سٹیٹ بینک نے مالی سال 2014-15کیلئے پاکستانی معیشت کی کیفیت پر سالانہ رپورٹ جاری کر د

حقیقی جی ڈی پی کی نمو بڑھ کر 4.2فیصد ہوگئی ،گرانی، مالیاتی توازن اور جاری کھاتے کے توازن جیسے اہم معاشی اظہاریوں میں بہتری دیکھی گئی

جمعہ 11 دسمبر 2015 21:01

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔11 دسمبر۔2015ء) اسٹیٹ بینک نے مالی سال 15-2014 کے لیے پاکستانی معیشت کی کیفیت پر اپنی سالانہ رپورٹ جاری کر دی ہے۔رپورٹ کے مطابق مالی سال 2015 کے دوران پاکستان کی معیشت نے سست معاشی نمو کا سامنا کرنے والی متعدد ابھرتی ہوئی معیشتوں کے مقابلے میں خاصی اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ مالی سال 15 کے دوران حقیقی جی ڈی پی کی نمو بڑھ کر 4.2 فیصد ہوگئی اور گرانی، مالیاتی توازن اور جاری کھاتے کے توازن جیسے اہم معاشی اظہاریوں میں بہتری دیکھی گئی۔

رپورٹ میں بیرونی شعبے میں بہتری لانے پر زور دیا گیا ہے کیونکہ باقی معیشت پر اس کے خاصے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کارکنوں کی ترسیلات زر میں بلند اضافے اور تیل کی عالمی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باعث بیرونی کھاتے کی صورت حال بہتر ہو گئی۔

(جاری ہے)

اس کے نتیجے میں ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر آخر جون 2015 تک بڑھ کر نہ صرف تاریخ کی بلند ترین سطح 18.7 ارب ڈالر (جو تقریبا 5 مہینوں تک ملک کے درآمدی بل کی مالکاری کے لیے کافی ہے) تک پہنچ گئے بلکہ سال کے دوران شرح مبادلہ بھی مستحکم رہی۔

زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بیرونی کھاتے میں بہتری نے پاکستان کے متعلق عالمی خطرے کے تاثر کو بہت کم کردیا۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستانی روپے کی مستحکم مساوات نے گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت کو قابو میں رکھا اور ملک میں مہنگائی کی توقعات کم کر دیں۔ تاہم مالی سال 15 کے دوران گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت میں خاصی کمی کا بنیادی سبب تیل اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں خاصی کمی تھی۔

اوسط گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت گذشتہ برس کے 8.6 فیصد سے گر کر مالی سال 15 میں صرف 4.5 فیصد رہ گئی۔ مہنگائی اور ادائیگیوں کے توازن کے مستحکم امکانات نے پالیسی سازوں کو معاشی نمو میں اضافے کی حکمت ہائے عملی کے نفاذ کا موقع فراہم کیا۔ مثلا، اسٹیٹ بینک نے سرمایہ کاری سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے سال کے دوران اپنے پالیسی ریٹ میں مجموعی طور پر 350 بی پی ایس کٹوتی کی۔

اسی طرح مالیاتی شعبے میں سال کی بیشتر مدت کے دوران حکومت کے ترقیاتی اخراجات بلند رہے جن میں زیادہ توجہ انفراسٹرکچر کو ترقی دینے پر مرکوز رہی۔رپورٹ میں اخراجات پر قابو پانے کے لیے مالیاتی استحکام لانے کی حکومتی کوششوں کا اعتراف کیا گیا ہے تاہم اس میں ٹیکسوں کی وصولی میں ساختی کمزوریوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ سال کے دوران تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی اور مینوفیکچرنگ کی کمزور سرگرمیوں نے ٹیکسوں کی وصولیوں کو، جو پہلے ہی سست تھیں، مزید مشکل بنا دیا۔

صوبائی بجٹ کا فاضل بھی گذشتہ برس کے مقابلے میں پست رہا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے کمرشل بینکوں پر بہت انحصار کیا۔ تاہم یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ حکومت نے قرضے کی خاصی بڑی رقم اسٹیٹ بینک کو واپس کی۔ اس دوران نجی شعبے کو قابلِ قرض رقوم کی مناسب فراہمی یقینی بنانے کے لیے اسٹیٹ بینک نے سیالیت بڑھانے کا عمل جاری رکھا تاکہ نجی شعبے کے لیے قابل قرض رقوم کی وافر فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔

اجناس کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے جاری سرمائے کا استعمال کم ہوگیا۔ کچھ تلافی طویل مدت مالکاری میں اضافے کی بنا پر ہوئی جس سے پلانٹ اور مشینری میں نئی سرمایہ کاری کی نشاندہی ہوتی ہے۔ تاہم نجی شعبے کے لیے مجموعی قرض پچھلے سال سے کم رہا۔رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنا سرکاری قرضہ بلحاظ جی ڈی پی کا تناسب معمولی سا کم کر سکا جس کی اہم وجہ بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہونے والی ری ویلیوایشن کے فوائد تھے۔

قرضے کے بوجھ میں کمی اس حقیقت کے باوجود ہوئی کہ پاکستان نے نومبر 2014 میں پانچ سالہ صکوک بانڈ کامیابی سے جاری کیے جس سے حکومت 500 ملین ڈالر کے ابتدائی ہدف کے مقابلے میں ایک ارب ڈالر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ رپورٹ میں معیشت میں مثبت پیش رفت کا خیر مقدم کیا گیا ہے تاہم ان متعدد حل طلب ساختی رکاوٹوں کا بھی اعادہ کیا گیا ہے (مثلا سرمایہ کاری کی پست شرح، ٹیکس بہ نسبت جی ڈی پی کی پست شرح، اور توانائی کی مسلسل قلت) جو معیشت کی تیزی سے بحالی کی راہ میں حائل رہی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی حالات اور سلامتی کی صورت حال میں بہتری ایک موقع ہے جسے استعمال کر کے اقتصادی نمو میں حائل ساختی رکاوٹیں ترجیحی بنیادوں پر دور کی جا سکتی ہیں۔ مزید برآں، رپورٹ ایک موثر اور مربوط صنعتی پالیسی پر عملدرآمد کرنے پر بھی زور دیتی ہے تاکہ صنعتی اور برآمدی اساس کو توسیع دی جاسکے۔ نمو کی راہ میں حائل زرِ مبادلہ سے متعلق رکاوٹیں دور کرنے کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں