جس زبان میں نوکری ملتی ہے اس کو اہمیت دی جاتی ہے،طارق کرامان

باہر سے آنے والوں کی زبانوں کو اہمیت دینے کے باعث یہاں کی مقامی زبانوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا،نور الخدا شاہ لوک ورثہ میں ہماری زبانیں ہماری پہنچان کے موضوع پر منعقدہ تقریب کی افتتاحی نشست سے مقررین کا خطاب

ہفتہ 20 فروری 2016 20:30

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔20 فروری۔2016ء) معروف مصنف ڈاکٹر طارق کرامان نے کہا ہے کہ زبانوں کو اونچا اور نیچا بنانے کا فیصلہ مارکیٹ کرتی ہے جس زبان میں نوکری اور طاقت ملتی ہے اسی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ہمارے خطے پر ہمیشہ باہر سے آنے والوں نے حکمرانی کی ہے لوک ورثہ میں ہماری زبانیں ہماری پہنچان کے نام سے منعقدہ دو روزہ تقریب کی افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے انہو ں نے کہا کہ پاکستان میں وکھی ،توروالی خوار اور دیگر زبانوں کے ختم ہونے کا خطرہ ہے انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایک ہزار سے زائد زبانیں ایسی ہیں جن کے 78فیصد ختم ہونے کا خطرہ ہے انہوں نے کہا کہ توروالی اور گوجرہ زبانوں کو بچانے کیلئے وہاں کے مقامی لوگ اقدامات کررہے ہیں اس سلسلے میں حکومتی اداروں کا کردار اہم ہے وہ جن زبانوں کو ختم ہونے کا خطرہ ہے اس کو بچانے کیلئے اقدامات کرسکتے ہیں ۔

(جاری ہے)

نور الخدا شاہ نے کہا کہ باہر سے آنے والوں کی زبانوں کو اہمیت دینے کے باعث یہاں کی مقامی زبانوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے انہوں نے مقامی زبانوں کو اہمیت دینے کی اہمیت کو زور دیا ۔ یو ایس ایڈ کی باربرا جے توئے ٹوئے ویل نے کہا کہ پاکستان میں بہت ساری زبانیں بولی جاتی ہیں اور پاکستان ایک کثیر الجہتی زبانوں پر مبنی ملک ہے اور یہاں کی زبانیں اور ثقافت یہاں کی خوبصورتی ہے پروگرام میں معروف مصنف انتظار حسین نسرین بھٹی اور دیگر مصنفین جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے ان کیلئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی ۔

لوک ورثہ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر فوزیہ سعید نے کہا کہ ان کا ادارہ مختلف زبانوں کے فروغ کیلئے اقدامات کررہا ہے اور یہ پروگرام اس کڑی کا حصہ ہے پروگرام کے آرگنائزر میں سے ایس پی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نصیر میمن نے کہا کہ پاکستان کی زبانیں ملکی خوبصورتی کی علامت ہیں انہوں نے زبانوں کو احترام دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ تقریب میں مختلف سیشنز میں معروف مصنفین ادیبوں دانشوروں نے پنجابی ، سرائیکی ، بلوچی ، اردو ، پشتو ، براہوی ، ہندکو ، بروشکی ، پہاڑی ، تروالی ، بلتی ، پوٹھوہاری ، وفی ، شینا بزارگی ، کھوار اور دیگر زبانوں کے حوالے سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔

پاکستان کی خطرے سے دو چار زبانوں کے حوالے سے نشست سے ڈاکٹر طارق رحمان ، یونیسکو کی پاکستان میں نمائندہ ولیکی بیلیف ، زبیر توروالی ، عنایت اللہ فیضی ، علی طورلائی ، ڈاکٹر خواجہ ، عبدالرحمان ، اسلم ندیم اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ستر سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں اور جب تک زبانوں کو تعلیم اور معیشت کے ساتھ منسلک نہیں کیا جائے گا تب تک زبانیں ترقی نہیں کرپائینگی انہوں نے کہا کہ ہزارگی زبان کو زبردستی فارسی کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے جس سے زبان کے ختم ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔

ڈاکٹر عبدالرحمان نے کہا کہ کشمیر میں کل آٹھ زبانیں بولی جاتی ہیں انہوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ میں آزاد کشمیر میں کشمیری ختم ہوجائے گی وہاں اکثریت والدین بچوں کے ساتھ ہندکو اور پہاڑی بولتے ہیں بچوں کو ابتدائی تعیم مادری زبان میں دینے کے حوالے سے نشست سے لوک ورثہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر فوزیہ سعید ، ڈاکٹر ناظر محمود ، شہزاد مٹھانے اور نگار نذر نے بچوں کو تعلیم اپنی اپنی مادری زبان میں دینے پر زور دیا۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں