چیئرمین ایف بی آرکاغذی کارروائی نہیں کارکردگی دکھائیں، سپر یم کو رٹ

منگل 26 جنوری 2016 16:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔26 جنوری۔2016ء) سپریم کورٹ نے شوگر ملز کے ٹیکس معاملات بارے مقدمے کی سماعت آج بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر سے اپیلوں کی سماعت کرنے یا نہ کرنے باریحتمی جواب طلب کیا ہے ۔ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے چیرمین ایف بی آر کی عدم حاضری پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین ایف بی آر ہمیں کاغذی کارروائی نہیں اپنی کارکردگی دکھائیں ۔

ایف بی آر چیئرمین کے معاملات کو دیکھ کر ٹیکس کے اہم ترین ایشو کو زیر التواء نہیں رکھ سکتے ۔ 8 فروری 2016 سے کسی بھی مقدمے میں کوئی التواء نہیں دیا جائے گا اس کے خلاف چاہے وکلاء قرار دادیں پاس کریں یا کچھ اور ، عوام الناس کے مفاد کے خلاف عدالت کا قیمتی وقت ضائع نہیں ہونے دیں گے ۔

(جاری ہے)

چیئرمین ایف بی آر سمیت وکلاء اپنی مجبوریاں خود نمٹائیں ہمیں کچھ نہ بتائیں ۔

چیئرمین ایف بی آر کو ہر مقدمے میں ہر حال میں آنا پڑے گا اور کارکردگی بتانا ہو گی کیا انہیں حاضری سے کوئی استثنیٰ حاصل ہے کہ ہم بھی سمجھوتہ کر کے بیٹھ جائیں اگر وکلاء کی باتوں سے سمجھوتہ کر لیں تو سارا نظام تباہ ہو جائے جبکہ ایف بی آر کے قانونی مشیر نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین ایف بی آر کراچی میں ہمیں بدھ کو نہیں آ سکیں گے لیگل ٹیم کو پیش ہونے کی اجازت دی جائے جس پر عدالت نے اجازت دے دی ۔

زیر سماعت مقدمات میں ٹرانزیکشن پر ٹیکس اور پھر کل آمدن پر ٹیکس پر مختلف ملز مالکان کو آئینی و قانونی تحفظات ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب ایک بار ٹیکس دے دیا تو پھر مکمل آمدنب پر الگ سے ٹیکس کیوں دیں ۔ یہ آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے جبکہ ایف بی آر کا موقف ہے کہ دونوں کے ٹیکس میں فرق ہے یہ دلائل منگل کو دیئے گئے ہیں ۔شوگر ملز ٹکس معاملات میں چیئرمین ایف بی آر کی عدم موجودگی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو طلب کیا تھا اور جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ایف بی آر کی اپلیں سماعت کے لئے لگائی گئی ہیں اس دوران چیئرمین ایف بی آر کو آنا چاہئے تھا عدالت نے مختلف درخواست گزاروں سے مقدمات کی نوعیت معلوم کی ۔

اقبال ہاشمی ایڈووکیٹ میں پیش ہوئے اور کہا کہ ٹیکس کے حوالے سے ذرائع کئی قسم کے ہو سکتے ہیں جتنی میری آمدن ہو گی اس کے ٹرن اوور کے مطابق ہی ٹیکس دیا جائے گا شرح بھی نکالی جائے گی ۔ درآمد ، برآمد کی شرح میں اگر کوئی غلطی ہو گی تو اس کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہو گی ۔ وقفے کے بعد سماعت کے وقت ایف بی آڑ کے وکلاء نے کہ اکہ وہ ایف بی آر کی اپیلوں پر دلائل دینے کے لئے تیار ہیں لہذا چیئرمین ایف بی آر کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی جس پر عدالت نے دلائل کی اجازت دی ۔

اقبال ہاشمی ایڈووکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ ایگزیکوشن آف ٹیکس کا معاملہ اے ٹی سی کے دائرہ میں آتا ہے جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہمیں کہا جتا ہے کہ ہم وکلاء کو ڈانٹتے ہیں اور کچھ سنتے نہیں ہیں کیا کریں کسی وکیل کے پاس پیپر بک مکمل نہیں تو کسی کا وکیل فو ت ہو گیا ہے کوئی التواء امنگ رہا ہے اب اگر ان سب کی باتیں مان لیں تو سارا نظام ہی تباہ ہو جائے۔

قانون کے مطابق ہی فیصلہ کریں گے سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بہت سے مقدمات ہائی کورٹس میں زیر سماعت ہیں جہاں معاملہ چل رہا ہے ۔ایک شخص کی آمدن 100 روپے ہے تو اس میں 50 روپے امپورٹ اور 5 فیصد ٹیکس پر لگا ہے اب یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے لئے ٹرن اوور پر بھی ساڑھے پانچ فیصد ادا کی جائے ۔جب میں نے اڑھائی روپے دے دیئے ہیں تو پھر مجھے اضافی ٹیکس دینا پڑ رہا ہے ۔

سیکشن 80 ڈی پہلے ہی واضح ہے عدالت نے درخواست گزاروں سے کہا کہ وہ تحریری دلائل دے دیں ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ امپورٹ دو طرح کی ہے ایک تو پیدا گیر امپورٹ کرتا ہے دوسرے اس کو خرید کر امپورٹ کر رہا ہے دو الگ الگ ٹیکس ہیں ۔ ایف بی آر کے وکیل کا کہنا ہے کہ یہ معاملات ہم واپس لے چکے ہیں کل 136 مقدمات ہیں تاہم سیکشن 80 ڈی کے تحت مقدمات کی تعداد 34 ہے ۔

ہم چاہتے ہیں کہ آپ مختصر التواء دے دیں جواب دے دیں گے ۔عدالت نے کہا کہ جزوری طور پر مقدمات کی سمات کی گئی ہے لیکن 80 ڈی اور سیکشن 130 انکم ٹیکس آرڈیننس کا جائزہ لینے کے لئے ایف بی آر کی لیگل ٹیم نے مشاورت کے لےء وقت مانگا ہے کہ آیا اس مقدمے میں مزید دلائل دینا ہے یا نہیں ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ چیئرمین ایف بی آر کو ہر تاریخ پر ہر حال میں آنا پڑے گا اور اپنے ادارے بارے پراگرس بتانا ہو گی کتنی بار سمجھوتہ کریں گے کیا انہیں کوئی استثنیٰ حاصل ہے کہ وہ نہیں آ رہے ہیں انہیں کہیں کہ وہ آج بدھ کو آئیں ۔

عدالت کو بتایا گیا کہ چیئرمین کراچی میں ہیں جمعرات کو پہنچ جائیں گے اس کے بعد رکھ لیں ۔ عدالت نے کہا کہ 26 کے بعد یہ ہمارا بنچ نہیں ہے کاغذی کارروائی نہ بتائیں کارکردگی بتائیں ۔ کارکردگی نہیں ہو گی تو فیصلہ کر دیں گے ایشو کو دیکھوں یا آپ کے معاملات کو ۔ ہم التواء نہیں دیں گے ۔ 8 فروری سے طویل مقدمات چلنے والے ہیں التواء اب نہیں دوں گا ۔ وکلاء چاہے تو میرے خلاف قرار داد پیش کریں وکلاء اپنی مجبوریوں کو خود نمٹائیں چیئرمین نہیں آتے تو لیگل ٹیم کے ہیڈ آ کر چیئرمین ایف بی آر کا موقف بتائیں ۔ عدالت نے سماعت آج تک ملتوی کر دی ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں