اسلام آباد،7سیکٹروں کی صفائی ٹھیکیداروں کے سپرد، گندگی اور تعفن نے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا

پیر 25 جنوری 2016 16:47

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔25 جنوری۔2016ء) وفاقی دارالحکومت کے سات سیکٹروں کی صفائی کیلئے 34 کروڑ روپے سالانہ ادائیگی کے باوجودگی گندگی اور تعفن نے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے ۔ سی ڈی اے کے ساتھ معاہدے کے تحت ٹھیکیداروں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہر سیکٹر کیلئے 120 ملازم رکھیں لیکن افسران کی ملی بھگت سے کم ملازم رکھ کر اسلام آباد کی صفائی کے نظام کو نظر انداز کردیا گیا بڑے افسران اور امیر طبقے کیلئے مخصوص پوش سیکٹروں میں بھی خاکروبوں کی شدید قلت پیدا ہوگئی 1500 میں سے صرف 600 رہ گئے ۔

سی ڈی اے نے نئے خاکروب بھرتی کرنے کی بجائے پورے اسلام آباد کی صفائی کا نظام ٹھیکہ پر دینے کی منصوبہ بندی کرلی تاکہ ٹھیکیداروں کے ساتھ مل کر زیادہ سے زیادہ مال جیبوں میں ڈالا جاسکے ۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے جی سیریل کے پانچ سیکٹر اور آئی ٹن ، آئی الیون میں صفائی کا نظام سی ڈی اے افسران نے من پسند ٹھیکیداروں کو دے رکھا ہے ان سیکٹروں کیلئے سی ڈی اے سالانہ 34 کروڑ 15لاکھ 95 ہزار 704 روپے مختص کرتا ہے اور ٹھیکیداروں کے ساتھ طے ہے کہ وہ ہر سیکٹر کی صفائی کیلئے 120 خاکروب لازمی رکھیں گے مگر ہر ٹھیکیدار نے صرف 50 خاکروب صفائی کیلئے رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان سیکٹروں میں کوڑے کی بھرمار اور تعفن جگہ جگہ نظر آتا ہے ۔

آن لائن کو ملنے والی سرکاری دستاویزات کے مطابق سیکٹر جی سکس کیلئے ماہانہ 42لاکھ 92ہزار روپے ادا کئے جاتے ہیں اور ان سیکٹروں میں صفائی کیلئے 150 مزدوروں کو رکھا جانا ضروری ہے اسی طرح سیکٹر جی سیون کیلئے بھی اتنی ہی رقم اور اتنے ہی مزدور مخصوص ہیں ۔ سیکٹر جی ایٹ کیلئے ماہانہ 37لاکھ 7ہزا ر558 روپے اور 120 مزدور مخصوص ہیں۔ سیکٹر جی نائن کیلئے 150 مزدور اور 42لاکھ 92ہزار 226 روپے مختص کئے گئے ہیں اس طرح سیکٹر آئی ٹن کیلئے بھی 150مزدور اور 42لاکھ 92ہزار روپے ماہانہ ادا کئے جارہے ہیں جبکہ سیکٹر آئی الیون کیلئے 80 مزدور اور 32لاکھ 97ہزار 454 روپے مخصوص ہیں دلچسپ امر یہ ہے کہ سی ڈی اے نے پوش سیکٹروں کی صفائی کیلئے سرکاری خاکروب مقرر کررکھے ہیں لیکن ان سیکٹروں کی صورتحال صفائی کے لحاظ سے اس وقت بہت خراب ہوچکی ہے کیونکہ پہلے ان سیکٹروں کی صفائی کیلئے 1500 خاکروب کام کرتے تھے جو کہ اب کم ہوکر صرف 600 رہ چکے ہیں ان میں زیادہ تر ریٹائر ہوگئے یا فوت ہوگئے ۔

آن لائن کو ملنے والی مصدقہ معلومات کے مطابق سی ڈی اے افسران اور ٹھیکیداروں کا مخصوص ٹولہ جان بوجھ کر خاکروبوں کی نئی بھرتیاں نہیں کرتا کیونکہ وہ باقی ماندہ سیکٹروں میں بھی صفائی کا نظام مفلوج کرکے وہاں بھی ٹھیکیداری نظام رائج کرنا چاہتے ہیں تاکہ صفائی کے نام پر سی ڈی اے کا سالانہ بجٹ ایک ارب روپے کرلیا جائے اور ٹھیکیداروں سے مل کر سرکاری مال جیبوں میں ڈال لیا جائے ۔

ذرائع کے مطابق کامران لاشاری کی موجودگی میں سی ڈی اے انتظامیہ نے صفائی کیلئے سرکاری سطح پر مشینری منگوانے کیلئے پی سی ون منظور کرلیا تھا لیکن پھر ٹھیکیداروں اور افسروں نے مل کر یہ مشینری نہیں آنے دی اور اب سی ڈی اے کے اعلیٰ عہدیدار جب بھی خاکروب بھرتی کرکے صفائی کا نظام سی ڈی کے کے زیر کنٹرول کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو ٹھیکیداروں سے مال بٹورنے والا عملہ اعلیٰ عہدیداروں کو ڈرا دیتا ہے کہ ہمارے پاس تو مشینری ہی نہیں ہے اور مشینری زیادہ ٹھیکیداروں کے پاس ہے اس طر ح مختلف حیلے بہانوں سے مافیا صفائی کے نام پر سرکاری خزانے کو لوٹ رہا ہے سرکاری ریکارڈ کے مطابق سی ڈی اے کے پاس اس وقت صفائی کیلئے مختلف نوعیت کی 36مشینریاں موجود ہیں جبکہ ٹھیکیداروں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس مختلف اقسام کی ستر مشینریاں دستیاب ہیں دوسری طرف سی ڈی اے کے ملازم کی حیثیت سے کام کرنے والے خاکروبوں کے پاس بیٹھنے کیلئے جگہ بھی نہیں یہ تمام لوگ کھلے آسمان تلے جمع ہوتے ہیں اور اپنی اپنی ڈیوٹی مخصوص کرلیتے ہیں ملازمت سے برطرف کئے جانے کے خوف سے اپنا نام نہ بتاتے ہوئے ان ملازمین کا کہنا ہے کہ سی ڈی اے ہمیں جھاڑو کے بھی اب پیسے نہیں دیتا ہمیں جھاڑو بھی خود خریدنا پڑتا ہے اگر صفائی سے متعلق کسی شہری کو شکایت ہو تو وہ کسی دفتر میں شکایت نہیں کرسکتا کیونکہ ان خاکروبوں کیلئے کوئی دفتر یا مخصوص جگہ نہیں ہے اس حوالے سے سی ڈی اے لیبر یونین کے جنرل سیکرٹری چوہدری یٰسین نے رابطہ کرنے پر آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ سی ڈی اے کے افسران مخصوص لوگوں کو نواز رہے ہیں اور مسیحی برادری کا معاشی قتل کیا جارہا ہے اس وقت ادارے میں 900 خاکروب ہنگامی بنیادوں پر بھرتی کرنے کی ضرورت ہے لیکن مافیا جان بوجھ کر بھرتی نہیں کررہا کیونکہ یہ لوگ ٹھیکیداری نظام کو پروموٹ کرنا چاہتے ہیں اور ظلم تو یہ ہے کہ ٹھیکیداروں سے پورا کام بھی نہیں لیا جاتا ٹھیکیدار جن گاڑیوں کے ذریعے کوڑا کرکٹ شہر سے باہر پھینکتے ہیں ان سے کوڑا سڑکوں پر گرتا جاتا ہے اور پورے شہر میں تعفن پھیل جاتا ہے ۔

اس سلسلے میں سی ڈی اے کے ترجمان رمضا ن ساجد نے آن لائن کو بتایا کہ وفاقی دارالحکومت کی حالت باقی شہرو ں کی نسبت بہتر ہے ہمارے ہاں فی ٹن کوڑا اٹھانے پر 8سے 9ڈالر خرچ آتا ہے جبکہ راولپنڈی میں 28ڈالر فی ٹن کوڑا اٹھانے پر اخراجات ہوتے ہیں اورجہاں تک معاملہ ہے کہ مزید خاکروب بھرتی کرنے کا تو فی الحال نوکریوں پر پابندی کی وجہ سے بھرتی نہیں کرسکتے اور ویسے بھی اب یہ معاملہ میونسپل کارپوریشن کے پاس چلا جائے گا تو وہی فیصلہ کرینگے کہ آگے کیا کرنا ہے

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں