وزیر اعظم کاپاکستان بھر میں زرعی شعبے کیلئے 341ارب روپے کے ریلیف پیکیج کااعلان

منگل 15 ستمبر 2015 14:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 15 ستمبر۔2015ء)وزیر اعظم محمد نواز شریف نے پاکستان بھر میں زرعی شعبے کیلئے 341ارب روپے کے ریلیف پیکیج کااعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ زرعی نظام اور کسانوں کو مزید سہولیات دینے کیلئیقانون سازی کی ضرورت ہوئی تو وہ بھی کریں گے ‘ہمارے کھیت زرخیز اور کسان محنتی ہیں اس کے باوجود فی ایکڑ پیداوار بین الاقوامی معیار کی نہیں ‘ وقت آگیا ہے ہمارے کسان پروگریسو فارمنگ کی طرف آئیں اور جدید زرعی تحقیق سے فائدہ اٹھائیں ‘ ساڑھے بارہ ایکڑ یا کم زمین رکھنے والے کسانوں کو سولر ٹیوب ویل نصب کرنے یا موجودہ ٹیوب ویل کو شمسی توانائی پر تبدیل کرنے کیلئے بلا سود قرضے دئیے جائیں گے ‘بجلی کے نرخوں میں رعایت فراہم کرنے کے لیے وفاقی حکومت سات ارب روپے ادا کریگی ‘ صوبائی حکومتوں کے تعاون سے چھوٹے کسانوں کو پانچ ہزار روپے فی ایکڑ نقد امداد ادا کی جائیگی ‘سو ارب روپے کے اضافی قرضے ساڑھے بارہ ایکڑ رقبہ رکھنے والے کسانوں کو دیے جائیں گے ‘جدید ترین مشینری اور آلات کی حوصلہ افزائی کیلئے حلال گوشت کا پیداواری یونٹ لگانے والوں کو چار سال کیلئے انکم ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے ‘31دسمبر2016ء سے پہلے” حلال“ کی باقاعدہ تصدیق حاصل کرنا ہوگی ‘ 2015-16کیلئے رائس ملرز کوٹرن اوور ٹیکس میں میں مکمل چھُوٹ دی جائیگی ‘قیمت کی فوری پانچ سو روپے کمی کااعلان کرتا ہوں ‘ کھاد کی قیمتوں کو پرانی سطح پر لایا جائیگا ‘وزرائے اعلیٰ کاشتکارں کو فائدہ پہنچانے کیلئے تحصیل کی سطح تک نگرانی کا نظام ترتیب دیں ‘ کچھ مخالفت چاہتے ہیں نواز شریف چلے جائیں اور ہم آجائیں ‘ دہشتگردی کے خلاف جنگ اورکراچی آپریشن پہلے کیوں شروع نہیں کیا گیا اور ملک میں ترقیاتی منصوبے بنانا کیا صرف ہماری ہی ذمہ داری تھی۔

(جاری ہے)

منگل کو کنونشن سنٹر میں وزیر اعظم نے کسانوں سے خطاب کے دور ان پیکج کے اہم نکات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں زرعی شعبے کے حالات کچھ اطمینان بخش نہیں ہیں ہمارے کسان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے کبھی ناموافق قدرتی حالات اور کبھی قیمتوں کا اتار چڑھاؤ جن کی وجہ سے کسان کو اپنی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا ایسے میں ضروری ہے کہ حکومت آگے بڑھ کر کسانوں کا ہاتھ تھامے،

مشکلات کا حل نکالے اور کسانوں کو حوصلہ اور ہمت دلائے تا کہ وہ اور زیادہ خلوص اور محنت کے ساتھ اپنے کھیتوں کو سرسبز و شاداب بناتے رہیں۔

اپنی اس سوچ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے کسان بھائیوں کیلئے ایک ریلیف پیکج تیار کیا گیا ہے۔اس ریلیف پیکج کے چار حصے ہیں۔ پہلا حصہ براہ راست مالی تعاون کا ہے۔ دوسرا حصہ پیداواری لاگت کو کم کرنے کا ہے ،تیسرا حصہ زرعی قرضوں کی فراہمی کا ہے اور آخری حصہ قرضے کے حصول کو آسان بنانے کے لیے ہے۔ انہوں نے کہاکہ براہ راست ریلیف کیلئے چاول اور کپاس کے کاشت کاروں کو فوری نقد امداد ادا کی جائے گی۔

چاول کے کاشت کار بہترین فصل کے باوجود غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں کیونکہ عالمی منڈی میں چاول کی قیمتیں گرنے سے برآمدات شدید متاثر ہوئیں اور چاول ذخیرہ ہو گیا۔ نئی فصل کی آمد پر کسانوں کو فروخت میں دشواری کا سامنا ہے۔ اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صوبائی حکومتوں کے تعاون سے چھوٹے کسانوں کو پانچ ہزار روپے فی ایکڑ نقد امداد ادا کی جائے۔

یہ رقم ساڑھے بارہ ایکڑ تک رقبے پر چاول کاشت کرنے والے کسانوں کو دی جائے گی۔اِس پر تقریباً بیس ارب روپے خرچ ہوں گے جو صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت مساوی طور پر برداشت کریں گی۔ کسانوں کے ساتھ ساتھ چاول کے تاجروں کی مشکلات کم کرنے کا بھی اہم اعلان کیا جائیگا۔ میں نے وفاقی وزارت ِ تجارت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایران،مشرقِ وسطیٰ اور دیگر ممالک کو چاول برآمد کرنے پر خصوصی توجہ دیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ چاول کے علاوہ کپاس کے کاشت کار بھی توجہ کے مستحق ہیں کیونکہ عالمی منڈی میں کپاس کی قیمتیں بھی کافی کم ہوئی ہیں ۔ سیلاب اور بارشوں سے کپاس کی فصل کو نقصان اٹھانا پڑا۔ ان وجوہات کی بنا پر کسان کو بیج، کھاد، ادویات اور اپنی محنت کا معاوضہ ملتا نظر نہیں آ رہا ۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ کپاس کے چھوٹے کاشت کاروں کو فی ایکڑ پانچ ہزار روپے کی نقد امداد دی جائے۔

ساڑھے بارہ ایکڑ تک رقبے پر کپاس اُگانے والے کسانوں کو یہ رقم دی جائے گی۔اِس پر بھی بیس ارب روپے خرچ ہوں گے، جس میں صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت برابر کا حصہ ڈالیں گی۔وزیراعظم نے کہا کہ زرعی اجناس کی قیمت میں کمی آنے سے کسان کی آمدنی میں کمی ہو رہی ہے جب کہ بیج، کھاد اور زرعی ادویات وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جس سے پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے اور منافع کم ہو گیا ہے۔

اس توازن کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پیداواری لاگت کو کم کیا جائے تا کہ کسان خوش حال ہوں۔

صارفین کو زرعی اجناس مناسب نرخوں پر مل سکیں اور ہماری زرعی پیداوار عالمی منڈی میں مقابلہ کر سکے۔اس لیے کسانوں کی بنیادی ضرورت کھاد کی قیمتیں کم کرنے کیلئے حکومت بیس ارب روپے کا ایک فنڈ قائم کر رہی ہے جس میں صوبائی اور وفاقی حکومتیں برابر کی حصے دار ہوں گی۔

پوٹاشیم اور فاسفیٹ کھاد زمین کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں اہمیت رکھتی ہیں۔ اِن دونوں کھادوں کی قیمتوں میں فی بوری کم از کم پانچ سو روپے کمی واقع ہو جائے گی۔ اِس کے علاوہ یوریا کھاد کی قیمتیں مستحکم رکھنے کے لیے حکومت ہر سال سرکاری خرچ پر یوریا درآمد کرتی ہے جو کسانوں کو سستے داموں فراہم کی جاتی ہے۔ اس سال اس کے لیے پچیس ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

مقامی طور پر کھاد ساز کارخانوں نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے دو سو روپے فی بوری تک اضافہ کر دیا تھا۔ جس سے ربیع کی فصل کی پیداوار متاثر ہونے کا خطرہ تھا۔ اس سلسلے میں حکومت گیس کمپنیوں اور کھاد ساز کارخانوں سے بات چیت کر رہی ہے تاکہ مقامی کھاد کی قیمتیں پرانی سطح پر واپس لائی جا سکیں۔ یعنی ان قیمتوں میں 200روپے فی بوری کا جو اضافہ حالیہ دنوں میں کیا گیا ہے وہ واپس ہو جائے گا۔

میں اس موقع پر تمام وزرائے اعلیٰ سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ مقامی سطح پر اس کمی پر عمل درآمد کو یکم اکتوبر سے یقینی بنائیں اور تحصیل کی سطح تک نگرانی کا ایسا نظام ترتیب دیں کہ اس کا تمام تر فائدہ کاشت کاروں کو ملے اور کوئی ایک روپے کا ناجائز منافع حاصل نہ کر سکے ۔گیس کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے قدرتی مائع گیس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ یوریا کھاد کی مقامی پیداوار بڑھائی جا سکے۔

اس سے کھاد کی درآمد پر قیمتی زرمبادلہ کی بچت بھی ہو گی۔وزیر اعظم نے کہا کہ کاشت کار اپنی پوری محنت اور سرمایہ کاری کُھلے کھیتوں میں کرتا ہے اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ایسے میں کسانوں کو فصلوں کی انشورنس کی سہولت حاصل ہونی چاہیے مگر چھوٹے کاشت کارپریمئم کی ہمت نہیں رکھتے۔ اس ضمن میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ فصلوں کے لیے اٹھائے گئے قرضوں کی انشورنس کیلئے پریمئم حکومت خود ادا کرے گی۔

اس پر اڑھائی ارب روپے خرچ آئے گا۔تقریباً سات لاکھ چھوٹے کاشت کاروں کو فائدہ پہنچے گا۔ اگر خدا نخواستہ فصلوں کو کسی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو قرضوں کی ادائیگی کے لیے کسان پر بوجھ نہیں پڑے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ کھیتوں کی آبیاری زراعت کی جان ہے اور ٹیوب ویل پانی کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہے۔ڈیزل اور بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویل لاگت میں اضافہ کرتے ہیں۔

اس لیے ساڑھے بارہ ایکڑ یا اس سے کم زمین رکھنے والے کسانوں کو سولر ٹیوب ویل نصب کرنے یا موجودہ ٹیوب ویل کو شمسی توانائی پر تبدیل کرنے کے لیے بلا سود قرضے دیے جائیں گے۔اِن قرضوں پر سات سال کا مارک اَپ وفاقی حکومت ادا کرے گی،جس پر ساڑھے چودہ ارب روپے خرچ ہوں گے۔ روزانہ پانچ گھنٹے ڈیزل انجن چلانے والے کسان کو سولہ سو ساٹھ روپے اور بجلی سے ٹیوب ویل چلانے والے کسان کو تقریباً پانچ سو روپے یومیہ بچت ہو گی۔

بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویل کو پہلے ہی رعایتی نرخ پر بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ رواں مالی سال میں 30جون 2016ء تک زرعی ٹیوب ویل کے لیے بجلی کا رعایتی نرخ10.35روپے پیک آور کے لیے مقرر کیا گیا ہے اور 8.85روپے آف پیک آور کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔پرانے بل کی ادائیگی 31دسمبر 2015ء تک کی جا سکے گی۔ بجلی کے نرخوں میں رعایت فراہم کرنے کے لیے وفاقی حکومت سات ارب روپے ادا کرے گی۔

ان بلوں پر سیلز ٹیکس کی ادائیگی صوبائی حکومتیں کریں گی جو سات ارب روپے کے برابر ہے۔ اس طرح کسانوں کو بجلی کے ٹیوب ویل سے آبپاشی کرنے کے لیے چودہ ارب روپے کی معاونت حاصل ہو جائے گی۔وزیر اعظم نے کہا کہ جو زمین دستیاب ہے اس کی پیداواری صلاحیت سے استفادہ کرنے کے لیے اور بڑھانے کے لیے جدید زرعی مشینری مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان میں زرعی مشینری کی درآمد کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس وغیرہ کی شرح 43 فیصدبن جاتی ہے۔

موجودہ مالی سال میں زرعی مشینری کی درآمد پر تمام محصولات کو کم کر کے 9فیصد کی شرح کر دی گئی ہے۔ونکہ اس سال چاول کی خریدوفروخت میں کاروباری حضرات کو بھی نقصان اُٹھانا پڑا ہے ، اس کے ازالے کے لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سال 2015-16کیلئے رائس ملرز کوٹرن اوور ٹیکس میں میں مکمل چھُوٹ دی جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ زرعی اجناس پھلوں، سبزیوں اور مچھلی کی تجارت میں کولڈ چین کی صنعت اور سہولت کی حوصلہ افزائی کے لیے انکم ٹیکس پرتین سال کی چھوٹ دی جا رہی ہے۔

زمین کی تیاری ، فصل کی کاشت ،کٹائی اور ذخیرہ کرنے آب رسانی اور نکاسیِ آب میں استعمال ہونے والی مشینری کی درآمد اورمقامی خریداری پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کر دیا گیاہے۔حلال گوشت نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ برآمدات کے لیے بھی منافع بخش سرمایہ کاری کا شعبہ ہے۔اس میں جدید ترین مشینری اور آلات کی حوصلہ افزائی کیلئے حلال گوشت کا پیداواری یونٹ لگانے والوں کو چار سال کے لیے انکم ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے ۔

اس کے لیے انہیں 31دسمبر2016ء سے پہلے” حلال“ کی باقاعدہ تصدیق حاصل کرنا ہوگی۔تازہ دُودھ اور پولٹری سپلائی میں بھی کچھ شرائط پوری کرنے پر وِد ہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے۔اس میں مچھلی کی سپلائی کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ان تمام سہولیات اور ٹیکس مراعات کا مقصد زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے ،کسان کی لاگت میں کمی لانا اور زرعی برآمدات میں اضافہ کرنا ہے۔

حکومت اس حوالے سے پندرہ ارب روپے کے اخراجات برداشت کرے گی۔زراعت کے پیشے میں بہت زیادہ رسک ہونے کی وجہ سے بینک کسانوں کو قرض دینے سے کتراتے ہیں۔اِس غیر یقینی کی حالت کو گارنٹی کے ذریعے ختم کیا جا سکتاہے۔اس لیے چھوٹے کسانوں کو قرضہ دینے والے کمرشل اور مائیکرو فنانس بینکوں کو زرعی قرضے پر 50 فیصد نقصان کی گارنٹی دینے کی سکیم بنائی گئی ہے۔

جس کے تحت ہر سال پانچ ایکڑ نہری اور دس ایکڑ بارانی ملکیت والے تین لاکھ کسان گھرانوں کو ایک لاکھ روپے تک بغیرCollateral قرضے کی سہولت حاصل ہو گی۔یہ رقم تیس ارب روپے بنتی ہے۔ضرورت پڑنے پر حکومت کو پانچ ارب روپے تک کی ادائیگی کرنا پڑ سکتی ہے۔چاول کے کاشت کاروں کے علاوہ تاجروں کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔انہوں نے چاول کی خریداری کے لیے جو قرضے حاصل کیے تھے ان کا چونتیس ارب روپیہ واجب الادا ہے۔

اس قرضے کی با سہولت واپسی کے لیے حکومت ، اسٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں نے مل کر خصوصی طریقہ کار وضع کیا ہے جس کے تحت قرض کی مدت میں اضافہ ہو گا اور ادائیگی30جون 2016ء تک موٴخر ہو جائے گی۔ تاجروں کے پاس نیا چاول خریدنے کے لیے رقم دستیاب ہو گی، جس کا فائدہ کاشت کاروں کو بھی پہنچے گا۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے کسان بینک سے قرض لینے میں عار محسوس کرتے ہیں اور بینک بھی کسانوں کو قرض دیتے ہوئے سوچتے ہیں۔

حکومت نے اس حوالے سے بینکوں کے ذریعے زرعی قرضے جاری کرنے پر زور دیا ہے تاکہ کسانوں کو بروقت سرمایہ فراہم کیا جا سکے اور انہیں آڑھتیوں اور ساہوکاروں سے مہنگا قرض نہ اٹھانا پڑے۔2013ء میں جب ہماری حکومت آئی تھی تو بینکوں کے ذریعے زرعی شعبے کو تین سو ارب روپے قرض کی سہولت دی جارہی تھی۔ہم نے 30جون 2015ء تک اسے بڑھا کر پانچ سو ارب کر دیا ہے اور اس مالی سال میں مزید ایک سو ارب کا اضافہ کر دیا ہے۔

سو ارب روپے کے اضافی قرضے ساڑھے بارہ ایکڑ رقبہ رکھنے والے کسانوں کو دیے جائیں گے۔ آنے والے دو سال میں یہ رقم اور بڑھا دی جائے گی۔

نواز شریف نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے پہلے دو سال میں ہی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہو گئی۔مارک اَپ کی شرح تاریخی طور پر کم ترین سطح پر آ چکی ہے مگر اس کمی کا فائدہ کسان کو نہیں پہنچ رہا۔اس لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی کوشش ہے کہ زرعی قرضوں کے مارک اَپ ریٹ میں دو فیصد کمی لائی جائے۔

اس طرح کسانوں کو سالانہ گیارہ ارب روپے فائدہ ہو گا۔زرعی ترقیاتی بینک اور کمرشل بینک ملک بھر میں کسانوں کو قرض فراہم کرنے کے لیے وَن وِنڈو سہولت فراہم کرے گی۔جس کے تحت بینک،محکمہ مال اور ڈاکخانے کا عملہ ایک ہی جگہ پر موجود ہو گا تاکہ کسان کو دفتروں کے چکر نہ لگانے پڑیں۔قرض کی فراہمی کے لیے زمین کی قدر میں اضافے کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔

زرعی اراضی کی قیمت بڑھ چکی ہے۔ اس لیے پیداواری یونٹ کی ویلیو دو ہزار روپے سے بڑھا کر چار ہزار روپے کر دی گئی ہے۔اس طرح کسان اپنی موجودہ زمین پر بھی دو گُنا مالیت کا قرض حاصل کر سکے گا۔انہونے کہاکہ آپ کے سامنے جس پیکج کا اعلان کیا گیا ہے اس سے پاکستان بھر میں کسانوں کو خاص طور پر چھوٹے کسانوں کو 147ارب روپے کا براہ راست فائدہ ہو گا، جب کہ زرعی شعبے کو 194۔

ارب روپے کے اضافی قرضے میسر آ سکیں گے۔ یعنی زرعی شعبے کو کل 341ارب روپے کے قرضے میسر آسکیں گے۔وزیر اعظم نے کہاکہ بدقسمتی سے ماضی قریب میں پانی سے بجلی بنانے کے بڑے منصوبوں اور ڈیمز کی تعمیر میں سخت غفلت برتی گئی ۔ توانائی کی کمی تو اپنی جگہ ، اس سے ہماری زراعت پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ۔ جو قیمتی پانی خیبر پختونخوا ، بلوچستان ، پنجاب اور سندھ کے بنجر علاقوں کو سرسبزو شاداب بنا سکتا تھا ہم اُس سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔

تا ہم آپ کی اس حکومت کی ترجیحات میں بڑے ڈیم اور پن بجلی کے منصوبے اہم حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس لیے دیامر بھاشا ، داسو اور بونجی ڈیمز کے منصوبہ جات پر تیز رفتاری سے کام شروع کر دیا گیا ہے ۔ داسو ڈیم کے لیے مطلوبہ تمام رقم کا انتظام کر لیا گیا ہے جو تقریباً2بلین ڈالر کے قریب ہے اور اس ڈیم سے 4320میگا واٹ پن بجلی پیدا کی جا سکے گی ۔اسی طرح دیامر بھاشا ڈیم کی زمین خریدنے کے لیے تمام تر مطلوبہ فنڈز مہیا کر دیے گئے ہیں ۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے کھیت زرخیز ہیں۔ ہمارے کسان محنتی ہیں مگر اس کے باوجود فی ایکڑ پیداوار بین الاقوامی معیار کی نہیں ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہمارے کسان پروگریسوفارمنگ کی طرف آئیں۔ جدید زرعی تحقیق سے فائدہ اٹھائیں اور کاشت کاری کے سائنسی طریقے اختیار کریں۔ زراعت کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے قابل بنائیں۔

اس طرح نہ صرف کسان کی اپنی آمدنی میں اضافہ ہوگا بلکہ مجموعی طور پر قومی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔میں اپنے کسان بھائیوں پر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حالات بدلنے میں دیر نہیں لگتی، وہ ہمت کریں اللہ تعالیٰ اُن کا مدد گار ہو گا۔کسانوں کی ترقی پر ہی پاکستان کی ترقی کا انحصار ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان میں زراعت کو جدید ترین خطوط پر استوار کریں اور ایک ایسا جامع نظام ترتیت دیں جس میں موسمی تغیرات یا عالمی منڈی کے اُتار چڑھاؤ کے تباہ کن اثرات سے کسانوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔

ایک ایسا خود کار نظام جس میں پاکستان کے کھیتوں اور کھلیانوں کو ہمیشہ کے لئے لہلہاتے رکھنے کا طریقہ کار ہو، جس سے کسان کو ہر وقت کے خوف اور وسوسے سے چھٹکارا مل سکے اور وہ اپنی تمام تر توانائیاں ، تمام تر قوتیں اپنی فصل اور اپنی خوشحالی پر صرف کر سکیں۔ میرا وعدہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اپنے اس دورِ حکومت میں آپ کے مشوروں سے ، زرعی ماہرین کے مشوروں سے ایک ایسانظام نہ صرف وضع کرے گی بلکہ حکومت کیلئے اگر قانون سازی کی ضرورت بھی ہوئی تو وہ بھی کریں گے تاکہ یہ پالیسی مستقل بنیادوں پر استوار ہو سکے۔

تقریب کے دور ان وزیراعظم نے سوال کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اورکراچی آپریشن پہلے کیوں شروع نہیں کیا گیا اور ملک میں ترقیاتی منصوبے بنانا کیا صرف ہماری ہی ذمہ داری تھی، چونکہ ماضی میں پاکستان کی معاشی حالت بہت کمزور تھی اور دہشتگردی کے واقعات بھی روزانہ کی بنیاد پر ہوتے تھے جب کہ کراچی کے حالت بھی اچھے نہ تھے اس لیے ہم نے اس ذمہ داری کو محسوس کیا اور ڈیلیور کیا کیوں کہ ہمیں قوم کا درد ہے۔

انہوں نے کہا کہ مخالفین حکومت پر تنقید کے بہانے تلاش کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح نوازشریف کو چلیں جائیں اور وہ آجائیں لیکن ہم پیسہ بنانے نہیں آئے بلکہ پیسہ خرچ کرکے معاملات درست کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ پاکستان کی برائیوں کو ٹھیک کرنے کا عزم کررکھا ہے جب کہ پاک چائنہ اقتصادری رہداری منصوبہ بھی بنایا جس سے تمام صوبوں کو فائدہ پہنچے گا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل اور گیس کی قیمتیں کم ہونے سے ہمیں خوشی ملتی ہے کیوں کہ قیمتیں کم ہونے سے ہمیں کم ذرمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے ہم بجلی کی قلت کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔اس سے قبل وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ملک کی سیاسی اور سلامتی کی صورتحال پر غور کیا گیا جب کہ آپریشن ضرب عضب سمیت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا جائزہ بھی لیا گیا۔ اجلاس میں وفاقی کابینہ نے کسانوں کے لیے خصوصی زرعی پیکیج کی منظوری دی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں