آرٹس کونسل میں عالمی اردو کانفر نس کے آخری روز کے چوتھے سیشن ’’ذرا ئع ابلاغ اور زبان‘‘کے حوالے سے ٹاک شوزکے انداز میں بات کی گئی

جمعہ 11 دسمبر 2015 22:42

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔11 دسمبر۔2015ء)آرٹس کونسل آف پاکستان کرا چی کے زیر اہتمام منعقدہ عالمی اردو کانفر نس کے آخری روز کے چوتھے سیشن ’’ذرا ئع ابلاغ اور زبان‘‘کے حوالے سے ٹاک شوزکے انداز میں بات کی گئی جس میں سنیئر صحافی فرہاد زیدی، رضا علی عابدی،غازی صلاح الدین،نذیر لغاری،وسعت اﷲ خان،اویس تو حیداور ہندوستان سے آئے ہوئے عبید صدیقی نے سیر حاصل گفتگو کی۔

نظامت کے فرائض انجم رضوی نے انجام دئیے۔فرہاد زیدی نے کہا کہ جب تک پرنٹ میڈیامیں پڑھے لکھے لوگ نہیں آئیں گے یہ ترقی نہیں کرسکتا۔ایسے ملک میں جہاں لوگ اسکول نہیں جاتے وہ علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے کے مقعولے پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پہلے ذرائع ابلاغ سے ہم زبان سیکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

اب ذرائع ابلاغ عوام کی زبان بول رہا ہے اور یہی خرابی کی وجہ ہے۔

ممتاز صحافی اور سنیئر براڈ کاسٹر رضا علی عابدی نے کہا کہ میڈیا ایک بازار ہو گیا ہے جہاں بھاؤ تھاؤ چل رہا ہے۔آج براڈ کاسٹر بننا بہت آسان ہوگیاہے جو پہلے بہت مشکل تھا۔رضا علی عابدی نے کہا کہ بہر حال ہمیں نہ امید ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہیں نہ کہیں سے کوئی شگوفہ ضرور پھوٹے گاجس سے حالات بدلیں گے ۔غازی صلاح الدین نے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان پڑھ ہیں جو لوگ پڑھے لکھے ہیں وہ بھی ان پڑھ ہیں۔

اخبار وہی پڑھے گا جسے پڑھنا آتا ہوگا۔میڈیا کی زبان اس وقت تک بہتر نہیں ہوگی جب تک ثقافت اور تعلیم کو ٹھیک نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں اخبارات لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوا ہے جبکہ ہمارے یہاں معاملہ بالکل الٹ ہے۔نذیر لغاری نے کہا کہ ہمارے یہاں ٹی وی چینلز زبان کے بگاڑ میں پیش پیش ہیں اطراف کو اعتراف اور سیاحی کو سیاہی لکھا جا رہا ہے۔

اب تو لگتا ہے کہ ہمیں اردو کا جنازہ ہے کہ دھوم سے نکلے نئی طرز کے ساتھ پڑھنا ہو گا۔کیونکہ اردو زبان کا جو حشر کیا جا رہا ہے وہ نا قابل بیان ہو تا جا رہا ہے۔وسعت اﷲ خان نے کہا کہ آج کے دور میں ذرائع ابلاٖغ میں نوجوانوں کے لئے کوئی رول ماڈل نہیں ہے۔ڈاکٹر شاہد مسعود اور عامر لیاقت حسین اچھی زبان بولتے ہیں لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ کیا پیغام دے رہے ہیں آج جب ہم اپنی نئی نسل کو کچھ دے نہیں رہے ہیں تو پھر یہ حق بھی نہیں کہ ہم ان کی زبان درست کر نے کی بات کر یں۔

ہندوستان کے صحافی عبید صدیقی نے کہا کہ آج ٹی وی چینلز بزنس کر نے کے لئے کھولے جارہے ہیں۔نیوزچینلز پر ٹریننگ کا فقدان ہے۔انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ایک نئی زبان جنم لے رہی ہے۔اویس تو حید نے کہا کہ نجی چینلز کی اولین ترجیح زبان کی حر مت اور تقدس کا خیال رکھنا نہیں ہے۔ہمارے معاشرے میں خرابی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ اب ادبی ماحول کادم گھٹتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔سماجی ویب سائٹس متبادل ذرائع ابلاغ کے طور پر فروغ پارہی ہیں نوجوان اب انٹر نیٹ کے ذریعے اخبار پڑھنے کو ترجیح دیتا ہے۔دنیا بھر میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ہمیں ان کو قبول کرنا ہوگا۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں