڈٹ رپورٹ وزارت سے منسلک کئی افسروں نے بے قاعدگی کی اور 17 سال گزرنے کے باوجود اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ذمہ داروں کا تعین کرنے کے بعد بھی ان کے خلاف کارروائی نہ ہونا افسوس ناک ہے۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ فی الفور تمام معاملات کی تحقیقات کروا کر ایک ماہ میں رپورٹ کمیٹی کو پیش کی جائے۔

(جاری ہے)

وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے آڈٹ اعتراضات میں بھی آڈٹ حکام کی جانب سے بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا۔ 50 کروڑ روپے تجارتی قرضے اب تک وصول نہیں ہوئے۔ 17 سال ہو گئے ذمہ داروں کا تعین کیا جاتا تو اس مسئلے کو وقت پر حل کیا جاتا اس کا ذمہ دار کون ہے۔ کمیٹی کا استفسار آڈٹ حکام نے کہا کہ اگر قرضے معاف کرانے تھے تو عدالتوں میں وقت اور وکیلوں پر پیسے کیوں ضائع کئے۔

پیر کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنونیئر کمیٹی شاہدہ اختر علی کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں آڈٹ حکام نے وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل اور وزارت خارجہ کے مالی سال 1998-99ء کے آڈٹ اعتراضات پیش کئے۔ وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے آڈٹ اعتراضات میں 50 کروڑ روپے کے تجارتی قرضے نہ وصول کرنے پر کمیٹی نے ہدایت کی کہ 17 سال قبل سے معاملات طے پا جاتے تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔

سیکرٹری پٹرولیم نے کہا کہ اس کونمٹا دیا جائے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں جس پر کمیٹی نے کہا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ آڈٹ اعتراضات میں اس مسئلے کو لایا گیا ہے تو آپ بھی وصولیاں کر کے نمٹا سکتے تھے۔ کمیٹی کی جانب سے 50 کروڑ کے قرضوں والے معاملے کو موخر کر دیا۔ وزارت پٹرولیم کے 5 ارب کے بقایا جات صرف 31 کروڑ روپے وصول کئے گئے جس پر کمیٹی نے ایک ماہ کی مہلت دی کہ ایک ماہ میں اس کی رپورٹ کمیٹی کو دی جائے جس پر وزارت کی چیف فنانشنل آفیسر عظمیٰ عادل خان نے کہا کہ یہ وصولیاں(این آئی ایف ٹی) کا ادارہ کرتا ہے یہ ہم نہیں کر سکتے ہم اس کی جتنی تصدیق کروا سکتے ہیں اتنی کریں گے۔

وزارت خارجہ کے مالی سال 1998-99ء کے آڈٹ اعتراضات کروڑوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا۔ وزارت کے افسران اور کلیریکل سٹاف بدعنوانی میں ملوث ہونے پر فارغ بھی کر دئیے گئے ہیں مگر ان کے خلاف انکوائری نہیں ہو رہی کیونکہ بہت سے افراد بیرون ملک پناہ لے لیتے ہیں۔ وزارت کے سٹینو گرافر رفیق الرحمان سنجرانی نے 12 لاکھ سے زائد رقم اپنے بچے کے تعلیمی اخراجات کیلئے جعلی رسیدیں جمع کروا کر پیسے حاصل کئے اور جب انکوائری کی گئی تو ان کا کوئی بچہ نہیں تھا۔

آڈٹ حکام نے کہاکہ جو لوگ ملک سے بھاگ کر بیرون ملک جا کر ملک کی بدنامی کر رہے ہیں سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارے پاس غیر مصدقہ اطلاعات پہنچی ہیں ۔ رفیق الرحمن سنجرانی اس وقت سیاست میں آ چکے ہیں اور انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی بھی بنا لی ہے اس لئے ہم اس کیس کو ایف آئی اے یا نیب کے حوالے کریں گے جس پر کمیٹی نے کہاکہ اگر وزارت بروقت کارروائی کر لیتی تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی ۔

آڈٹ حکام کی جانب سے ای ک آڈٹ اعتراض پر سیکرٹری خارجہ نے کہا اس وقت افغانستان میں کوئی بھی شخص جانے کو تیار نہیں تھا اور فدا یونس اس وقت گئے اور نامساعد حالات میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اگر انہوں نے 23 لاکھ روپے لئے ہیں وہ خرچ بھی کئے ہونگے اور سفارتخانے کے جلنے کے بعد وہ ریکارڈ نہیں مل سکا۔ لہذا اس آڈٹ اعتراض کو نمٹا دیاجائے۔ آڈٹ حکام کی جانب سے سفارتی تحائف کے حوالے سے اٹھائے گئے اعتراض کے حوالے سے سیکرٹری خارجہ نے کہاکہ اس وقت کے صدر اور وزیر اعظم پاکستان نے دوسرے ممالک کے سربراہان کوتحفے دئیے تھے اور اتنا پرانا ریکارڈ وزیر اعظم ہاؤس اور ایوان صدر سے حاصل نہیں کر سکتے۔

جس پر کمیٹی نے کہا کہ وزارت کو اسٹاک رجسٹر رکھنا چاہیے تھا۔ وزارت خارجہ کے آڈٹ اعتراضات میں لائبریری کیلئے کتابیں خریدنے اور پھر ان کتابوں کی لائبریری میں غیر موجودگی پر آڈٹ حکام نے اعتراض اٹھایا کہ 38 لاکھ کی کتابیں خریدنے کیلئے نکالے گئے مگر ان کا ریکارڈ نہیں ہے جس پر سیکرٹری خارجہ نے کہاکہ اس کی ذمہ داری اس وقت کے اسسٹنٹ لائبریرین احمد ندیم شیخ پر عائد ہوتی ہے جس پر کمیٹی نے کہا کہ صرف ایک شخص اس کا ذمہ دار نہیں ہے بلکہ سپر وائزر سے بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔

ٹریول ایجنسیز کے بقایا جات کے حوالے سے کمیٹی نے ہدایت کی کہ ان سے جلد از جلد وصولیاں کی جائیں اگر نجی یا ذاتی وصولیاں ہوں تو یہ کب کی ہو جاتیں مگر یہ محکمانہ وصولیاں ہیں جو ابھی تک نہیں ہو رہی۔ افغانستان میں جلنے والے سفارتخانے سے 47 کروڑ کے ہونے والے نقصان کے حوالے سے سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ افغان حکومت نے ہمیں پیسے نہیں دئیے او راس کو معاف کروانے کے لئے ہم فنانس کمیشن کو 3 سال پہلے لکھا ہے لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔

سفارتخانہ تو جل گیا مگر پیسے کون دے گا لہذا کامن سینس کا معاملہ ہے اس کو معاف کر دیا جائے جس پر آڈٹ حکام نے کہا کہ ہم قانون کی تقلید کرتے ہیں ہم کامن سینس کی تقلید نہیں کرتے اس کے لئے کوئی طریقہ کار ہوتا ہے۔ آڈٹ حکام کی جانب سے اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر جاپان اور کولمبو سے کراکری منگوائی گئی جس میں 60 لاکھ روپے کی بے ضابطگی ہوئی ۔ اجلاس کے دوران صرف 6 سیٹ پیش کئے گئے مگر وزارت نے 110 سیٹ خریدے جس پر سیکرٹری خارجہ نے کہاکہ ہمارے مشن میں ٹوٹل 42 سیٹ استعمال ہوئے جو ہم نے بتا دیا اب ہم وزیروں کے گھروں میں نہیں جا سکتے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں