کراچی ، رفاع عامہ کے لئے وقف پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ ازسرنو جائزہ کے لئے سندھ ہائی کورٹ کو ارسال

رفاع عامہ کے لئے وقف پلاٹوں کو کس طرح سے لیز پر دیا جا سکتا ہے یہ پلاٹس تو سکولوں ، کالجوں ، ہسپتالوں اور قبرستانوں کے لئے مختص کردہ ہیں،سپریم کورٹ

منگل 2 فروری 2016 16:26

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔02 فروری۔2016ء) سپریم کورٹ نے کراچی میں رفاع عامہ کے لئے وقف پلاٹوں کی پرائیویٹ انفرادی افراد کو الاٹمنٹ معاملہ تقریباً 50 سال بعد ازسرنو جائزہ کے لئے سندھ ہائی کورٹ کو ارسال کر دیا ہے اور رجسٹرار ہائی کورٹ کو ہدایت کی ہے کہ مذکورہ معاملے کو 15 فروری کو ڈویژنل بنچ کے روبرو سماعت کے لئے مقرر کیا جائے اور عدالت دو ماہ کے عرصے میں معاملے کا فیصلہ کر دے ۔

جبکہ قائم مقام چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ رفاع عامہ کے لئے وقف پلاٹوں کو کس طرح سے لیز پر دیا جا سکتا ہے یہ پلاٹس تو سکولوں ، کالجوں ، ہسپتالوں اور قبرستانوں کے لئے مختص کردہ ہیں اور مارشل لاء آرڈرز کے تحت یہ الاٹمنٹ ویسے بھی منسوخ ہو چکی ہیں انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیئے ہیں قائم مقام چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی اس دوران الاٹیوں کی جانب سے مخدوم علی خان اور فاروق نائیک پیش ہوئے ۔

(جاری ہے)

مقدمے کی سماعت کے دوران فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے اور کہا ایک مقدمے کا آپ کا فیصلہ کر چکے ہیں اس مقدمے اور موجودہ مقدمے کے حقائق یکساں ہیں ۔ پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ تھا ۔ 1977 کو جاری کردہ پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا مارشل لاء آرڈر کی آئینی و قانونی حیثیت کا جائزہ لیا گیا ۔دو پلاٹوں کا معاملہ ہے پلاٹ نمبر 16 ای مہ جبین کو الاٹ کیا گیا ۔

پلاٹ نمبر 16 ایف ڈاکٹر نصیر شاہ کو الات کیا گیا ۔ دونوں نے رقوم ادا کی کراچی ہاؤسنگ سوسائٹی نے الاٹ کیا تھا اس سوسائٹی کا نام الریاض کواپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی جو سوسائٹی لاز کے تحت رجسٹر ہے ۔ قبضہ بھی حوالے کر دیا گیا ۔ عدالت ریکارڈ پر موجود الاٹمنٹ لیٹرز کا بھی جائزہ لے سکتی ہے یہ پلاٹ کلینک اور رہائش کے لئے تھا ۔ رقوم کی ادائیگی کی رسید بھی موجود ہیں ۔

14 ہزار 365 روپے ادا ئے گئے ۔ 4 ہزار مربع فٹ رقبہ تھا اور یہ 1974 میں الاٹ کیا گیا تھا اور یہ 90 سال کے لئے لیز تھی یہ قانونی طور پر ہمیں حوالے کیا گیا تھا ۔ عدالت نے کہا کہ آپ کا حق کیسے متاثر کیا گیا ۔ فاروق نائیک نے کہا کہ نصیرشاہ کے لیٹرپر کلینک کم رہائش لکھا ہوا تھا ای م ایل او 34 کو 1977 میں نافذ کیا گیا ۔ 5 جولائی 1977 کو چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر نے تمام تر الاٹ منٹس جو ہسپتالوں ، مساجد ، قبرستانوں اور کمیونٹی سنٹرز کے حوالے سے کی گئی تھی یا جن پلاٹوں کو کمرشل معاملات کے لئے ابھی تعمیر نہیں کیا گیا تھا یہ سب لیز منسوخ کی جاتی ہیں ۔

عدالت نے کہا کہ کس اتھارٹی نے یہ الاٹمنٹ کی ہیں کہ جن کو کینسل کیا جائے گا ۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ واضح نہیں کیا گیا ایم ایل او 89 جاری کیا گیا جو 18جولائی 1979 کو جاری کیا گیا ۔ جس میں 1972 سے 1974 تک الاٹ کردہ پلاٹش بھی کینسل کر دیئے گئے اور رقوم کی واپسی کا کہا گیا کیونکہ یہ سب سیاسی بنیادوں پر کیا گیا ہے ایمنسٹی پلاٹس کا مطلب
قبرستانوں ، پارکوں، مساجد اور دیگر اس طرح کے کاموں کے لئے پلاٹس ہیں عدالت نے کہا کہ ماسٹر پلان میں ان پلاٹوں کی کیا صورت حال تھی کیا یہ اس کا حصہ تھے یا نہیں ۔

اس پر وکیل نے کہا کہ 4 دسمبر 1979 کو بتایا گیا کہ یہ پلاٹ گرلز کالج کے لئے مقرر کردہ تھا ان پر کمرشل تعمیرات کر کے لوگوں کے حوالے کر دی گئی تھی جن کو کینسل کردیا گیا تھا عدالت نے کہا کہ الریاض ہاؤسنگ سوسائٹی نے یہ اراضی کہاں سے حاصل کی تھی اگر یہ پلاٹ گرلز کالج کے لئے تھا تو غیر قانونی طور پر کیوں دیگر لوگوں کو الاٹ کی گئی ۔یہ پلاٹ کس نے الاٹ کیا تھا ۔

فاروق نائیک نے کہا کہ کراچی کواپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی یونین نے یہ پلاٹ الریاض ہاؤسنگ سوسائٹی کو الاٹ کیا تھا کیونکہ دیگر سوسائٹیوں کی یونین تھی ہمیں نہیں پتہ تھا کہ یہ پلاٹ گرلز کالج کے لئے تھا ان کو صنعتی ہوم کے لئے دے دیا گیا تھا ۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ چاہے یہ یونین الات کر رہی ہے کیا وہ اس کو الاٹ کرنے کا اختیار رکھتی تھی یا نہیں اس کا بھی جائزہ لینا ہو گا یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ پلاٹ مخصوص پلاٹ ہی تھا ۔

فاروق نائیک نے کہا کہ قانون کے مطابق یہ الات کئے گئے تھے یہ پبلک ایمنسٹی پلاٹس تھے عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں جو سب لیز آپ کو دی گئی تھی وہ نہیں دی جا سکتی تھی ۔ کوئی انفرادی طور پر پرائیویٹ کے طو رپر یہ پلاٹ استمعال نہیں کر سکتا ۔ فاروق نے کہا کہ یہ پلاٹ باقیوں سے نسبتاً سستے ہوتے ہیں کراچی میں عام پریکٹس ہے کہ یہ پلاٹ انفرادی طور پر دیئے جاتے تھے ۔

1970 کے زمانے میں یہ پلاٹ دیئے جاتے تھے ڈاکٹروں کو ہسپتالوں اور کلینک کے لئے اور دیگر کو انڈسٹریل ہومز کے لئے دیئے جاتے تھے یہ پلاٹس بعد میں چیلنج بھی کئے گئے ۔ 1954 کے تحت ان کا ایوارڈ ہوا جو میرے حق میں ہوا ۔ 1999 میں یہ پلاٹ میرے نام بحال کر دیئے گئے اس ایوارڈ کو چیلنج نہیں کیا گیا ۔ عدالت نے کہا کہ آپ کس طرح یہ پلاٹ حاصل کر سکتے تھے؟فاروق نائیک نے کہا کہ دو الاٹمنٹ آرڈر تھے عدالت نے کہا کہ اگر یہ پلاٹ ایمنسٹی تھے تو ان کو تو ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا تھا ایم ایل او 34 اور ایم ایل او 89 کے تحت تو یہ کینسل کر دیئے گئے تھے آپ کو کیسے مل گئے یہ تو سکول ، کالج اور ہسپتال کے لئے رکھے گئے تھے فاروق نے کہا کہ حکومت سندھ نے 1990 میں ہدایات جاری کی تھیں اور دونوں پلاٹوں کے حوالے سے فیصلہ کرنے کا کہا تھا جس پر عمل نہیں کیا گیا تو سوسائٹی ایکٹ کے تحت درخواست دائر کی ۔

عدالت نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ سوسائٹی کس طرح سے ایک انفرادی شخص کو پرائیویٹ طور پر یہ پلاٹ دے سکتی ہے اور جب مارشل لاء آرڈرز کے تحت یہ ویسے بھی کینسل ہو چکے تھے ۔ الریاض تو ویسے بھی پرائیویٹ کواپریٹو سوسائٹی تھی فاروق نے کہا کہ جب حکومتی اقدامات پر عمل نہ ہوا تو میں نے سول کوٹ ور کواپریٹو سوسائٹی ایکٹ کے تحت الگ الگ درخواستیں دائر کیں میری درخواست خارج ہوئی ۔

ہائی کورٹ سے رجوع کیا ایوارڈ چونکہ مل چکا تھا اس لئے میرے حق میں عبوری فیصلہ آیا ۔ عدالت نے مخدوم علی خان سے بھی سوسائتی کی جانب سے الاٹمنٹ بارے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ میرا معاملہ ان سے قدرے مختلف ہے ۔ 1980 میں جب مجھے لیز دی گئی ۔ 1983 میں اس کو چیلنج کیا گیا تو درخواست خارج کر دی گئی ۔ ہائی کورٹ نے یہ معاملہ سول جج کو ارسال کر دیا عدالت نے جس معاملے کی بات آپ کر رہے ہیں اس کا جائزہ نہیں لیا تو اسپر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا یہ مقدمہ دوبارہ سول کورٹ کو ارسال کرنا پڑے گا ۔

تمام ایشوز کا جائزہ تو لینا ہو گا ۔ آپ کی الاٹمنٹ ایم ای ل او 89 سے متاثر ہوتی ہے جب لیز ہو ہی نہیں سکتی تھی توسب لیز کیسے ہو سکتی ہے آپ دونوں وکلاء کو بھی بیانات حلفی دینا ہوں گے کہ ہائی کورٹ کو دوبارہ یہ معاملہ بھجوانے پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔جسٹس طارق پرویز نے کہا کہ آپ نے مارشل لاء آرڈر کو بھی چیلنج نہیں کیا سپریم کورٹ نے حکمنامہ میں کہا کہ مدعا علیہان کے حق میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ درست تھی ۔

ایم ایل او کے تحت ان پلاٹوں کے کیسنل کرنے کا معاملہ آئین کے مطابق تھا یا نہیں ۔ پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کے تحت ان پلاٹوں کی الاٹمنٹ کیا ہو سکتی تھی یا نہیں ان ہمارے
سوالات کے جوابات کا جائزہ ہائی کورٹ لے اور اس بارے فیصلہ دے ۔ رجسٹرار ہائی کورٹ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے کو جلد سے جلد سماعت کے لئے مقرر کرے اور 15 روز میں ڈویژنل بنچ سماعت کر کے 2 مہینوں میں اس کا فیصلہ کر دے ۔ سماعت 15 فروری کو ہائی کورٹ میں مقر ر کیا جائے ۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں