ٹریڈ ڈپلومیسی کی ناکامی نے14 کھرب کے ٹیکسٹائل سیکٹر کا مستقبل داؤ پر لگا دیا،6 ماہ میں 43 فیصد اضافی قرض کے باوجودبرامدات میں3.5 ارب ڈالر کی کمی کا امکان ہے،ایکسپورٹ فنانسنگ میں دس ارب روپے کی کمی ہوئی

پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل کا بیان

اتوار 14 فروری 2016 16:03

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔14 فروری۔2016ء ) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے ملکی معیشت کی ریڈھ کی ہڈی ٹیکسٹائل سیکٹر دیوالیہ ہو رہا ہے جسکی ذمہ داری ناکام ٹریڈ ڈپلومیسی پر عائد ہوتی ہے۔ برامدات کے شعبہ میں بنیادی تبدیلی لائے بغیر صورتحال بہتر نہیں ہو گی نہ حکومت کے پاس قرضوں کے سوا کوئی آپشن ہوگا۔

اگر پاکستانی برامدات عالمی کساد بازاری کے باعث گر رہی ہیں تو دیگر ممالک کی کیوں بڑھ رہی ہیں۔سٹیٹ بینک کے مطابق ٹیکسٹائل سیکٹر نے موجودہ مالی سال کے ابتدائی چھ ماہ میں بینکوں سے 82.6 ارب روپے کا قرضہ لیا جو گزشتہ سال سے 43 فیصد زیادہ ہے مگر اسکے باوجود سنبھل نہ سکا اور اسکی برامدات پانچ فیصد کی کمی کے ساتھ 6.5 ارب ڈالر کی سطح تک گر گئیں جبکہ اپٹما کے مطابق کپاس کی فصل کی تباہی سے 1.5 ارب ڈالر جبکہ ٹیکسٹائل برامدات میں 3.5 ارب ڈالر کی کمی متوقع ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ چودہ کھرب روپے کاٹیکسٹائل کا شعبہ نا اہل ایکسپورٹ مینیجرز کی وجہ سے تباہ ہو رہا ہے۔ ملکی برامدات کا 57فیصدکمانے والا ٹیکسٹائل کا شعبہ جوفیکچرنگ کا 46فیصد، لیبر کا 38فیصدہے اور حصہ جی ڈی پی کا نو فیصد ہے اپنی تاریخ کے بد ترین بحران سے دوچار ہے اور اسکے پاؤں بین الاقوامی منڈی سے اکھڑ رہے ہیں جو اس صنعت سے وابستہ 35لاکھ افراد کیلئے خطرہ ہے۔

اس وقت ٹیکسٹائل کا شعبہ ایک کھرب دس ارب کے ریفنڈز کا منتظر ہے ۔ اگر ٹیکسٹائل کے شعبہ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں تو کپاس کی فصل پرانحصار کرنے والے لاکھوں کاشتکار بھی نہیں بچیں گے۔انھوں نے کہا کہ گزشتہ سال ایکسپورٹ فنانسنگ کی مد میں 44 ارب روپے کا قرضہ لیا گیا تھا جو امسال دس ارب کی کمی کے ساتھ 33 ارب رہ گیا جس سے گرتی برامدات اورسال میں چھ مہینے ملک سے باہر گزارنے والے افسران کی دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔ نجی شعبہ نے مجموعی طور پر 353 ارب روپے کا قرضہ لیا مگر معاشی صورتحال بہتر نہ ہو سکی جس سے ڈیفالٹ کا تناسب بڑھے گا۔ پاکستان کے حریف ممالک برامدات کے زریعے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کر رہے ہیں جبکہ پاکستان میں یہ کام آئی ایم ایف کے قرضوں سے لیا جا رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں