سینیٹر محمد طلحہ محمود کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کا اجلاس

فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن میں اساتذہ کی تنخواہوں کی عدم فراہمی ،ریگولر نہ کرنے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا

جمعرات 4 فروری 2016 20:17

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔04 فروری۔2016ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن میں اساتذہ کی تنخواہوں کی عدم فراہمی اور ریگولر نہ کرنے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

اساتذہ کے نمائندوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ وفاقی نظامت تعلیم کی زیر نگرانی تعلیمی اداروں میں ڈیلی ویجز پر 2119ملازمین کی سروسز حاصل کی جارہی ہیں ان ملازمین کو تنخواہ ہر ادارہ کا پرنسپل سٹوڈنٹ فنڈ سے دینے کا مجاز تھا۔اسلام آباد کے ماڈل کالجز میں 700اساتذہ گریڈ 16سے17تک تدریسی امور سر انجام دے رہے ہیں۔ اور اسلام آباد کے انتہائی نامورماڈل کالجوں میں 50ہزار طلباء و طالبات کو پرائمری سے گریجویٹ تک پڑھا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

2011میں وفاقی حکومت کی ایک پالیسی کے تحت وفاقی اداروں میں گریڈ1سے19تک ملازمین مستقل کئے گئے۔وفاقی نظام تعلیم میں سینکڑو ں ملازمین کو عدالت کی طرف سے قائم ہونے والی کمیٹی میں مستقل کرنے کی منظوری دی۔وزارت کیڈ نے نوٹیفیکیشن جاری کئے ۔ایف ڈی اے نے میڈیکل لیٹر بھی جاری کئے مگر موجود ہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی ان کو رکو ادیا جس پر ملازمین عدالت گئے اور عدالت نے15دن کے اندر کمیٹی بنا کر 90دن کے اندر ملازمین کو مستقل کرنے کی ہدایت کی۔

جس پر اسٹیبلشمنٹ ڈ ویژن سپریم کورٹ گئے مگرسپریم کورٹ نے ملازمین کے حق میں فیصلہ دیا۔مگرسپریم کورٹ نے وزیر اعظم کی منظوری سے حسیب اطہر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ۔سال گزر چکا ہے اساتذہ72دنوں سے سڑکوں پر ہیں کوئی فیصلہ نہیں کیا جا رہا۔جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ معلم کو دین اسلام میں خاص مقام و اہمیت حاصل ہے اور یہ قوم کے معمار ہوتے ہیں۔

ان کو سہولیات دینے کی بجائے ان کو نہ وقت پر تنخواہ ملتی ہے اور نہ مستقل کیا جا رہا ہے۔قوم کا مستقبل بنانے والے سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں۔ان کے مسئلے کو جلد سے جلد حل کیا جائے۔جس پر سیکرٹری کیڈ نے بتایا کہ ایڈیشنل سیکرٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی ہے جو 30دن کے اندر معاملے پر ایک رپورٹ دیگی۔سیکرٹری نے بتایاکہ2008کی پالیسی کے تحت60سے70ہزار ملازمین کو مستقل کیا گیا تھا ۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزارت خزانہ نے ملازمین کو گریڈ17اور18میں بھرتی کیا ہے کام کرنا ہو تو طریقے نکل آتے ہیں راستے نکل آتے ہیں۔اگر نہ کرنا ہو تو ہزار طرح کے اعتراضات سامنے آ جاتے ہیں۔سینیٹ کی یہ کمیٹی اساتذہ کو سڑکوں پر رلنے نہیں دے گی ان کی بہتری کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھائے گی ۔ قائمہ کمیٹی نے اسٹیبلشمنٹ ڈویثرن اور وزارتِ کیڈ ایسا رستہ نکالیں جسکی بدولت مسئلے کو حل کیا جا سکے۔

رکنِ کمیٹی سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ اگر بہتری کے لیئے قانون سازی کی ضرورت ہے تو ہم تیار ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ کورٹ کے فیصلے کو جہاں پر روکا گیا تھا وہیں پر شروع کیا جائے تو بہتری آ سکتی ہے۔ سیکر ٹری اسٹیبلشمنٹ نے بتایا کہ ڈیلی ویجز کا طریقہ کار اور ہے۔ انہو ں نے کہا کہ وزارتِ کیڈ کے ساتھ میٹننگ کر کے 7مارچ تک بہتر حل بارے قائمہ کمیٹی کو آگاہ کر دیں گے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں رہائشی علاقوں میں کمرشل محرکات میں استعمال ہونے والے معاملات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا، رکنِ کمیٹی سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ سی ڈی اے نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے خلاف جو ایکشن لیا ہے وہ صحیح نہیں ہے اور جس طرح یہ کام انہوں نے شروع کیا ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلے کو حل نہیں کرنا چاہتے۔ کمرشل مقاصد کے لئے رہائشی علاقوں میں سرگرمیاں سی ڈی اے کے ملازمین کی ملی بھگت سے ہوتی ہیں، چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ اسلام آباد کے رہائشی علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے خلاف کاروائی حیران کن ہے۔

یہ دفاتر کیا کمرشل سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں جس پر سی ڈی اے کی ممبر پلاننگ وسیم احمد خان نے بتایا کہ ادارے نے بہت سے ہوٹلوں، ہوسٹلوں اور رہائشی عمارتوں کو کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا ہے۔ 120کو سیِل کیا ہے 200نے خود کام ختم کیا ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تمام محکموں کو خطوط لکھے ہیں۔ آئی جی اسلام آباد اور آئی جی موٹروے کو بھی خط لکھے ہیں پرائیوٹ سکولوں کے لئے نئی پالیسی 2014میں بنائی ہے۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ نظام کو بہتر کریں اور قائمہ کمیٹی کولسٹِ فراہم کریں کہ کس سیکٹر میں تعلیم کے لئے کتنے پلاٹ دئیے ہیں۔ منصوبے کے مطابق ایک سیکٹر میں 8سے10سکول موجود ہیں مگر ان پلاٹوں پر کچھ اور سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔ سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا اسلام آباد کے سکولوں کو وافر زمین فراہم کی گئی ہے۔ ان تعلیمی اداروں کی اضافی زمین کو لیِز یا کرائے پر پرائیویٹ سکولوں کو دے کر مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ H-8میں خالی پلاٹ پڑے ہیں اور کچھ پلاٹوں کو مدرسوں کو فراہم کیا گیا ہے جنہوں نے کرائے پر دے رکھے ہیں ایک تفصیلی رپوڑٹ قائمہ کمیٹی کو فراہم کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں کو ایکڑوں کے حساب سے پلاٹ دئیے گئے ہیں مگر وہاں پر کوئی ویلفئر کا کام نہیں ہو رہا اس حوالے سے بھی تفصیلی رپورٹ قائمہ کمیٹی کو فراہم کی جائے۔ رکنِ کمیٹی سینیٹر میر محمد یوسف بادینی نے کہا کہ ہاسٹل اور ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس سی ڈی اے کے ملازمین کی ملی بھگت سے کام کر رہے ہیں سی ڈی اے نے کتنے ملازمین کے خلاف ایکشن لئے ہیں قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا جائے۔

جس پر ممبر پلاننگ سی ڈی اے نے بتایا کہ شکایت پر فوری ایکشن لیا جاتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے سی ڈی اے کی 2014کے پالیسی کی دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کر تے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے ایک سروے کرائے کہ اسلام آباد کے سیکٹر میں سکول کے لئے کتنے پلاٹ دیئے گئے اور یہ پلاٹ کہاں واقع ہیں اور اب یہ کس مقصد کے لئے استعمال ہو رہے ہیں 10دن کے اندر قائمہ کمیٹی کو رپورٹ فراہم کی جائے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سیکٹر D-12کے ترقیاتی کاموں کا بھی جائزہ لیا گیا قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سیکٹر کا 75%ترقیاتی کام مکمل ہو چکا ہے اور اگر زمین کی فراہمی ہو جائے تو مارچ میں یہ 100%مکمل ہو سکتا ہے۔ 5مختلف جگہوں پر زمین کے مسائل ہیں 3جگہوں پر زمین کی قیمت کی ادائیگی کا مسئلہ اور 2جگہ قبرستان کی وجہ سے زمین واگزر نہیں ہو سکتی جس پر چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ 2005میں شروع ہونیوالا منصوبہ 18ماہ میں مکمل ہونا تھا 11سال ہو چکے اور ابھی بھی 75%کام ہوا ہے تو یہ مارچ تک کیسے مکمل ہو سکتا ہے۔

لوگ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ادارے کو مؤثر حکمتِ عملی اختیار کرتے منصوبے کو مکمل کرنا چاہئے تھا۔ ادارے کے اندر تعاون کی کمی بھی ہے جس پر حکام نے کہا کہ زمین کی فراہمی کا مسئلہ ہے 30جون تک ہر حال میں منصوبہ مکمل کر لیا جائے گا۔ جس پر چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ 30جون تک منصوبے کے مکمل ہونے کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو تحریری طور پر خط کے ذریعے یقین دہانی کرائی جائے۔

سینٹ کی قائمہ کمیٹی کیبنٹ سیکرٹریٹ نے سول سرونٹس ترمیمی بل2015 جو قومی اسمبلی سے پاس ہو چکا تھا کو متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں خارجہ امور وومن ایسوسی ایشن کے 10کنال کے پلاٹ کے معاملے کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا، ڈائریکٹر ای ایم ، سی ڈی اے صباء عاصم نے قائمہ کمیٹی معاملے بارے تفصیل سے آگاہ کیا۔ رکنِ کمیٹی سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ روٹس سکول نے مختلف سیکٹرز میں سی ڈی اے سے سکول کے نام پر اور بھی پلاٹ حاصل کر رکھے ہیں۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اسلام آباد کے لیئے خان پور ڈیم سے پانی کی سپلائی کے معاملے کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ خان پور ڈیم سے پانی اسلام آباد کہ فراہم کیا جاتا ہے بہت سا پانی راستے میں چوری ہو جاتا ہے روک تھام کے لئے ایک کمیٹی بنائی تھی جس پر سی ڈی اے ممبر انجینئرنگ نے قائمہ کمیٹی نے بتایا کہ پہلے خان پور ڈیم سے 8ملین گیلن پانی روزانہ ملتا تھا۔

کمیٹی کے اقدامات کی بدولت ساڑھے12ملین گیلن پانی ملتا ہے ساڑھے 4ملین گیلن پانی چوری ہو جاتا تھا جس پر رکنِ کمیٹی سینیٹر میر محمد یوسف بادینی نے کہا کہ اگر قائمہ کمیٹی معاملہ نہ اٹھاتی تو سی ڈی اے سویا ہی رہتا ادارہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا تھا جو لوگ ملوث تھے کمیٹی کے سامنے لایا جائے اور انہیں کیا سزا دی گئی ہے آگاہ کیا جائے۔اس حوالے سے سی ڈی اے ایک انٹرنل کمیٹی قائم کرے قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں چیئرمن واپڈا اور GMتربیلا کو طلب کر لیا تاکہ معاملات کا مزید تفصیل سے جائزہ لیا جا سکے۔

کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹر میر محمد یوسف بادینی، سینیٹر کامل علی آغا، سینیٹر نجمہ حمیداور سینیٹر حاجی سیف اﷲ خان کے علاوہ سیکر ٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویثزن سیکرٹری کیڈ سی ڈی اے ممبرز پلاننگ و انجینئرنگ XENخان پور ڈیم واپڈا و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں