حکومت اور پی آئی اے کے ملازمین مابین ٹھن گئی، حکومت کا ہڑتالی ملازمین کو سبق سکھانے کیلئے انتہائی سخت اقدام

ہڑتال اور چپقلش سے قومی ایئرلائن کو کروڑوں کا نقصان ، مسافروں کا پی آئی اے پر سفر سے گریز ،فضائی سروس کی مکمل بندش کا خدشہ ہڑتا لیوں سے سختی سے نمٹا جائیگا ، احتجاج کی صورتحال سے نمٹنے کا بند وبست بھی کرلیا، وفاقی وزیر اطلاعات

پیر 1 فروری 2016 22:09

کراچی؍ اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔یکم فروری۔2016ء) حکومت اور پی آئی اے کے ملازمین میں ٹھن گئی، حکومت نے ہڑتالی ملازمین کو سبق سکھانے کیلئے انتہائی سخت اقدام اٹھاتے ہوئے پی آئی اے لازمی سروس ایکٹ 1952 نافذ کرتے ہوئے ملازمین کے جلسے جلوسوں اور ہڑتالی یونینز پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ احتجاج کرنے والوں کو ملازمت سے برطرف کر دیا جائے گا اور احتجاج کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا، ہڑتال کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے بھی تمام انتظامات مکمل اور بندوبست کرلیاگیا، دوسری جانب پی آئی اے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی بھی حکومت کے سامنے سینہ سپر ہو کر احتجاج اور فضائی سروس بند کرنے کے فیصلے پر ڈٹ گئی اورلازمی سروس ایکٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہم پر چاہے ڈنڈے برسائے یا گولیاں، ہم احتجاج جاری رکھیں گے، جبکہ حکومت اور پی آئی اے ملازمین کی چپقلش کے بعد مسافروں نے پی آئی اے میں سفر کرنے سے گریز کرنا شروع کر دیا، جس سے پی آئی اے کو مزید مالی خسارے کا سامنا ہے، حکومتی اور پی آئی اے ملازمین کے درمیان جاری کشمکش کے نتیجے میں پی آئی اے کی پروازیں بند ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کے ملازمین یونینز اور ایسوسی ایشنز کی احتجاج اور ہڑتال کی دھمکیوں کے بعد ان کو احتجاج سے روکنے کیلئے حکومت نے انتہائی سخت اقدام اٹھاتے ہوئے آرٹیکل 10 کے تحت لازمی سروس ایکٹ 1952ء نافذ کر دیا جس کے تحت حکومت کو کسی بھی ملازم یونین اور ایسوسی ایشن کو احتجاج ، ہڑتال یا غیر حاضری کی صورت میں برطرفی کا حق حاصل ہو گا۔

لازمی سروس ایکٹ کے تحت پی آئی اے میں ہڑتال غیر قانونی ہو گی اور کوئی بھی ملازم کسی بھی صورت ملازمت سے غیر حاضر نہیں رہ سکتا، دفاتر کی تالہ بندی کرنے والے ملازمین کو بھی برطرف کیا جا سکے گا، ایکٹ کی خلاف ورزی پر ایک سال کی قید اور جرمانے بھی ہو سکے گا، اس ایکٹ کے تحت حکومت کیلئے پی آئی اے کے ہڑتالی ملازمین کیلئے خلاف قانونی کارروائی کا راستہ کھل گیا۔

واضح رہے کہ پی آئی اے کو لازمی سروس قرار دیئے جانے کا مسودہ 2011 میں بھی تیار کیا گیا تھا لیکن وہ نافذ العمل نہ ہو سکا تھا، تاہم اب موجودہ حکومت نے پی آئی اے میں 5 دن سے مسلسل احتجاج اور بکنگ آفسز کی دفاتر بندی کئے جانے کا سختی سے نوٹس لیا، 5 دسمبر 2015 کو صدارتی آرڈیننس بھی جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پی آئی اے اب کپنی آرڈیننس کے طور پر کام کرے گی، جس کے بعد ادارے کے ملازمین نے احتجاج شروع کر دیا تھا تاہم وزیراعظم نواز شریف نے پی آئی اے ملازمین کی مشترکہ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے ملاقات میں یقین دہانی کرائی کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔

بعد ازاں قومی اسمبلی میں پی آئی اے سے متعلق بل بیھ منظور کرلیا ، جس پر پی آئی اے کے ملازمین کی مشترکہ ایکشن کمیٹی نے احتجاجی مہم شروع کر دی جو گزشتہ چھ دن سے جاری ہے اس کے تحت (آج) منگل 2فروری سے فضائی آپریشن بھی بند کرنے کا الٹی میٹم بھی دیا جس سے ادارے کو کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ دوسری جانب پی آئی اے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی حکومتی فیصلوں اور لازمی سروس ایکٹ کے سامنے ڈٹ گئی اور اسے مسترد کرتے ہوئے ہر صورت آج احتجاج جاری رکھنے اور فضائی سروس کی بندش کو عملی جامہ پہنانے کا اعلانکر دیا، ایک پریس کانفرنس میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے چیئرمین سہیل بلوچ نے کہا کہ حکومت نے لازمی سروس ایکٹ نافذ کر کے اچھا اقدام نہیں اٹھایا تاہم اس ایکٹ کے نفاذ کے باوجود ہم (آج) فضائی سروس بند کرنے کے اعلان پر قائم ہیں، احتجاج ہمارا پر امن حق ہے اور ہم اسے ہر صورت عملی جامہ پہنائیں گے، چاہے ہم پر ڈنڈے برسئے جائیں یا گولیاں ہم احتجاج کریں گے، حکومت اگر مسئلے حل کرنا چاہتی ہے تو ہم سے مذاکرات کرے ہم بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل کیلئے تیار ہیں۔

ادھر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے بھی کہا ہے کہ حکومت نے بہتر اقدام سے پی آئی اے کو ایک اچھاادارہ بنایا اور اب وہ اس کے خلاف کوئی تخریبی اقدام برداشت نہیں کرے گی، احتجاج اور ہڑتال کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا اور حکومت نے ہڑتال سے پیدا صورتحال سے نمٹنے کیلئے بھی انتظامات بھی مکمل کرلئے ہیں۔ دوسری جانب حکومت اور پی آئی اے کے ملازمین ک درمیان جاری کشمکش کے نتیجے میں مسافروں نے پی آئی اے پر سفر کرنے سے گریز شروع کر دیا ہے تاہم اس سے پی آئی اے کی پروازیں معطل ہونے اور ادارے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں