سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات کا '' رائٹ ٹو انفارمیشن بل '' کابینہ اجلاس میں پیش کر نے کی بجائے جائزہ کمیٹی قائم کر نے پر برہمی کا اظہار ، و فاقی وزیر اطلاعات کو آئندہ اجلاس میں بلا لیا

کمیٹی کی چیئر مین پیمرا کواس حوالے سے تما م کیسز میں فریق بننے کی ہدایت

منگل 2 فروری 2016 22:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔02 فروری۔2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے '' رائٹ ٹو انفارمیشن بل '' کابینہ اجلاس میں پیش کر نے کی بجائے وزارت اطلاعات کی جانب سے جائزہ کمیٹی قائم کر نے پر برہمی کا اظہار کر تے ہوئے و فاقی وزیر اطلاعات کو بلا لیا،کمیٹی نے بیرون ملک مشنز میں پریس افسران کی بھرتی این ٹی ایس کے ذریعے کرنے پر برہمی کا اظہار کر تے ہوئے بھرتیوں کا عمل روکنے کی ہدایت کر دی، چیئر مین پیمرز ابصار عالم نے کمیٹی کو بول چینل کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بول چینل کا لائسنس وزارت داخلہ کی جانب سیکیورٹی کلیئرنس واپس لینے کی وجہ سے منسوخ نہیں بلکہ معطل کیا گیا،عدالت کے حکم پر چینل کا لائسنس دوبارہ بحال کر نے کیلئے وزارت داخلہ کوخط لکھا ہے مگر تاحال کوئی جواب نہیں آیا،پیمرا اس حوالے سے تمام کاموں کو ڈیلے نہیں کر رہی ،کمیٹی کو یقین دلاتا ہوں کے میں پیمرا میں تمام کام قانون اور آئین کے مطابق کرؤں گا،کمیٹی نے چیئر مین پیمرا کو ہدایت کی کے اس حوالے سے تما م کیسز میں فریق بنیں ۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق منگل کو کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کامل علی آغا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، اجلاس میں سینیٹرز ڈاکٹر اشوک کمار، اقبال ظفر جھگڑا ، نہال ہاشمی، غوث محمد خان نیازی، سعید غنی ، روبینہ خالد، فرحت اﷲ بابر اور محمد عثمان خان کاکٹر کے علاوہ سیکرٹری اطلاعات و نشریات ، چیئرمین پیمرا، ڈی جی پی آئی ڈی اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

قائمہ کمیٹی نے اشتہارات کی پالیسی کے متعلق فراہم کیے گئے جوابات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔ منیجنگ ڈائریکٹر پی ٹی وی محمد مالک نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ٹاک شو میں حکومتی نمائندگان سے زیادہ اپوزیشن نمائندگان کو ٹائم دیا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یکم جنوری 2015 سے29 جنوری2016 تک 1568 ٹاک شو ز پی ٹی وی سے نشر کیے گئے جو 1176 گھنٹوں پر محیط تھے ۔

ان میں حکومتی بینچوں سے 1732 مدعو کیے گئے تھے جبکہ 2852 اپوزیشن جماعتوں کے لوگ بلائے گئے تھے ۔یہ تناسب 40 سے60 فیصد بنتا ہے ۔جس پر اراکین کمیٹی نے کہا کہ صرف ٹاک شو کی بات نہیں ہے ۔سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ 24 جنوری کو کشمیر کے حوالے سے ایک پروگرام چلایا گیا جو ایک طرح سے آنے والے الیکشن میں حکومت کی الیکشن کمپین کے مترادف ہے اس میں اپوزیشن کی طرف سے کوئی نمائندگی نہیں دکھائی گئی تھی ایسے پروگرام کسی مخصوص پارٹی کو جتانے اور ہرانے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں ۔

آئی ٹی ایکسپرٹ کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو بتایاگیا کی درخواستیں وصول ہو چکی ہیں ۔حکم امتناعی کی وجہ سے ابھی بھرتی نہیں کر سکتے جب وہ ختم ہو گا تو بھرتی کیلئے عمل شروع کر دیا جائے گا۔ منیجنگ ڈائریکٹر محمد مالک نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ پی ٹی وی کے ملازمین کی تنخواہوں او رپینشن کی ادائیگی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ملازمین کو وقت پر تنخواہ اور پینشن مل جاتی ہے ۔

رکن کمیٹی ڈاکٹر اشوک کمار نے کہا کہ بہت سے فنکاروں کے واجبات ادا نہیں کیے گئے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ لوگوں سے مختلف پروگرام کروا لئے جاتے ہیں مگر ان کو پیسے نہیں ملتے جس سے ان کی عزت مجروح ہوتی ہے ۔محمد مالک نے کہا کہ اس طرح کے معاملات میں بہت سے کاغذات فراہم کرنے ہوتے ہیں ان کی کمی کی وجہ سے یہ لیٹ ہوجاتا ہے ۔مقامی کھیلوں کے فروغ کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کی سپورٹس پالیسی کا جائزہ لینے کے متعلق محمد مالک نے بتایا کہ مقامی کھیلوں کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔

اس حوالے سے ایک نیا چینل پی ٹی وی سپورٹس ٹو جلد شروع کر رہے ہیں جس پر مزید مقامی کھیلیں دکھائی جائیں گی اور خوشی بات ہے کہ اس وقت ہر بڑے کھیل کو پی ٹی وی سپورٹس پر دکھایا جارہا ہے ایک صوبے سے بھاری تنخواہوں پر لوگوں کا تقرر کرنا باقی صوبوں کے ساتھ ظلم ہے ۔ سینیٹر محمد عثمان خان کاکٹر نے سینیٹ اجلاس کی کارروائی کی براہ راست نشریات کے حوالے سے معاملے پر محمد مالک نے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اجلاس کی کارروائی زیادہ سے زیادہ پی ٹی وی نیوز اور نیشنل ٹی وی پر چلاتے ہیں اور زیادہ کوریج کیلئے پرائیوٹ چینلز کو فراہم کر دی جاتی ہے ۔

پی ٹی وی نیوز پر اہم امور و پالیسی سٹیٹمنٹ دکھائی جاتی ہیں۔باقی پی ٹی وی نیشنل ٹی وی پر کارروائی دکھا دی جاتی ہے ۔ہاؤس کی پوری کارروائی پی ٹی وی پر نہیں دکھا سکتے ۔وقفہ سوالات پورا پی ٹی وی نیوز پر دکھایا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مالی مسائل کی بدولت پوری کارروائی نہیں دکھا سکتے ۔پی ٹی وی حکومت سے تمام فنڈ حاصل نہیں کرتا ۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سینیٹ کی کارروائی کی براہ راست نشر یات کے حوالے سے متعلقہ وزیر نے چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی سے مل چکے ہیں اور تسلی بخش جواب دیا تھا ۔

معلومات تک رسائی کے بل کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزیراعظم پاکستان نے بل کا جائزہ لینے کیلئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی وزیر اطلاعات و نشریات کی زیر صدارت تشکیل دی ہے جس کا پہلا اجلاس 21 جنوری کو ہو چکا ہے اور دوسرا اجلاس 10 فروری کو ہو گا جس میں ڈرافٹ بل کو فائنل کر دیا جائے گا۔ جس پر چیئرمین کمیٹی و اراکین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اطلاعات و نشریات نے بارہا کمیٹی کو یقین دلایا تھا کہ جو بل قائمہ کمیٹی نے پاس کیا ہے وہ کیبنٹ کمیٹی کو بجھوا دیا گیا ہے اور اگلے ایجنڈے میں شامل کر دیا جائے گا۔

معلومات تک رسائی کا بل کی قائمہ کمیٹی سے پوچھے بغیر کسی اور کمیٹی کو کیوں دیا گیا ہے ۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے متعلقہ وزیر بے اختیار ہیں فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔اس بل کو پرائیوٹ ممبر بل کے طورپر بھی پیش کیا جاسکتا ہے ۔قائمہ کمیٹی نے کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے وزیراعظم کا خط آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا ۔فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ معاملہ استحقاق کمیٹی کے حوالے کیا جائے جس پر رکن کمیٹی نہال ہاشمی اور اقبال ظفر جھگڑا نے کہا کہ وزیر اطلاعات و نشریات کو ایک موقع دیا جائے ۔

کوڈ آف کنڈیکٹ کے حوالے سے معاملے کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ قائمہ کمیٹی نے نئے چیئرمین پیمرا کو اجلاس میں خوش آمدید کہا ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پچھلے اجلاس میں قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ سپریم کورٹ کو قائمہ کمیٹی سے منظور کیے گئے بل بارے آگاہ کیا جائے وہ بل تمام اسٹیک ہولڈر کے ساتھ مل کر بنایا گیا تھا مگر سپریم کورٹ میں عرفان صدیقی کی کمیٹی کاڈرافٹ پیش کر دیا گیا تھا ۔

اس حوالے سے کیا پیش رفت ہے ۔اور آئندہ اجلاس میں قائمہ کمیٹی کو وضاحت پیش کی جائے کہ کون سے حالات میں بل سپریم کورٹ میں پیش ہوا اور اب کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے کہ تمام اسٹیک ہولڈر ز کی متفقہ رائے بننے والا بل کا نفاذ عمل میں لایا جا سکے ۔پاکستان ہائی کمیشنز میں پریس آفسیر ز کی تعیناتی کے معاملے کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سول سروسز کیڈر کی پوسٹیں انتہائی اہم نوعیت کی ہوتی ہیں بیرون ملک پاکستان کی نمائندگی کی جاتی ہے یہ بہت حساس نوعیت کا کام ہوتا ہے ۔پرائیوٹ سیکٹر کو یہ نوکریاں کیسے دی جاسکتی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کا آگاہ کیا جائے کہ ان کے نام کا غلط استعمال ہوا ہے یہ ایسٹا کوڈ کے بھی خلاف ہے ۔یہ تقریاں قانون کے مطابق عمل میں لائی جائیں رکن کمیٹی اقبال ظفر جھگڑا وزیراعظم پاکستان کو اصل حقائق سے آگاہ کریں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بول ٹی وی اور ملازمین کی تنخواہوں کے معاملات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔اور آئندہ اجلاس میں لوک ورثہ اور پی این سی اے سے بجٹ ، آمدن ، ملازمین کی تعداد ، انتظامی امور اور کارکردگی کے حوالے سے تفصیلات طلب کر لیں ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں