کراچی آرٹس کونسل کی آٹھویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز کا پہلے اجلاس

پاکستان ادب اور شاعری بارے زرخیز ملک ہے ،دیکھا جائے تو بڑی شاعری پاکستان میں ہی تخلیق ہوئی ہے اور ہورہی ہے ،ڈاکٹر انیس اشفاق

جمعرات 10 دسمبر 2015 22:47

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔10 دسمبر۔2015ء) کراچی آرٹس کونسل کی آٹھویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز کے پہلے اجلاس با عنوان اردو شاعری ، روایت اور نئے امکانا ت کے موضوع پراظہار خیال کرتے ہوئے بھارت کے شہر لکھنو سے آئے ہوئے ممتاز شاعر اور ادیب ڈاکٹر انیس اشفاق نے کہاکہ پاکستان ادب اور شاعری کے حوالے سے ایک زرخیز ملک ہے دیکھا جائے تو بڑی شاعری پاکستان میں ہی تخلیق ہوئی ہے اور ہورہی ہے ہمارے یہاں ناصر کاظمی ، منیرنیازی اور احمد مشتاق جیسے شاعر نہیں ہیں منیر نیازی اردو کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے نئے مو ضوعات کے ساتھ شاعری کی ہے انھوں نے کہا کہ غالب کی شعری کائنات میر کی شاعری سے بلند ہیں گوپی چند نارنگ نے اپنے نئی کتا ب میں غالب کے انگ کو پہلو بہ پہلو پیش کیا ہے انھوں نے کہا کہ ہم بڑی شاعری سے مایوس نہیں ہیں گجرات کے فساد پر عرفان صدیقی کی شاعری قابل توجہ رہی ہے معروف ادیب و شاعر افتخار عارف نے کہا کہ اچھے الفاظ کے اجتماع سے میں گھبراجا تاہوں :سعادت سعید نے کہا کہ نظم اور غزل جب آگے بڑھے گی جب اس میں نئے موضوعات آئیں گے بھارت سے آئے ہوئے دانشور شمیم حنفی نے کہا کہ غزل پر بڑے ظلم ڈھائے گئے ہیں اور مختلف شعرا نے کیا کچھ نہیں کیا ۔

(جاری ہے)

میر غالب اور اقبال بڑے شاعر رہے ہیں غزل کی صنف کو اب اپنا حلیہ تبدیل کرنا ہوگا معروف شاعر جاذ ب قر یشی نے اپنے مقالے جدید شعری اسالیب میں کہا کہ شاعری فنون لطیفہ کی شہزادی ہے جس کے جسم میں دوسرے فنون کی خوبصورتی نظر آتی ہے ۔تخلیقی جمالیات اور خاص الفاظ ترقی پانے کا ہنر ملتا ہے تو شاعری سامنے آجاتی ہے انھوں نے کہا کہ جدید اسلوب شاعر کو نمایا ں بنا دیتا ہے۔

اختر الایمان، مجید امجد اور کئی شاعروں نے آزاد نظموں میں غنائی اور جدید شاعری کا اسلوب بنایا غزل کے حوالے سے مرزا یاس یگانہ چنگیزی کا بڑا نام سا منے آتا ہے انھوں نے اپنی جدید نظموں میں اپنے اظہا ر جدیدیت کو موثر بنا دیا ہے سلیم احمد نے غالب کو جدیدیت کا سب سے بڑا شاعر لکھا ہے ۔ ممتاز ادیب احسن سلیم نے نثری نظم کا ارتقاء پر لکھے گئے مکالے میں کہا کہ نثری نظم دراصل انسان کے اندر کچھ پوشیدہ احساس ہوتے ہیں مثلاً خوف ، ہمت ، تجسس کی کارفرمائی بھی جاری رہتی ہے اور اظہار کی قوت بھی رکھتی ہے جبراً اور صبر کی نادیدہ قوتیں دب کر رہ جاتی ہیں بہت سے رویے ہمیں زہر لگتے ہیں اور بعض لوگ خوبصورت لگتے ہیں ہمارے معاشرے کی وجہ سے احساسات اور جبر کو دبانا پڑتا ہے۔

ضیاء الحسن نے اپنے مقالے " معاصر شاعری پر علاقائی زبانوں کے اثرات " میں کہا کہ ربع صدی میں سیاست نے مشرقی اور مغربی پاکستان کو جدا کر دیا اس دوران ادب شاعری نے اپنی بھرپور جدوجہد سے امن وامان سے بھرپور کردار ادا کیا۔ اردو کی تشکیل میں ڈاکٹر حنیف خلیل نے لکھا ہے کہ بعض محققین کی اپنی تحریروں میں اردو پر فارسی کے علاوہ سندھی ، پنجابی ، ترکستان کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔

ناصر عباس نیئر نے اپنے مقالے " معاصر نظم کا نو آبادیاتی مطالعہ ــ" میں کہا کہ میں نے معاصر نظم سے مراد نئے لکھنے والوں سے لیا ہے کچھ لفظوں کو ہمیں بھول جانا چاہئے۔ نئی آبادیات میں اثرات گہرے ہوتے ہیں اور ان میں ثقافت اور دوسرے رنگ زیادہ نظر آتے ہیں ہمارے یہاں قدیم روایت کو زندہ رکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اپنے مقالے " جدید ادبی رجحانات اور شاعرات " میں کہا کہ جب ہم اردو شاعری پر رجحانات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں شاعرات بھی نمایاں آتی ہیں۔

ادا جعفری کی شاعری میں نئے طرز احساس کا انداز ملتا ہے اور ان کے کلام میں تازگی بھی ملتی ہے۔ فہمیدہ ریاض کی شاعری میں عورت اپنی مکمل شخصیت کے ساتھ ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کشور ناہید نے اپنی تحریروں میں عورت کے احساسات و جذبات کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے اس میں عورت کی مظلومیت واضح نظر آتی ہے۔ پروین شاکر کی نظموں میں جدید اسلوب نظر آتے ہیں ۔

انہوں نے اپنی تحریروں میں ایک شخصی آزادی کو فوقیت دی ہے ۔ پروفیسر شاہدہ حسن نے اپنے مقالے " اردو اکیسویں صدی " میں کہا کہ 21 ویں صدی میں نمایاں فرق نظر آتے جارہے ہیں جن میں کئی مجموعوں میں اشعار کی روانی نظر نہیں آتی ہے اس کے برعکس کئی اہم اور مقبول مجموعے بھی تروتازہ رہتے ہیں جن میں اردو غزل میں مصطفی زیدی ، افتخار عارف ، پیرزادہ قاسم ،پروفیسر سحر انصاری ، صابر ظفر ، لیاقت علی عاصم ، اجمل سراج نمایاں ہیں ۔میعاری ادب کی روشن مثالیں خود اپنی ذات اورعصری تقاضوں کو مکمل کی جارہی ہیں۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں