پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس

گردشی قرضے کی فوری ادائیگی نہ ہوتی تو مزید بجلی پیدا کرنا ممکن نہیں تھا ، سیکرٹری پانی و بجلی حکومت عدالت جاکر آئی پی پیز کا حکم امتناعی واپس کرائے، آئی پی پیز کا ہیٹ ٹیسٹ کروایا جائے اور ان سے اضافی ادائیگی واپس لی جائے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی

جمعرات 4 فروری 2016 19:32

اسلام آباد ۔ 4 فروری (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔04 فروری۔2016ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو سیکرٹری پانی و بجلی یونس دھاگہ نے بتایا ہے کہ2013 ء میں گردشی قرضے 503 ارب تک پہنچ چکے تھے، تمام جنریشن پلانٹس بند ہوچکے تھے، پی ایس او کے پاس بھی تیل نہیں تھا، بنکوں نے مزید قرضہ دینے سے انکار کردیا تھا، گردشی قرضے کی ادائیگیوں کا فیصلہ وزارت خزانہ نے کیا، اگر اس وقت ادائیگی نہ کی جاتی تو ساری رقم بجٹ سے پہلے زائد المعیاد ہوجاتی، گردشی قرضوں کی ادائیگی کے بعد 2014ء میں یہ حجم 320 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے ہم نے اب تک اس میں ایک روپیہ کا اضافہ نہیں ہونے دیا اب تمام جنریشن پلانٹس میں تیل کے وافر ذخائر موجود ہیں۔

چیئرمین سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ حکومت عدالت جاکر آئی پی پیز کا حکم امتناعی واپس کرائے، آئی پی پیز کا ہیٹ ٹیسٹ کروایا جائے اور ان سے اضافی ادائیگی واپس لی جائے۔

(جاری ہے)

اجلاس جعرات کو پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں پی اے سی کے ارکان شیخ رشید احمد، رانا افضال حسین، سردار عاشق حسین گوپانگ، شاہدہ اختر علی، راجہ جاوید اخلاص اور جنید انوار چوہدری نے شرکت کی ۔

اجلاس میں گردشی قرضوں کی ادائیگی کے حوالے آڈٹ رپورٹ کے جائزہ کے دوران سید خورشید شاہ نے کہا کہ ہمارا اجتماعی فرض بنتا ہے کہ اس معاملے کو متنازعہ نہیں بنانا چاہئے، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ 480 ارب روپے کا گردشی قرضوں کی ادائیگی کا طریقہ کار قانون کے مطابق تھا یا نہیں۔ پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ نے آڈیٹر جنرل کو ہدایت کی کہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی 2008ء سے 2015ء تک آڈٹ رپورٹ پی اے سی میں پیش کی جائے۔

سید خورشید احمدشاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کی آڈٹ رپورٹ کے حوالے سے بیانات آتے رہے ہیں۔ انہوں آڈیٹر جنرل کو ہدایت کی پاکستان انجینئرنگ کونسل کا آڈٹ کیا جائے۔ جنید انوار چوہدری نے کہا کہ کسی غیرمصدقہ اور نامکمل رپورٹ کو میڈیا میں نہیں جانا چاہئے۔ سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ جس نے غلط کام کیا ہے اسے سزا ملنی چاہئے۔

سیکرٹری پانی و بجلی یونس دھاگہ نے کہا کہ گردشی قرضوں کے حوالے سے ہم نے ڈی اے سی میں 2013کی انوائسز کلیر کی ہیں۔ آڈیٹر جنرل نے رپورٹ کے حوالے سے پی اے سی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ گردشی قرضوں کی ادائیگی مروجہ طریقہ سے نہیں ہوئی، قانون کے تحت ادائیگیاں اے جی پی آر کے ذریعے کی جاتی ہیں اور اس معاملے میں ادائیگیاں براہ راست سٹیٹ بنک کو کی گئیں جہاں سے پیپکو کو ادائیگی کی گئی، پی اے سی کے ذریعے اس کو باضابطہ بنایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ یہ رقم کسی کی جیب میں نہیں گئی، صرف قواعد کے برعکس طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ ڈپٹی آڈیٹر جنرل نے کہا کہ واپڈا کا انٹرنل سسٹم اور آڈٹ کے نظام کو مدنظر رکھ کر آڈٹ کیا گیا کہ آیا کسی کو زائد رقم تو نہیں ادا کی گئی، یہ آڈٹ اعتراضات ان امور کو مدنظر رکھ بنائے گئے ہیں۔ پی اے سی کے سوال کے جواب میں سیکرٹری پانی و بجلی یونس دھاگہ نے کہا کہ2013 ء میں گردشی قرضے 503 ارب تک پہنچ چکے تھے، تمام جنریشن پلانٹس بند ہوچکے تھے۔

پی ایس او کے پاس بھی تیل نہیں تھا کیونکہ بنکوں نے مزید قرضہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ دیوالیہ پن کی صورتحال کسی بھی معیشت کیلئے بڑی بدنما چیز ہوتی ہے۔ ان ادائیگیوں کا فیصلہ وزارت خزانہ نے کیا، اگر اس وقت ادائیگی نہ کی جاتی تو ساری رقم بجٹ سے پہلے زائد المعیاد ہوجاتی۔ انہوں نے کہا کہ گردشی قرضوں کی ادائیگی کے بعد 2014ء میں یہ حجم 320 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے ہم نے اب تک اس میں ایک روپیہ کا اضافہ نہیں ہونے دیا اب تمام جنریشن پلانٹس میں تیل کے وافر ذخائر موجود ہیں۔

شہری علاقوں میں 6گھنٹے اوردیہی علاقوں میں 8 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے، بعض علاقوں میں اس سے بھی زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 28جون 2013ء کو گردشی قرضے ادا نہ ہوتے تو مسائل پیدا ہوتے۔ سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ یہ رقم دو سالوں میں بھی ادا کی جاسکتی تھی یکمشت ادائیگی نہیں ہونی چاہئے تھی۔ سیکرٹری پانی و بجلی نے کہا کہ یہ رقم ہمارے پاس بجٹ میں موجود تھی۔

رانا افضال حسین نے کہا کہ یکمشت ادائیگی میں کوئی حرج نہیں تھا۔ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ جب کوئی ادائیگی کرنا مقصود ہو اے جی پی آر بجٹ سمیت تمام امور کا جائزہ لے کر بنکوں سے کہتا ہے کہ ادائیگی کر دی جائے۔ پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ آئی پی پیز کا کیس تو عدالت میں تھا ،ان کی رقم ادا کی جاسکتی تھی۔ سیکرٹری پانی و بجلی نے کہا کہ چار بڑے پاور پلانٹس سے ہم چار ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کر رہے ہیں۔

پی اے سی کے چیئرمین نے وزارت پانی و بجلی کو ہدایت کی کہ حکومت عدالت جاکر آئی پی پیز کا حکم امتناعی واپس کرائے۔ آئی پی پیز کا ہیٹ ٹیسٹ کروایا جائے اور ان سے اضافی ادائیگی واپس لی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مانتے ہیں کہ حکومت نے ادائیگی کرکے اچھا کام کیا ہے لیکن یہ تو دیکھا جائے کہ آئی پی پیز کی طرف سے دیا گیا بل درست تھا بھی یا نہیں۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں